عنوان: کسی مسلمان کے دین کو گالی دینے سے اسلام سے خارج ہونے کا حکم(4907-No)

سوال: ایک مسئلہ کے بارے میں پوچھنا ہے کہ ایک عورت اپنے جہیز میں کچھ سامان لے کر آئی، جس میں ایک جوسر بھی تھا، شادی کے بعد ایک دفعہ شوہر نے بیوی سے کہا کہ تم اپنا جوسر بھابھی کو دے دو، انہیں ضرورت ہے تو بیوی نے کہا کہ نہیں، یہ تو میں اپنے جہیز میں لے کر آئی ہوں، شوہر خاموش ہو گیا، کچھ عرصے کے بعد شوہر اپنے گھر میں تھا اور بیوی اپنے آبائی علاقے اپنے ماں باپ کے گھر گئی ہوئی تھی، شوہر نے بیوی کو کہا کہ تم گھر واپس آجاؤ، بیوی نے کہا کہ آپ مجھے لینے آ جائیں تو میں آجاتی ہوں، شوہر نے کہا کہ میرا بھائی وہیں سے گھر آرہا ہے، تم اس کے ساتھ گھر آجاؤ تو بیوی نے کہا کہ نہیں، وہ میرا نامحرم ہے اور میں نامحرم کے ساتھ اتنا لمبا سفر نہیں کر سکتی، اس پر شوہر نے غصے میں آ کر کہا: "اس وقت تمہارا دین کہاں ماں چدوانے گیا تھا"، جب میں نے کہا تھا کہ جوسر نکال کر بھابھی کو دے دو اور تم نے میری بات نہیں مانی تھی، ان الفاظ کو سن کر بیوی پریشان ہوگئی کہ کہیں یہ الفاظ کفریہ نہ ہوں، جس کی وجہ سے ہمارا نکاح ختم نہ ہو گیا ہو؟ آپ حضرات بتائیں کہ کیا یہ کفریہ کلمات ہیں اور ان الفاظ کے کہنے سے کیا ان دونوں کا نکاح ختم ہو گیا ہے؟

جواب: سوال میں ذکر کردہ الفاظ کے ذریعے شوہر کا اپنی بیوی کو گالی دینا اور اس کے دین کو برا بھلا کہنا سنگین گناہ، بدترین فسق اور گمراہی ہے، لہٰذا شوہر پر لازم ہے کہ صدق دل سے توبہ و استغفار کرے اور آئندہ اس قسم کے ‏الفاظ سے اجتناب کرے۔
تاہم ان کلمات سے اگر شوہر کا شریعت اسلامیہ کی اہانت کرنا مقصود نہیں تھا، بلکہ مذکورہ الفاظ میں دین سے مراد اس ‏عورت کی بری عادات، برے اخلاق یا غلط رویہ تھا تو ان الفاظ کے کہنے سے شوہر کافر نہیں ہوگا، البتہ احتیاطاً اسے اپنے ایمان اور نکاح کی ‏تجدید کرلینی چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

جامع الفصولين: (176/2)‏
أقول: على هذا ينبغي أن يكفر من يشتم دين مسلم إلا أن يأول بأن مراده ‏أخلاقه الرديئة ومعاملته القبيحة لا حقيقة الإسلام فينبغي أن لا يكفر حينئذ ‏والله أعلم.

رد المحتار: (224/4، ط: دار الفكر)‏
وفي الفتاوى الصغرى: الكفر شيء عظيم فلا أجعل المؤمن كافرا متى وجدت ‏رواية أنه لا يكفر اه وفي الخلاصة وغيرها: إذا كان في المسألة وجوه توجب ‏التكفير ووجه واحد يمنعه فعلى المفتي أن يميل إلى الوجه الذي يمنع التكفير ‏تحسينا للظن بالمسلم زاد في البزازية إلا إذا صرح بإرادة موجب الكفر فلا ينفعه ‏التأويل ح وفي التتارخانية: لا يكفر بالمحتمل، لأن الكفر نهاية في العقوبة ‏فيستدعي نهاية في الجناية ومع الاحتمال لا نهاية اه والذي تحرر أنه لا يفتى ‏بكفر مسلم أمكن حمل كلامه على محمل حسن أو كان في كفره اختلاف ولو ‏رواية ضعيفة فعلى هذا فأكثر ألفاظ التكفير المذكورة لا يفتى بالتكفير فيها ‏ولقد ألزمت نفسي أن لا أفتي بشيء منها اه كلام البحر باختصار‎.‎

و فيه أيضا: (230/4، ط: دار الفكر)‏
ثم إن مقتضى كلامهم أيضا أنه لا يكفر بشتم دين مسلم: أي لا يحكم بكفره ‏لإمكان التأويل. ثم رأيته في جامع الفصولين حيث قال بعد كلام أقول: وعلى ‏هذا ينبغي أن يكفر من شتم دين مسلم، ولكن يمكن التأويل بأن مراده أخلاقه ‏الرديئة ومعاملته القبيحة لا حقيقة دين الإسلام، فينبغي أن لا يكفر حينئذ، ‏والله تعالى أعلم اه وأقره في [نور العين] ومفهومه أنه لا يحكم بفسخ النكاح، ‏وفيه البحث الذي قلناه.‏
وأما أمره بتجديد النكاح فهو لا شك فيه احتياطا خصوصا في حق الهمج ‏الأرذال الذين يشتمون بهذه الكلمة فإنهم لا يخطر على بالهم هذا المعنى أصلا. ‏وقد سئل في الخيرية عمن قال له الحاكم ارض بالشرع فقال لا أقبل فأفتى مفت ‏بأنه كفر وبانت زوجته فهل يثبت كفره بذلك؟ فأجاب: بأنه لا ينبغي للعالم أن ‏يبادر بتكفير أهل الإسلام إلى آخر ما حرره في البحر. وأجاب قبله في مثله ‏بوجوب تعزيره وعقوبته (قوله ولو رواية ضعيفة) قال الخير الرملي: أقول ولو ‏كانت الرواية لغير أهل مذهبنا، ويدل على ذلك اشتراط كون ما يوجب الكفر ‏مجمعا عليه‎.‎

الفتاوى الهندية: (283/2، ط: دار الفكر)‏
ما كان في كونه كفرا اختلاف فإن قائله يؤمر بتجديد النكاح وبالتوبة والرجوع ‏عن ذلك بطريق الاحتياط، وما كان خطأ من الألفاظ، ولا يوجب الكفر، ‏فقائله مؤمن على حاله، ولا يؤمر بتجديد النكاح والرجوع عن ذلك كذا في ‏المحيط.‏
إذا كان في المسألة وجوه توجب الكفر، ووجه واحد يمنع، فعلى المفتي أن يميل ‏إلى ذلك الوجه كذا في الخلاصة في البزازية إلا إذا صرح بإرادة توجب الكفر، ‏فلا ينفعه التأويل حينئذ كذا في البحر الرائق، ثم إن كانت نية القائل الوجه ‏الذي يمنع التكفير، فهو مسلم، وإن كانت نيته الوجه الذي يوجب التكفير لا ‏تنفعه فتوى المفتي، ويؤمر بالتوبة والرجوع عن ذلك وبتجديد النكاح بينه وبين ‏امرأته كذا في المحيط.‏

والله تعالىٰ أعلم بالصواب ‏
دارالافتاء الإخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 905 Jul 24, 2020
kisi ke / key deen / mazhab ko gali / gaali dene / deney ka hokom / hokum, Ruling / order to abuse / insult someone's religion

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.