سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر ایک صاحب نصاب شخص باقاعدگی سے زکوة و صدقہ فطر ادا کر رہا ہو اور ساتھ ہی اس کے والد یا بڑے بھائی بھی علیحدہ سے اس شخص کی جگہ زکوۃ و صدقہ فطر ادا کر رہے ہوں، تو ایسے میں اگر وہ شخص (جو صاحب نصاب ہے) زکوة و صدقہ فطر ادا کرنا بند کر دے، تو کیا والد و بھائی کی طرف سے ادا کی گئی زکوة و صدقہ فطر اس کی طرف سے ادا شمار ہو گی یا نہیں؟
جواب: واضح رہے کہ کسی شخص کا دوسرے کی طرف سے صدقہ فطر اور زکوٰة ادا کرنے کے لیے اجازت لینا یا دینا ضروری ہے، اگر اجازت اور حکم کے بغیر صدقہ فطر یا زكوة ادا کی تو صدقہ فطر اور زكوة ادا نہیں ہوگی، لہذا صورت مسئولہ میں بڑے بھائی یا والد کا اس شخص کی طرف سے صدقہ فطر اور زكوة ادا کرنے کے لیے اجازت لینا یا اس شخص کا ان کو اجازت دینا ضروری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (53/2، ط: دار الکتب العلمیة)
أن الزكاة عبادة عندنا والعبادة لا تتأدى إلا باختيار من عليه إما بمباشرته بنفسه، أو بأمره، أو إنابته غيره فيقوم النائب مقامه فيصير مؤديا بيد النائب۔
الھندیة: (193/1، ط: دار الفکر)
ولا يجوز أن يعطي عن غير عياله إلا بأمره كذا في المحيط.، ولا يؤدي عن أجداده وجداته ونوافله كذا في التبيين .... والأصل أن صدقة الفطر متعلقة بالولاية والمؤنة فكل من كان عليه ولايته، ومؤنته ونفقته فإنه تجب عليه صدقة الفطر فيه، وإلا فلا كذا في شرح الطحاوي.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی