سوال:
محترم مفتی صاحب ! محرم کے دنوں میں شربت، حلیم اور دیگر کھانے رشتہ دار پڑوسی گھر میں دیکر چلے جاتے ہیں، شریعت ان کھانوں سے متعلق کیا حکم دیتی ہے؟
جواب: واضح رہے کہ جو لوگ غیر اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے یا غیراللہ کے نام پرشربت، حلیم یا دیگر کھانوں کا اہتمام کرتے ہیں، ان لوگوں کے گھر کا شربت، حلیم کھانا بالکل حرام ہے، البتہ اگر کسی نے ان ایام میں محض ایک عادت اور رواج کے طور پر شربت یا حلیم وغیرہ بنالیا اور اس میں کسی قسم کی خرافات نہ ہو، تو ایسے شربت اور حلیم کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرۃ، الآیۃ: 173)
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيْرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ۔۔۔۔الخ
التفسیر الکبیر: (23/3، ط: دار الفکر)
والحجۃ فیہ انھم اذا ذبحوا علی اسم المسیح فقد اھلو بہ لغیر اللہ فواجب ان یحرم وروی عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ قال اذا سمعتم الیھود والنصاری یھلون لغیر اللہ فلا تاکلوا اھ۔
الدر المختار مع رد المحتار: (418/2، ط: دار الفکر)
وحديث التوسعة على العيال يوم عاشوراء صحیح
قال فی النھر: وتعقبہ ابن العز بانہ لم یصح عنہ ﷺفی یوم عاشوراء غیر صومہ وانما الروافض لما ابتدعوا اقامۃ الماتم واظھار الحزن یوم عاشوراء لکون الحسین قتل فیہ ابتدع جھل اھل السنۃ اظھار السرور و اتخاذ الحبوب والاطعمۃ والاکتحال اھ۔
و فیه ایضاً: (439/2، ط: دار الفکر)
واعلم أن النذر الذي يقع للأموات من أكثر العوام وما يؤخذ من الدراهم والشمع والزيت ونحوها إلى ضرائح الأولياء الكرام تقربا إليهم فهو بالإجماع باطل وحرام ما لم يقصدوا صرفها لفقراء الأنام وقد ابتلي الناس بذلك،
ولا سيما في هذه الأعصار وقد بسطه العلامة قاسم في شرح درر البحار، ولقد قال الإمام محمد: لو كانت العوام عبيدي لأعتقتهم وأسقطت ولائي وذلك لأنهم لا يهتدون فالكل بهم يتغيرون.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی