سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! اگر اسلامی مہینے کے چاند کو دیکھنے کے لیےمدار اور معیار رؤیت ھلال (یعنی برہنہ آنکھ سے چاند کو دیکھنا) ہی رکھا جائے، لیکن اس کے لیے سائنسی کیلکولیشن (یعنی نئےچاند کی پیدائش کب ہوئی اور کتنے گھنٹے کے بعد آنکھ سے دیکھنا ممکن ہوگا وغیرہ وغیرہ) کی مدد لی جائے، تو کیا یہ عمل شرعی اعتبار سے درست ہے؟
جواب: واضح رہے کہ چاند کے ثبوت کا مدار رؤیتِ بصری یعنی سر کی آنکھوں سے دیکھنے پر ہے، جیسا کہ واضح اور صریح احادیث سے پتہ چلتا ہے۔
صُومُوا لِرُؤْيَتِهِ وَأَفْطِرُوا لِرُؤْيَتِهِ ، فَإِنْ غُبِّيَ عَلَيْكُمْ فَأَكْمِلُوا عِدَّةَ شَعْبَانَ ثَلَاثِينَ (بخاری حدیث نمبر: 1909)
یعنی چاند ہی دیکھ کر روزے شروع کرو اور چاند ہی دیکھ کر روزہ موقوف کرو اور اگر بادل ہو جائیں تو تیس دن پورے کر لو۔
اسی لیے چاند کے ثبوت کے لئے فلکی حسابات پر مکمل اعتماد کرکے شرعاً معیار نہیں بنایا جاسکتا ہے، کیونکہ جمہور علماء کرام کے نزدیک فلکی حسابات سے یقینی علم حاصل نہیں ہوتا ہے ، چنانچہ اگر انتیس تاریخ کو ساری دنیا کے حساب دان چاند کے مطلع پر موجود ہونے اور سو فیصد قابل رویت ہونے کی پیشن گوئی کریں، مگر کسی وجہ سے مثلا ً:مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کیے جائیں گے اور محض حسابات کی بنیاد پر چاند ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا، البتہ چاند کے نظر آنے اور نہ آنے کا مدار رویت پر رکھ کر جدید وسائل اور حسابات سے مدد لی جاسکتی ہے، بشرطیکہ یہ حسابات اصول شریعت کے تابع ہوں اور ان پر عمل کرنے میں کسی شرعی اصول سے معارضہ( ٹکراؤ ) یا ترک لازم نہ آئے، جیسا کہ مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے رسالہ "رویت ھلال" میں لکھا ہے"مسئلہ ہلال میں اگر نئی ایجادات سے اس حد تک مدد لی جائے، جہاں تک اسلامی اصول مجروح نہ ہوں تو اس کا کس کو انکار ہے"(رویت ہلال"ص: 10)
اسی طرح مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں"قمری مہینے کا شروع ہونا چاند دیکھنے پر موقوف ہے، فلکیات کے فن سے اس میں اتنی مدد تو لی جاسکتی ہے کہ آج چاند ہونے کا امکان ہے یا نہیں؟ لیکن جب تک رُوٴیت کے ذریعہ چاند ہونے کا ثبوت نہ ہوجائے، محض فلکیات کے حساب سے چاند ہونے کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، مختصر یہ کہ چاند ہونے میں رُوٴیت کا اعتبار ہے، فلکیات کے حساب کا اعتبار بغیر رُوٴیت کے نہیں۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل: ج: 3، ص: 261)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ چاند کے ثبوت کے لیے اصل اعتماد رویت بصری پر ہوگا ، البتہ فلکی حسابات سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے، تاکہ احادیث مبارکہ پر بھی عمل ہو اور سائنسی حقائق کی بھی رعایت ہوسکے۔( ماخوذ از تسہیل الفلکیات بتغیر ، مولانا سلطان عالم)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
عمدة القاري: (272/10، ط: دار إحياء التراث العربي)
وَقَالَ أَبُو عمر فِي (الاستذكار) : وَقد كَانَ بعض كبار التَّابِعين يذهب فِي هَذَا إِلَى اعْتِبَاره بالنجوم ومنازل الْقَمَر، وَطَرِيق الْحساب. وَقَالَ ابْن سِيرِين، رَحمَه الله تَعَالَى: وَكَانَ أفضل لَهُ لَو لم يفعل، وَحكى ابْن شُرَيْح عَن الشَّافِعِي، رَضِي الله تَعَالَى عَنهُ، أَنه قَالَ: من كَانَ مذْهبه الِاسْتِدْلَال بالنجوم ومنازل الْقَمَر، ثمَّ تبين لَهُ من جِهَة النُّجُوم أَن الْهلَال اللَّيْلَة وغم عَلَيْهِ، جَازَ لَهُ أَن يعْتَقد الصَّوْم ويبيته ويجزيه. وَقَالَ أَبُو عمر: وَالَّذِي عندنَا فِي كتبه أَنه: لَا يَصح اعْتِقَاد رَمَضَان إلاَّ بِرُؤْيَة فَاشِية أَو شَهَادَة عادلة، أَو إِكْمَال شعْبَان ثَلَاثِينَ يَوْمًا، وعَلى هَذَا مَذْهَب جُمْهُور فُقَهَاء الْأَمْصَار بالحجاز وَالْعراق وَالشَّام وَالْمغْرب، مِنْهُم مَالك وَالشَّافِعِيّ وَالْأَوْزَاعِيّ وَالثَّوْري وَأَبُو حنيفَة وَأَصْحَابه وَعَامة أهل الحَدِيث إلاَّ أَحْمد وَمن قَالَ بقوله، وَذكر فِي (الْقنية) للحنفية: لَا بَأْس بالإعتماد على قَول المنجمين، وَعَن ابْن مقَاتل: لَا بَأْس بالاعتماد على قَوْلهم وَالسُّؤَال عَنْهُم، إِذا اتّفق عَلَيْهِ جمَاعَة مِنْهُم، وَقَول من قَالَ: إِنَّه يرجع إِلَيْهِم عِنْد الِاشْتِبَاه بعيد، وَعند الشَّافِعِي: لَا يجوز تَقْلِيد المنجم فِي حسابه، وَهل يجوز للمنجم أَن يعْمل بِحِسَاب نَفسه؟ فِيهِ وَجْهَان، وَقَالَ الْمَازرِيّ: حمل جُمْهُور الْفُقَهَاء قَوْله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: (فاقدروا لَهُ) ، على أَن المُرَاد إِكْمَال الْعدة ثَلَاثِينَ، كَمَا فسره فِي حَدِيث آخر، وَلَا يجوز أَن يكون المُرَاد حِسَاب النُّجُوم، لِأَن النَّاس لَو كلفوا بِهِ ضَاقَ عَلَيْهِم لِأَنَّهُ لَا يعرفهُ إلاَّ الْأَفْرَاد، والشارع إِنَّمَا يَأْمر النَّاس بِمَا يعرفهُ جماهيرهم، قَالَ الْقشيرِي: وَإِذا دلّ الْحساب على أَن الْهلَال قد طلع من الْأُفق على وَجه يرى لَوْلَا وجود الْمَانِع كالغيم مثلا، فَهَذَا يَقْتَضِي الْوُجُوب لوُجُود السَّبَب الشَّرْعِيّ، وَلَيْسَ حَقِيقَة الرُّؤْيَة مَشْرُوطَة فِي اللُّزُوم، فَإِن الِاتِّفَاق على أَن الْمَحْبُوس فِي المطمورة إِذا علم بإكمال الْعدة أَو بِالِاجْتِهَادِ أَن الْيَوْم من رَمَضَان وَجب عَلَيْهِ الصَّوْم، وَإِذا لم ير الْهلَال وَلَا أخبرهُ من رَآهُ، وَفِي (الاشراف) : صَوْم يَوْم الثَّلَاثِينَ من شعْبَان إِذْ لم ير الْهلَال مَعَ الصحو إِجْمَاع من الْأمة أَنه لَا يجب، بل هُوَ مَنْهِيّ عَنْهُم
حاشيتا قلیوبی و عميرة على المحلى: (63/2، ط: دار الفکر)
قَالَ الْعَلَّامَةُ الْعَبَّادِيُّ: إنَّهُ إذَا دَلَّ الْحِسَابُ الْقَطْعِيُّ عَلَى عَدَمِ رُؤْيَتِهِ لَمْ يُقْبَلْ قَوْلُ الْعَدْلِ لِرُؤْيَتِهِ، وَتُرَدُّ شَهَادَتُهُمْ بِهَا انْتَهَى. وَهُوَ ظَاهِرٌ جَلِيٌّ وَلَا يَجُوزُ الصَّوْمُ حِينَئِذٍ وَمُخَالَفَةُ ذَلِكَ مُعَانَدَةٌ وَمُكَابَرَةٌ
فتاوی السبکی لتاج الدين السبكى: (209/1، ط: دار المعارف)
وَهَهُنَا صُورَةٌ أُخْرَى وَهُوَ أَنْ يَدُلَّ الْحِسَابُ عَلَى عَدَمِ إمْكَانِ رُؤْيَتِهِ وَيُدْرَكُ ذَلِكَ بِمُقَدَّمَاتٍ قَطْعِيَّةٍ وَيَكُونُ فِي غَايَةِ الْقُرْبِ مِنْ الشَّمْسِ فَفِي هَذِهِ الْحَالَةِ لَا يُمْكِنُ فَرْضُ رُؤْيَتِنَا لَهُ حِسًّا لِأَنَّهُ يَسْتَحِيلُ فَلَوْ أَخْبَرَنَا بِهِ مُخْبِرٌ وَاحِدٌ أَوْ أَكْثَرُ مِمَّنْ يَحْتَمِلُ خَبَرُهُ الْكَذِبَ أَوْ الْغَلَطَ فَاَلَّذِي يُتَّجَهُ قَبُولُ هَذَا الْخَبَرِ وَحَمْلُهُ عَلَى الْكَذِبِ أَوْ الْغَلَطِ وَلَوْ شَهِدَ بِهِ شَاهِدَانِ لَمْ تُقْبَلْ شَهَادَتُهُمَا لِأَنَّ الْحِسَابَ قَطْعِيٌّ وَالشَّهَادَةَ وَالْخَبَرَ ظَنِّيَّانِ وَالظَّنُّ لَا يُعَارِضُ الْقَطْعَ فَضْلًا عَنْ أَنْ يُقَدَّمَ عَلَيْهِ وَالْبَيِّنَةُ شَرْطُهَا أَنْ يَكُونَ مَا شَهِدْت بِهِ مُمْكِنًا حِسًّا وَعَقْلًا وَشَرْعًا فَإِذَا فُرِضَ دَلَالَةُ الْحِسَابِ قَطْعًا عَلَى عَدَمِ الْإِمْكَانِ اسْتَحَالَ الْقَبُولُ شَرْعًا لِاسْتِحَالَةِ الْمَشْهُودِ بِهِ وَالشَّرْعُ لَا يَأْتِي بِالْمُسْتَحِيلَاتِ، وَلَمْ يَأْتِ لَنَا نَصٌّ مِنْ الشَّرْعِ أَنَّ كُلَّ شَاهِدَيْنِ تُقْبَلُ شَهَادَتُهُمَا سَوَاءٌ كَانَ الْمَشْهُودُ بِهِ صَحِيحًا أَوْ بَاطِلًا وَلَا يَتَرَتَّبُ وُجُوبُ الصَّوْمِ وَأَحْكَامُ الشَّهْرِ عَلَى مُجَرَّدِ الْخَبَرِ أَوْ الشَّهَادَةِ حَتَّى إنَّا نَقُولُ: الْعُمْدَةُ قَوْلُ الشَّارِعِ صُومُوا إذَا أَخْبَرَكُمْ مُخْبِرٌ فَإِنَّهُ لَوْ وَرَدَ ذَلِكَ قَبِلْنَاهُ عَلَى الرَّأْسِ وَالْعَيْنِ لَكِنَّ ذَلِكَ لَمْ يَأْتِ قَطُّ فِي الشَّرْعِ بَلْ وَجَبَ عَلَيْنَا التَّبَيُّنُ فِي قَبُولِ الْخَبَرِ حَتَّى نَعْلَمَ حَقِيقَتَهُ أَوَّلًا وَلَا شَكَّ أَنَّ بَعْضَ مَنْ يَشْهَدُ بِالْهِلَالِ قَدْ لَا يَرَاهُ وَيُشْتَبَهُ عَلَيْهِ أَوْ يَرَى مَا يَظُنُّهُ هِلَالًا وَلَيْسَ بِهِلَالٍ أَوْ تُرِيهِ عَيْنُهُ مَا لَمْ يَرَ أَوْ يُؤَدِّي الشَّهَادَةَ بَعْدَ أَيَّامٍ وَيَحْصُلُ الْغَلَطُ فِي اللَّيْلَةِ الَّتِي رَأَى فِيهَا أَوْ يَكُونُ جَهْلُهُ عَظِيمًا يَحْمِلُهُ عَلَى أَنْ يَعْتَقِدَ فِي حَمْلِهِ النَّاسَ عَلَى الصِّيَامِ أَجْرًا أَوْ يَكُونَ مِمَّنْ يَقْصِدُ إثْبَاتَ عَدَالَتِهِ فَيَتَّخِذُ ذَلِكَ وَسِيلَةً إلَى أَنْ يُزَكَّى وَيَصِيرَ مَقْبُولًا عِنْدَ الْحُكَّامِ،
فتاوى يسألونك للدكتور حسام الدين: (44/9، ط: دندیس، فلسطین)
وأود أن أبين أنه ينبغي الاستئناس بما يقرره علم الفلك وإن كان الأصل هو رؤية العين المجردة ولكن أصول الشريعة الإسلامية وقواعدها العامة لا تمنع أن نستعين بعلم الفلك وخاصة أنه علم متقدم ومتطور وعلم الفلك ليس مجرد حسابات وإنما هو رؤية ولكن بالمراصد والآلات فلا مانع شرعاً من الاستفادة من التقدم العلمي في هذا المجال وبالذات في حالة النفي أي إذا نفى علم الفلك احتمال رؤية الهلال بشكل قطعي فينبغي حينئذ عدم قبول ادعاء الرؤية
واللہ تعالی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی