سوال:
مفتی صاحب ! کیا کسی کی دعوت پر نفلی روزہ توڑا جا سکتا ہے؟ اگر توڑا جا سکتا ہے تو اس دعوت کی نوعیت کیا ہو؟ اور کیا روزہ توڑنے کے بعد اس کا کفارہ بھی ادا کرنا ہوگا؟
جواب: نفل روزہ شروع کرنے کے بعد واجب ہوجاتا ہے، لہذا بغیر کسی شدید عذر کے نفل روزہ توڑنا جائز نہیں ہے، اگر کوئی عذر ہو، تو اس وقت روزہ توڑنے کی اجازت ہوگی۔
واضح رہے کہ اگر کسی شخص نےکھانے کی دعوت دی ہو، اور مہمان کی دعوت میں شرکت نہ کرنے کی وجہ سے میزبان کی دل شکنی ہوتی ہو، تو ایسی صورت میں مہمان کیلیے نفل روزہ توڑنے کی اجازت ہے، لیکن بعد میں اس روزے کی صرف قضا کرنا واجب ہوگا، کفارہ اس صورت میں لازم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (428/2، ط: دار الفکر)
(ولزم نفل شرع فيه قصدا) كما في الصلاة، فلو شرع ظنا فأفطر أي فورا فلا قضاء أما لو مضى ساعة لزمه القضاء لأنه بمضيها صار كأنه نوى المضي عليه في هذه الساعة تجنيس ومجتبى (أداء وقضاء) أي يجب إتمامه فإن فسد ولو بعروض حيض في الأصح وجب القضاء (إلا في العيدين وأيام التشريق)۔۔۔۔۔
(والضيافة عذر) للضيف والمضيف (إن كان صاحبها ممن لا يرضى بمجرد حضوره ويتأذى بترك الإفطار) فيفطر (وإلا لا) هو الصحيح من المذهب ظهيرية.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی