resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: غیر مسلم ممالک کی طرف ہجرت کرکے وہاں مستقل سکونت اختیار کرنے کا حکم(5074-No)

سوال: مفتی صاحب! زندگی کا معیار بلند کرنے کے لیے کسی غیر اسلامی ملک کی طرف ہجرت کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: کسی غیر مسلم ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنا اور اس کی قومیت اختیار کرنا اور اس ملک کے باشندے اور ایک شہری ہونے کی حیثیت سے اس کو اپنا مستقل مسکن بنا لینا، ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا حکم زمانہ ، حالات اور وہاں رہائش اختیار کرنے والوں کی اغراض و مقاصد کے اختلاف سے مختلف ہو جاتا ہے، چنانچہ اس کی درج ذیل پانچ صورتیں ہیں:
(1)۔۔۔اگر کسی مسلمان کو اس کے وطن میں کسی جرم کے بغیر تکلیف پہنچائی جارہی ہو٬ یا اس کو جیل میں ظلماً قید کر لیا جائے٬ یا اس کی جائیداد ضبط کر لی جائے٬ اور کسی غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کرنے کے سوا ان مظالم سے بچنے کی اُس کے پاس کوئی صورت نہ ہو٬ ایسی صورت میں اس شخص کے لئے کسی غیر مسلم ملک میں رہائش اختیار کرنا اور اس ملک کا ایک باشندہ بن کر وہاں رہنا بلا کراہت جائز ہے٬ بشرطیکہ اس بات کا اطمینان ہو کہ وہاں جاکر عملی زندگی میں دین کے احکام پر کار بند رہے گا اور وہاں رائج شده منکرات و فواحشات سے اپنے کو محفوظ رکھ سکے گا۔
2۔۔۔اسی طرح اگر کوئی شخص معاشی مشکلات کا شکار ہو٬ اور اسے اپنے اسلامی ملک میں معاشی وسائل حاصل نہ ہوں ، تو ان حالات میں اگر اس کو کسی غیر مسلم ملک میں کوئی جائز ملازمت مل جائے، تو مذکورہ بالا شر ائط کے تحت اس کے لئے وہاں رہائش اختیار کرنا جائز ہے٬ اس لئے کہ حلال کمانا بھی دوسرے فرائض کے بعد ایک فرض ہے٬ جس کے لئے شریعت نے کسی مکان اور جگہ کی قید نہیں لگائی٬ بلکہ عام اجازت دی ہے کہ جہاں چاہو رزق حلال تلاش کرو٬ چنانچہ قرآن کریم کی آیت ہے:۔
{هو الذي جعل لكم الأرض ذلولا فامشوا في مناكبها وكلوا من رزقہ وإليه النشور} [الملك، آیت نمبر:۱۵]
ترجمہ: وہ ذات وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کو مسخر کر دیا۔ اب تم اسکے راستوں میں چلو اور خدا کی روزی میں سے کماؤ اور اسی کے پاس دوباره زنده ہو کر جانا ہے۔"
3... اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم ملک میں اس نیت سے رہائش اختیار کرے کہ وہ وہاں کے غیر مسلموں کو اسلام کی دعوت دے گا ، یا جو مسلمان وہاں مقیم ہیں٬ ان کو شریعت کے صحیح احکام بتائے گا اور ان کو دین اسلام پر جمے رہنے اور احکام شرعیہ پر عمل کرنے کی ترغیب دے گا٬ اس نیت سے وہاں رہائش اختیار کر نا نہ صرف یہ کہ جائز ہے، بلکہ باعث اجر و ثواب ہے٬ چنانچہ بہت سے صحابہ اور تابعین رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اسی نیک ارادے اور نیک مقصد کے تحت غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کی۔
4... چوتھی صورت یہ ہے کہ کوئی شخص سوسائٹی میں معزز بننے کے لئے اور دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی کے اظہار کے لئے غیر مسلم ممالک میں رہائش اختیار کرتا ہے یا دارالکفر کی شہریت اور قومیت کو دار الاسلام کی قومیت پر فوقیت دیتے ہوئے٬ اور اس کو افضل اور برتر سمجھتے ہوئے اس کی قومیت اختیار کرتا ہے٬ یا اپنی پوری عملی زندگی میں ان کا طرز اختیار کر کے ظاہری زندگی میں اُن کی مشابہت اختیار کرنے کے لئے اور ان جیسا بننے کے لئے رہائش اختیار کرتا ہے٬ ان تمام مقاصد کے لئے وہاں رہائش اختیار کرنا مطلقاًحرام ہے٬ جس کی حرمت محتاجِ دلیل نہیں ہے۔
5۔۔.پانچویں صورت (جس کے بارے میں سوال میں پوچھا گیا ہے) وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو اپنے ملک اور شہر میں اس قدر معاشی وسائل حاصل ہیں، جس کے ذریعہ وہ اپنے شہر کے لوگوں کے معیار کے مطابق زندگی گزار سکتا ہے٬ لیکن صرف معیار زندگی بلند کرنے کی غرض سے اور خوشحالی اور عیش و عشرت کی زندگی گزارنے کی غرض سے کسی غیر مسلم ملک کی طرف ہجرت کرتا ہے٬ تو ایسی ہجرت کراہت سے خالی نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں دینی یادنیاوی ضرورت کے بغیر اپنے آپ کو وہاں رائج شدہ فواحشات و منکرات کے طوفان میں ڈالنے کے مترادف ہے اور بلا ضرورت اپنی دینی اور اخلاقی حالت کو خطرہ میں ڈالنا کسی طرح بھی درست نہیں، اس لئے کہ مشاہدہ ہے کہ جو لوگ صرف عیش و عشرت اور خوش حالی کی زندگی بسر کرنے کے لئے وہاں رہائش اختیار کرتے ہیں، ان میں دینی حمیت کمزور ہو جاتی ہے اور ان کی اولاد وہاں کے ماحول سے متاثر ہوکر دین سے دوری اختیار کرلیتی ہے۔اسی وجہ سے حدیث شریف میں شدید ضرورت اور تقاضے کے بغیر مشرکین کے ساتھ رہائش اختیار کرنے کی ممانعت آئی ہے۔
چنانچہ ابو داؤد میں حضرت سمرة بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا:۔
"من جامع المشرک وسكن معه، فإنه مثله"
ترجمہ: جو شخص مشرک کے ساتھ موافقت کرے اور اس کے ساتھ رہائش اختیار کرے، وہ اسی کے مثل ہے۔" (سنن ابی داؤد، کتاب الضحايا)
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:
"أنا بريء من كل مُسلم يقيم بين أظْهُرِ المشركين٬ قالوا: يا رسول الله، لم؟ قال: " لا تَرَاءَى نارَاهما"
ترجمہ: میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں، جو مشرکین کے در میان رہائش اختیار کرے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا، یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا۔ دونوں کی آگ ایک دوسرے کو نظر نہ آئے۔"
اس حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا کہ کفار و مشرکین سے اتنی دور رہائش اختیار کی جائے کہ دونوں کو ایک دوسرے کی آگ بھی نظر نہ آئے٬ جیسا کہ اس زمانے میں کسی بستی میں کھانے وغیرہ کیلئے آگ جلائی جاتی تو دور سے نظر آتی تھی.
امام خطابی رحمہ اللہ تعالی٬ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ :
"مختلف اہل علم نے اس قول کی شرح مختلف طریقوں سے کی ہے، چنانچہ بعض اہل علم کے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ مسلمان اور مشرک علم کے اعتبار سے برابر نہیں ہو سکتے ، دونوں کے مختلف احکام ہیں اور دوسرے اہل علم فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے دار الاسلام اور دارالکفر دونوں کو علیحدہ علیحدہ کر دیا ہے، لہذا کسی مسلمان کے لئے کافروں کے ملک میں ان کے ساتھ رہائش اختیار کرنا جائز نہیں، اس لئے کہ جب مشرکین اپنی آگ روشن کریں گے اور یہ مسلمان ان کے ساتھ سکونت اختیار کئے ہوئے ہو گا، تو دیکھنے سے یہی خیال کیا جائے گا کہ یہ بھی انہیں میں سے ہے۔ علماء کی اس تشریح سے یہ بھی ظاہر ہو رہا ہے کہ اگر کوئی مسلمان تجارت کی غرض سے بھی دار الکفر جائے تو اس کے لئے وہاں پر ضرورت سے زیادہ قیام کرنا مکروہ ہے۔
(معالم السنن للخطابی ج۳ص۴۳۷)
اور مراسیل ابو داؤد عن الكحول میں روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:۔
"اپنی اولاد کو مشرکین کے در میان مت چھوڑو۔"(تھذیب السنن، ابن قیم ج۳ص۲۳۷)
لہذا مذکورہ صورت میں محض معیار زندگی بلند کرنے اور (اپنے فہم کے مطابق) بہتر زندگی گزارنے کی خاطر غیر مسلم ممالک میں مستقل سکونت اختیار کرنا مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر مناسب نہیں٬ اس سے اجتناب کرنا چاہیے.
ماخذہ: فقہی مقالات (ج1 ص 237-233 ط. میمن اسلامک پبلشرز)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم: (النساء، الایة: 144)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ أَتُرِيدُونَ أَنْ تَجْعَلُوا لِلَّهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَانًا مُبِينًاo

و قوله تعالیٰ: (ھود، الایة: 113)
وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَo

أحكام القرآن للجصاص: (9/2، ط: سھیل اکیدمی، لاھور)
"وقوله تعالى: {لايتخذ المؤمنون الكافرين أولياء من دون المؤمنين} الآية، فيه نهي عن اتخاذ الكافرين أولياء؛ لأنه جزم الفعل فهو إذا نهي وليس بخبر، قال ابن عباس: نهى الله تعالى المؤمنين بهذه الآية أن يلاطفوا ونظيرها من الآي، قوله تعالى: {لاتتخذوا بطانة من دونكم لايألونكم خبالا}، وقال تعالى: {لاتجد قوماً يؤمنون بالله واليوم الآخر يوادون من حاد الله ورسوله ولو كانوا آباءهم أو أبناءهم} الآية، وقال تعالى: {فلاتقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين}، وقال تعالى: {فلاتقعدوا معهم حتى يخوضوا في حديث غيره إنكم إذاً مثلهم}، وقال تعالى: {ولاتركنوا إلى الذين ظلموا فتمسكم النار}، وقال تعالى: {فأعرض عن من تولى عن ذكرنا ولم يرد إلا الحياة الدنيا}، وقال تعالى: {وأعرض عن الجاهلين}، وقال تعالى: {يا أيها النبي جاهد الكفار والمنافقين واغلظ عليهم}، وقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لاتتخذوا اليهود والنصارى أولياء بعضهم أولياء بعض}، وقال تعالى: {ولاتمدن عينيك إلى ما متعنا به أزواجا منهم زهرة الحياة الدنيا لنفتنهم فيه} فنهى بعد النهي عن مجالستهم وملاطفتهم عن النظر إلى أموالهم وأحوالهم في الدنيا.
روي أن النبي صلى الله عليه وسلم مر بإبل لبني المصطلق وقد عبست بأبوالها من السمن فتقنع بثوبه ومضى؛ لقوله تعالى: {ولا تمدن عينيك إلى ما متعنا به أزواجاً منهم}، وقال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لاتتخذوا عدوي وعدوكم أولياء تلقون إليهم بالمودة}، وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: أنا بريء من كل مسلم مع مشرك، فقيل: لم يا رسول الله؟ فقال: لا تراءى نارهما، وقال: أنا بريء من كل مسلم أقام بين أظهر المشركين. فهذه الآي والآثار دالة على أنه ينبغي أن يعامل الكفار بالغلظة والجفوة دون الملاطفة والملاينة ما لم تكن حال يخاف فيها على تلف نفسه أو تلف بعض أعضائه أو ضرراً كبيراً يلحقه في نفسه".

سنن أبي داود: (باب في الإقامة بأرض الشرك، رقم الحدیث: 2787، 152/3، ط: دار ابن حزم)
عن سمرة بن جندب، أما بعد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جامع المشرك وسكن معه فإنه مثله»".

و فیه ایضاً: (بَابُ النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ مَنِ اعْتَصَمَ بِالسُّجُودِ، رقم الحدیث: 2645، 73/3، ط: دار ابن حزم)
"عن جرير بن عبد الله، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم سرية إلى خثعم فاعتصم ناس منهم بالسجود، فأسرع فيهم القتل قال: فبلغ ذلك النبي صلى الله عليه وسلم فأمر لهم بنصف العقل وقال: «أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين». قالوا: يا رسول الله لم؟ قال: «لاتراءى ناراهما». قال أبو داود: «رواه هشيم، ومعمر، وخالد الواسطي، وجماعة لم يذكروا جريراً».

معالم السنن: (271/2)
"قال: أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين. قالوا: يا رسول الله! لِمَ؟ قال: لاترايا ناراهما... وقوله: لاترايا ناراهما. فيه وجوه: أحدها، معناه: لايستوي حكماهما، قاله بعض أهل العلم. وقال بعضهم: معناه أن الله قد فرق بين داري الإسلام والكفر، فلايجوز لمسلم أن يساكن الكفار في بلادهم حتى إذا أوقدوا ناراً كان منهم بحيث يراها.
وفيه دلالة على كراهة دخول المسلم دار الحرب للتجارة والمقام فيها أكثر من مدة أربعة أيام.
وفيه وجه ثالث ذكره بعض أهل اللغة، قال: معناه لايتسم المسلم بسمة المشرك ولايتشبه به في هديه وشكله، والعرب تقول (ما نار بعيرك أي ما سمته) ومن هذا قولهم: (نارها نجارها) يريدون أن ميسمها يدل على كومها وعتقها

بحوث في قضایا فقھیۃ معاصرة: (328,331/1، ط: مکتبه دار العلوم کراتشی)

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

ghair muslim mumaalik ki taraf hijrat kar ke / key wahan mustqil sukoonat ikhtiyar karne / karney ka hukum , Order / ruling to migrate to a non-Muslim countries and settle there permanently

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Prohibited & Lawful Things