سوال:
میرے بڑے بیٹے کی عمر اس سال پندرہ ہوگئی ہے، تو ہم نے اسے اس سال رمضان کے روزے زبردستی رکھوانا شروع کیے، ابھی اسے روزہ رکھتے ہوئے پانچ دن ہی ہوئے تھے کہ ایک دن اس نے بھولے سے کچھ کھا پی لیا، لیکن چونکہ اسے بھولے سے کھانے پینے کی صورت میں روزہ نہ ٹوٹنے کا علم نہ تھا، تو تھوڑی دیر بعد اس نے جان بوجھ کر کچھ کھا پی لیا، اور بعد میں مجھے بتایا، تو مجھے یہ بتادیں کہ اس صورت میں میرے بیٹے کے روزہ کا کیا حکم ہے؟
جواب: صورتِ مسئولہ میں چونکہ آپ کے بیٹے نے بھولے سے کھا پی لیا اور اس کے بعد لاعلمی میں یہ سمجھ کر کھایا کہ میرا روزہ ٹوٹ چکا ہے، لہذا اس کھانے پینے کی وجہ سے آپ کے بیٹے کا روزہ ٹوٹ گیا اور اب آپ کے بیٹے پر اس روزہ کی صرف قضا لازم ہے اور کفارہ لازم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (401/2، ط: دار الفکر)
لم تجب الكفارة بإفطاره عمدا بعد أكله أو شربه أو جماعه ناسيا؛ لأنه ظن في موضع الاشتباه بالنظير، وهو الأكل عمدا؛ لأن الأكل مضاد للصوم ساهيا أو عامدا فأورث شبهة۔۔الخ
الهندية: (206/1، ط: دار الفکر)
لو أكل أو شرب أو جامع ناسيا وظن أن ذلك فطره فأكل متعمدا لا كفارة عليه، وإن علم أن صومه لا يفسد بالنسيان عند أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - لا تلزمه هو الصحيح هكذا في الخلاصة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی