سوال:
میری والدہ ہر رمضان میں ساتھ والے گھر میں مقیم غیر مسلم خاتون کے لیے افطاری بھیجتی ہیں۔ کیا یہ کسی درجے میں جائز ہے؟ صدقے کی مد میں یا پڑوسی ہونے کی وجہ سے؟
جواب: اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ اسلام جس طرح اپنوں کی خیرخواہی کا حکم دیتا ہے، اسی طرح غیروں کی بھی خیرخواہی و حاجت روائی کا حکم دیتا ہے، پس اگر آپ کی والدہ پڑوسن غیر مسلم کو افطاری یا نفلی صدقہ دیتی ہیں تو کوئی حرج کی بات نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
البحر الرائق: (261/2، ط: دار الکتاب الاسلامی)
(قوله وصح غيرها) أي وصح دفع غير الزكاة إلى الذمي واجبا كان أو تطوعا كصدقة الفطر والكفارات والمنذور لقوله تعالى {لا ينهاكم الله عن الذين لم يقاتلوكم في الدين} [الممتحنة: ٨] الآية
الدر المختار: (351/2، ط: دار الفکر)
(ولا) تدفع (إلى ذمي) لحديث معاذ (وجاز) دفع (غيرها وغير العشر) والخراج (إليه) أي الذمي ولو واجبا كنذر وكفارة وفطرة
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی