سوال:
مفتی صاحب ! اگر امام صاحب (ضاد) کی جگہ (دال) پڑھتے ہوں تو نماز ہو جائے گی یا نہیں؟
جواب: حرف "ضاد" کا ایک مستقل مخرج اور خاص آواز ہے، نہ یہ "دال" ہے، نہ یہ "ظا"، "ذال" اور "زا" ہے، بلکہ ان سب سے ہٹ کر الگ مخرج ہے، لہذا اس حرف کو اس کے مخرج اور آواز کے مطابق پڑھنا لازم ہے، چونکہ اس حرف کی ادائیگی آسان نہیں ہے، اس لیے کسی ماہر قاری سے سیکھ کر اس کی مشق کرنی چاہیے، چنانچہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر یا صحیح ادائیگی پر قدرت ہونے کے باوجود لا پرواہی سے"ضالین" کو "دالین" یا "ظالین" یا "ذالین" پڑھے گا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
ہاں! اگر کسی سے حرفِ "ضاد" ادا ہی نہ ہوتا ہو اور باوجود کافی کوشش کے "دال"، "ذال" یا "ظا" نکل جائے تو بحالت معذوری اس کی نماز ہوجائے گی۔
(ماخذہ: جواہر الفقہ: ١/ ٣٣٨، وفتاویٰ رشیدیہ: ۳۲۱، وکمال الفرقان علی ہامش جمال القرآن ۳۰-۳۱)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الھندیة: (79/1، ط: رشیدیة)
"و ان کان لا یمکن الفصل بین الحرفین الا بمشقۃ کالظا مع الضاد ....اختلف المشایخ، قال اکثرھم لا تفسد صلاتہ، وکذا فی فتاوی قاضیخان و کثیر من المشایخ أفتوا بہ".
زبدۃ ترتیل القرآن: (ص: 3)
"أعلٰی حافۃ اللسان وما یحاذیہا من الضراس العلیا، یخرج منہ الضاد المعجمۃ بشرط اعتماد رأس اللسان برأس العلیین الخ".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی