سوال:
کیا بوقت ضرورت جوتے یا چپل پہن کر نماز پڑھی جا سکتی ہے؟
جواب: اگر جوتے پاک ہوں اور سجدہ کرتے وقت پاؤں کی انگلیاں جوتوں کے اگلے حصے کے ساتھ لگ جاتی ہوں تو ایسے جوتوں کے ساتھ نماز پڑھنا درست ہے، اور اگر جوتے ایسے ہوں کہ پاؤں کا اگلا حصہ یا کم از کم ایک انگلی بھی جوتے کے اگلے حصے تک نہ پہنچ سکے تو ایسے جوتے پہن کر نماز درست نہ ہوگی۔
اگر سائل کی مراد مسجد میں جوتے سمیت جانا ہے تو چونکہ آج کل مسجد میں جوتوں سمیت آنے کو بے احترامی اور بے ادبی سمجھا جاتا ہے، اور مسجد کے گندہ ہونے کا بھی احتمال ہوتا ہے، اس لیے مسجد میں جوتا یا چپل پہن کر نہیں آنا چاہیے، بلکہ مسجد کی شرعی حدود کے باہر جوتے اتار دینے چاہئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (657/1، ط: دار الفکر)
أن النبي صلى الله عليه وسلم وصحبه كانوا يمشون بها في طرق المدينة ثم يصلون بها
قلت: لكن إذا خشي تلويث فرش المسجد بها ينبغي عدمه وإن كانت طاهرة. وأما المسجد النبوي فقد كان مفروشا بالحصى في زمنه صلى الله عليه وسلم بخلافه في زماننا، ولعل ذلك محمل ما في عمدة المفتي من أن دخول المسجد متنعلا من سوء الأدب تأمل۔
الدر المختار: (447/1، ط: دار الفکر)
(ومنھا السجود) بجبھۃ وقدمیہ، ووضع اصبع واحدۃ منھما شرط۔
(قولہ وقدمیہ) یجب اسقاطہ لان وضع اصبع واحدۃ منھما یکفی کما ذکرہ بعدح وأفاد انہ لو لم یضع شیأ من القدمین لم یصح السجود۔
فتح الملہم: (باب جواز الصلاة فی النعلین، 399/3، ط: مکتبہ دار العلوم کراتشی)
قولہ: ’’قال: نعم‘‘ الخ: فیہ جواز الصلوۃ فی النعال والخفاف، ای اذا تحقق طھارتھا، ویتمکن معھا من تمام السجود، بأن یسجد علی جمیع اصابع رجلیہ، کما قالہ الخطابی۔
نجم الفتاوی: (672/2)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی