سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! گندم، جو، کھجور اور کشمش کے لحاظ سے صدقہ فطر کے چار ریٹ رکھنے کا کیا مقصد ہے؟
جواب: واضح رہے کہ صدقہ فطر ادا کرنے کا بنیادی مقصد عید کے دن مساکین و فقراء کے لیے رزق کا انتظام کرنا ہے، تاکہ وہ اس خوشی کے دن کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بچ جائیں، چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں مدینہ والوں کی عمومی خوراک گندم، جَو، کھجور اور کشمش وغیرہ تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی اجناس سے صدقہ فطر ادا کرنے کا حکم دیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ چار اجناس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں مدینہ والوں کی عمومی خوراک تھی اور ان غذائی اجناس کو بطور قیمت استعمال کیا جاتا تھا، اسی لیے ان کو مقرر کرنے میں صدقہ فطر ادا کرنے والے کے لیے بھی آسانی تھی اور لینے والے کےلیے بھی زیادہ فائدہ مند تھا، لیکن اب چونکہ ان غذائی اجناس کو بطور قیمت استعمال نہیں کیا جاتا ہے، لہذا اب صدقہ فطر میں ان اجناس کو دیا جاسکتا ہے اور ان کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
إعلام الموقعين: (18/3، ط: دار الکتب العلمیة)
صَدَقَةُ الْفِطْرِ لَا تَتَعَيَّنُ فِي أَنْوَاعٍ]
الْمِثَالُ الرَّابِعُ: «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَرَضَ صَدَقَةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ» وَهَذِهِ كَانَتْ غَالِبَ أَقْوَاتِهِمْ بِالْمَدِينَةِ، فَأَمَّا أَهْلُ بَلَدٍ أَوْ مَحَلَّةٍ قُوتُهُمْ غَيْرُ ذَلِكَ فَإِنَّمَا عَلَيْهِمْ صَاعٌ مِنْ قُوتِهِمْ، كَمَنْ قُوتُهُمْ الذُّرَةُ وَالْأُرْزُ أَوْ التِّينُ أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ مِنْ الْحُبُوبِ، فَإِنْ كَانَ قُوتُهُمْ مِنْ غَيْرِ الْحُبُوبِ كَاللَّبَنِ وَاللَّحْمِ وَالسَّمَكِ أَخْرَجُوا فِطْرَتَهُمْ مِنْ قُوتِهِمْ كَائِنًا مَا كَانَ، هَذَا قَوْلُ جُمْهُورِ الْعُلَمَاءِ، وَهُوَ الصَّوَابُ الَّذِي لَا يُقَالُ بِغَيْرِهِ؛ إذْ الْمَقْصُودُ سَدُّ خُلَّةِ الْمَسَاكِينِ يَوْمَ الْعِيدِ وَمُوَاسَاتُهُمْ مِنْ جِنْسِ مَا يَقْتَاتُهُ أَهْلُ بَلَدِهِمْ، وَعَلَى هَذَا فَيُجْزِئُ إخْرَاجُ الدَّقِيقِ وَإِنْ لَمْ يَصِحَّ فِيهِ الْحَدِيثُ، وَأَمَّا إخْرَاجُ الْخُبْزِ وَالطَّعَامِ فَإِنَّهُ وَإِنْ كَانَ أَنْفَعَ لِلْمَسَاكِينِ لِقِلَّةِ الْمُؤْنَةِ وَالْكُلْفَةِ فِيهِ فَقَدْ يَكُونُ الْحَبُّ أَنْفَعُ لَهُمْ لِطُولِ بَقَائِهِ وَأَنَّهُ يَتَأَتَّى مِنْهُ مَا لَا يَتَأَتَّى مِنْ الْخُبْزِ وَالطَّعَامِ، وَلَا سِيَّمَا إذَا كَثُرَ الْخُبْزُ وَالطَّعَامُ عِنْدَ الْمِسْكَيْنِ فَإِنَّهُ يَفْسُدُ وَلَا يُمْكِنُهُ حِفْظُهُ، وَقَدْ يُقَالُ: لَا اعْتِبَارَ بِهَذَا، فَإِنَّ الْمَقْصُودَ إغْنَاؤُهُمْ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ الْعَظِيمِ عَنْ التَّعَرُّضِ لِلسُّؤَالِ، كَمَا قَالَ النَّبِيُّ: «أَغْنُوهُمْ فِي هَذَا الْيَوْمِ عَنْ الْمَسْأَلَةِ» وَإِنَّمَا نَصَّ عَلَى تِلْكَ الْأَنْوَاعِ الْمُخْرَجَةِ لِأَنَّ الْقَوْمَ لَمْ يَكُونُوا يَعْتَادُونَ اتِّخَاذَ الْأَطْعِمَةِ يَوْمَ الْعِيدِ، بَلْ كَانَ قُوتُهُمْ يَوْمَ الْعِيدِ كَقُوتِهِمْ سَائِرَ السَّنَةِ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی