سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب ! میرا سوال یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے ذاتی گھر سے دور رہتا ہے اور وہ سال یا چھ مہینے کے بعد کچھ دنوں کے لئے اپنے ذاتی گھر پر جاتا ہے، وہاں پر قصر نماز پڑھے گا یا مکمل نماز پڑھنی ہوگی؟
جواب: "وطن اصلی" وہ جگہ ہے، جہاں پر آدمی اپنے اہل و عیال کے ساتھ مستقل رہتا ہو، یا پیدائش کی جگہ ہو، اور اس میں زندگی گزارنے کا ارادہ رکھتا ہو، اور مستقل طور پر وہاں سے بال بچے اور مال و سامان لے کر کسی اور جگہ منتقل نہ ہو۔
اب اگر وہ ملازمت وغیرہ کی وجہ سے کسی دوسری جگہ عارضی طور پر سکونت اختیار کرتا ہے، تو اس سے وطن اصلی باطل نہیں ہوتا، اس لئے ضروری ہے کہ وہ جب بھی اپنے وطن اصلی میں داخل ہو، پوری نماز پڑھے، خواہ وہاں ایک ہی نماز پڑھنے کی نوبت آئے، اس کے لئے وہاں نمازوں میں قصر کرنا جائز نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
بدائع الصنائع: (102/1، ط: سعید)
وطن الاصلی وھو وطن الانسان فی بلدتہ او بلدۃ اخری اتخذھا دارا وتوطن بھا مع اھلہ وولدہ، ولیس من قصدہ الارتحال عنھا، بل تعیش بھا.
الھدایة: (176/1، ط: مکتبة رحمانیة)
و اذا دخل المسافر فی مصرہ، اتم الصلواۃ، و ان لم ینو المقام فیہ، لانہ علیہ السلام و اصحابہ رضوان اللہ علیہم کانوا یسافرون و یعودون الی اوطانھم مقیمین من غیر عزم جدید۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی