سوال:
مفتی صاحب ! پوچھنا یہ تھا کہ گدھا، گھوڑا اور خچر پہلے حلال تھے یا حرام اور اگر حلال تھے، تو کب حرام ہوئے؟
جواب: 1) گدھے کے متعلق تفصیل یہ ہے کہ یہ ابتداء میں حلال تھا، مگر غزوہ خیبر کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھے کے گوشت کو کھانے سے منع فرما دیا تھا، اس لیے پالتو گدھے کا کھانا حلال نہیں ہے، البتہ وحشی گدھا جس کو نیل گائے کہا جاتا ہے، اس کا کھانا حلال ہے۔
2)گھوڑے کے متعلق حکم یہ ہے کہ گھوڑے کا گوشت فی نفسہ حلال ہے، البتہ آلہ جہاد ہونے کی وجہ سے اس کا کھانا مکروہ تحریمی ہے۔
3) خچر کے متعلق حکم یہ ہے کہ چونکہ خچر گدھے اور گھوڑے دونوں کے ملاپ سے پیدا ہوتا ہے، لہذا یہ حلت اور حرمت میں ماں کے تابع ہوگا، یعنی اگر گدھی کے ساتھ گھوڑا جفتی کرے، اور اس سے خچر پیدا ہو، تو وہ ماں (گدھی) کے تابع ہوکر حرام ہوگا، لیکن اگر گھوڑی کے ساتھ گدھا جفتی کرے، اور اس سے خچر پیدا ہو، تو وہ ماں (گھوڑی) کے تابع ہوکر حلال ہوگا، (اگرچہ مکروہ تحریمی ہے)۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب لحوم الحمر الانسیة، رقم الحدیث: 5524)
عن جابر بن اللہ قال: نھی النبي صلى الله عليه وسلم يوم خيبر عن لحوم الحمر، و رخص في لحوم الخيل‘‘.
و فیه ایضاً: (باب لحوم الحمر الانسیة، رقم الحدیث: 5523)
عن علی قال : نھی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم عن المتعۃ عام خیبر و لحوم حمر الانسیۃ۔
الھندیة: (290/5)
يكره لحم الخيل في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، خلافاً لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة، والصحيح أنه أراد بها التحريم، ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي: ما قاله أبوحنيفة رحمه الله تعالى أحوط، وما قالا أوسع، كذا في السراجية".
بدائع الصنائع: (38/5)
"وأما لحم الخيل فقد قال أبو حنيفة رضي الله عنه: يكره، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: لايكره، وبه أخذ الشافعي رحمه الله".
مجمع الانھر: (519/2، ط: دار إحیاء التراث العربي)
والمولود بین الأہلي والوحشي یتبع الأم؛ لأنہا ہي الأصل في التبعیۃ فیجوز بالبغل الذي أمہ بقرۃ وبالظبي الذي أمہ شاۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی