سوال:
مفتی صاحب ! ایک شخص کا انتقال ہو گیا ہے۔
اس تناظر میں چند سوالات کے جوابات مطلوب ہیں:
(1) ان کی قضا نمازوں اور قضا روزوں کا فدیہ ان کے " ترکہ" یعنی ان كی چھوڑی ہوئی چیزوں كو فروخت کرکے ادا کیا جاسکتا ہے یا ورثاء كو ان کا حصہ دینے کے بعد جو رقم بچے، اُس میں سے ادا کیا جائے؟
(2) کیا انکی اولاد انكی قضا نمازوں اور قضا روزوں کا فدیہ اپنے پیسوں سے ادا کر سکتی ہے، خواہ وہ پیسے اُنہیں اپنے والد کے انتقال کے بعد بطورِ میراث ملے ہوں؟
(3) اگر فدیہ کی رقم ادا کرنے کی حیثیت نہ ہو، تو قضا نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنے کے لیے "حیلہ" کرنا کیسا ہے؟
نیز قضا نمازوں اور روزوں کے فدیہ کے "حیلہ" کرنے کا طریقہ بھی بتادیں؟
جواب: واضح رہے کہ اگر مرحوم کے ذمے کچھ قضا نمازیں اور روزے ہوں، اور مرنے سے قبل اس نے فدیہ ادا کرنے کی وصیت بھی کی ہو، تو ورثاء کے لیے اس کی نمازوں اور روزے کا فدیہ کل ترکہ کے ایک تہائی سے ادا کرنا ضروری ہے، لیکن اگر ایک تہائی مال سے تمام نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا نہ ہو سکے، تو باقی ماندہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنا ورثاء کے ذمے لازم نہیں ہے، تاہم اگر ورثاء اپنی خوشی سے مرحوم کی بقیہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کر دیں، تو یہ ان کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا۔
اسی طرح اگر مرحوم نے اپنی فوت شدہ نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت ہی نہ کی ہو، تو اس صورت میں بھی ورثاء کے ذمہ مرحوم کی طرف سے فدیہ ادا کرنا لازم نہیں ہے، تاہم اگر ورثاء اپنی طرف سے بطور تبرع ادا کرنا چاہیں، تو ادا ہو جائے گا، اور امید ہے کہ مرحوم کو آخرت کی باز پرس سے نجات حاصل ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ نماز اور روزے کے فدیہ میں حیلہ کرنا فقہائے کرام نے ایسے شخص کیلئے تجویز فرمایا ہے، جس کی کچھ نمازیں اور روزے اتفاقاً فوت ہو گئے ہوں، اور بعد میں ان کو قضا کرنے کا موقع نہ ملا ہو، جس کی وجہ سے مرنے سے پہلے اس نے ان کا فدیہ ادا کرنے کی وصیت کردی ہو، مگر اتنا ترکہ نہ چھوڑا ہو، جس کے ایک تہائی مال سے اس کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کیا جا سکے، اور نہ ہی ورثاء اس قابل ہوں کہ اپنے مال سے مرحوم کی نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا کر سکیں، تو اس صورت میں فقہاء نے درج ذیل حیلہ اختیار کرنے کی گنجائش دی ہے۔
حیلہ کی صورت یہ ہے کہ ورثاء فدیے کی نیت سے کچھ رقم کسی مستحق زکوٰۃ فقیر کو دے کر اس کو رقم کا اس طور پر مالک بنا دیں کہ اگر وہ اس رقم کو خود استعمال کرنا چاہے تو ورثاء برا نہ مانیں، اور اس مستحق کو معلوم ہو کہ اگر میں یہ رقم مرحوم کے ورثاء کو نہیں دوں گا، تو انہیں واپس لینے کا اختیار بھی نہیں ہے، اس کے باوجود اگر وہ مستحق بغیر کسی دباؤ کے اپنی خوشی سے وہ رقم ورثاء کو واپس کر دے، اور پھر ورثاء اس مستحق کو یا کسی اور مستحق کو اسی طریقے کے مطابق دے دیں، وہ بھی اپنی خوشی سے انہیں واپس کر دے، اس طرح بار بار ورثاء یہ رقم کسی مستحق کو دیتے رہیں اور وہ اپنی خوشی سے واپس کرتا رہے، یہاں تک کہ مرحوم کی تمام نمازوں اور روزوں کا فدیہ ادا ہوجائے، تو اب وہ رقم آخر میں جس مستحق شخص کو ملے گی وہی رقم کا مالک ہوگا اور اسے اس رقم کو خرچ کرنے کا مکمل اختیار ہوگا، آخر میں ورثاء کو وہ رقم لینے کی اجازت نہیں ہے۔
تاہم بعض علاقوں میں اس حیلۂ اسقاط کو معمول بنا لیا گیا ہے، حالانکہ فقہائے کرام نے اس حیلے کو چند شرائط کے ساتھ مشروط کیا ہے، جن کا عام طور پر کوئی خیال نہیں رکھا جاتا، اور یہ سب ایک طے شدہ معاملے کے مطابق کیا جاتا ہے، جسکی وجہ سے یہ مروجہ حیلہ اسقاط ناجائز ہے، کیونکہ اس میں چند مزید خرابیاں بھی پائی جاتی ہیں کہ عوام کا عقیدہ فاسد ہو جاتا ہے، اس رسم کے بڑھانے سے عوام دلیر ہو جاتی ہے کہ نماز، روزہ سب حیلہ اسقاط سے ساقط ہو جائیں گے، اور یہ عمل مستقل اعمال تجہیز وتکفین میں سے سمجھا جاتا ہے، جو یقینا بدعت ہے اور ترکہ مشترکہ میں اس کو شمار کرنا جبکہ بعض وارث نابالغ ہوں حرام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند احمد: (رقم الحدیث: 25986)
عن سعد بن ابراہیم سمع القاسم قال: سمعت عائشۃ ؓ تقول: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من عمل عملا لیس علیہ أمرنا فہو رد۔
رد المحتار: (باب قضاء الفوائت، 73/2، ط: رشیدیة)
وبہ ظہر حال وصایا أہل زماننا ، فإن الواحد منکم یکون في ذمتہ صلوات کثیرۃ وغیرہا من زکاۃ وأضاح وأیمان ویوصی لذلک بدراہم یسیرۃ ویجعل معظم وصیتہ لقراء ۃ الختمات والتہالیل التی نص علماؤنا علی عدم صحۃ الوصیتہ بہا۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی