سوال:
ہماری والدہ ہسپتال میں تھیں، ہم نے غلطی سے قبلہ کے خلاف منہ کر کے نماز پڑھی، کیا ہماری نماز ہوگئی یا دہرانی ہوگی؟
جواب: قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا نماز کی شرائط میں سے ہے، اگر کسی شخص کو قبلہ رخ کا علم نہ ہو تو نماز شروع کرنے سے پہلے اسے وہاں موجود لوگوں سے قبلہ رخ معلوم کرنا ضروری ہے، ورنہ اس کے علاوہ دوسرے ذرائع سے قبلہ رخ معلوم کرنے کی کوشش کرے، اگر قبلہ معلوم کرنے کا کوئی بھی ذریعہ نہ ہو تو پھر خود ہی تحری (غور وفکر) کرنے کے بعد کسی ایک طرف قبلہ متعین کرکے نماز پڑھ لے تو نماز ہو جائے گی، لیکن اگر بغیر غور وفکر کیے بغیر غلط رخ پر نماز پڑھ لی تو نماز درست نہیں ہوگی، بعد میں اس کا اعادہ کرنا ضروری ہوگا۔
پوچھی گئی صورت میں چونکہ آپ کے لیے ہسپتال میں کسی سے پوچھ کر قبلہ رخ کا پتا کرنا ممکن تھا، لیکن آپ نے کسی سے پوچھے بغیر غلط رخ پر نمازیں ادا کیں ہیں، جس کی وجہ سے آپ کی وہ نمازیں ادا نہیں ہوئیں، لہذا آپ پر وہ تمام نمازیں لوٹانا ضروری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
نور الایضاح: (ص:69)
فإن شرع بلا تحر فعلم بعد فراغہ أنہ أصاب صحت وإن علم بإصابۃ فیہا فسدت۔
رد المحتار: (106/2، ط: دار الفکر)
وإن شرع بلا تحر لم یجز وإن أصاب؛ إلا إذا علم أصابتہ بعد فراغہ فلا یعید اتفاقاً۔
بخلاف صورۃ عدم التحري فإنہ لم یعتقد الفساد؛ بل ہو شاک فیہ وفي عدمہ فإذا ظہرت أصابتہ بعد التمام زال أحد الاحتمالین وتقرر الاٰخر بلا لزوم بناء القوی علی الضعیف بخلاف ما إذا علم الإصابۃ قبل التمام۔
البحر الرائق: (501/1)
وقید بالتحري لأن من صلّی ممن اشتبہت علیہ بلا تحرّ فعلیہ الإعادة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی