سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! مجھے یہ معلوم کرنا تھا کہ روزہ رکھنے کے لیے سحری کرنا لازمی ہے یا صرف نیت کرنے سے ہو جائے گئی؟ نیز سحری کا افضل وقت کونسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ روزہ کے لیے سحری کرنا لازم نہیں ہے، بغیر سحری کے بھی روزہ ہو جاتا ہے، البتہ سحری کرنا مسنون عمل ہے، حدیث شریف میں اس کی بڑی فضیلت آئی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہود و نصارٰی اور ہمارے روزوں میں صرف سحری کا فرق ہے، (یعنی وہ سحری نہیں کھاتے اور ہم سحری کھاتے ہیں)۔ (صحیح مسلم)
سحری کا آخری وقت صبح صادق سے پہلے تک ہے، اور سحری میں آخر وقت تک تاخیر کرنی چاہیے، حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: میری امت خیر پر رہے گی، جب تک سحری کھانے میں تاخیر اور روزہ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے۔(مسند احمد)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
مسند احمد: (رقم الحدیث: 3720)
عَنْ اَبِی ذَرٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((لاَ تَزَالُ اُمَّتِی بِخَیْرٍ مَا عَجَّلُوْا الْفِطْرَ وَاَخَّرُوا السُّحُوْرَ۔))
صحیح مسلم: (350/1، ط: قدیمی)
عن ابن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فصل ما بین صیامنا و صیام اھل الکتاب اکلۃ السحر۔
رد المحتار: (کتاب الصوم، 400/3)
ویستحب السحور وتاخیرہ وتعجیل الفطر لحدیث۔ ثلاث من اخلاق المرسلین تعجیل الافطار۔
الدر المختار: (371/2)
(ھو) لغۃ (امساک عن المفطرات الآتیۃ (حقیقۃ أو حکماً) کمن أکل ناسیاً فانہ ممسک حکماً(فی وقت مخصوص وھو الیوم (من شخص مخصوص) مسلم کائن فی دارنا أوعالم بالوجوب طاھر عن حیض او نفاس (مع النیۃ) المعھودۃ۔
(قولہ وھو الیوم) الیوم الشرعی من طلوع الفجر الی الغروب وھل المراد اول زمان الطلوع أو انتشارہ الضوء؟ فیہ خلاف کالخلاف فی الصلوۃ والاول أحوط والثانی أوسع کما قال الحلوانی کما فی المحیط۔
الفتاوی الھندیۃ: (194/1)
ووقتہ من حین یطلع الفجر الثانی وھو المستطیر المنتشر فی الافق الی غروب الشمس وقد اختلف فی ان العبرۃ لاول طلوع الفجر الثانی اولا ستطارتہ وانتشارہ فیہ قال شمس الائمۃ الحلوانی القول الاول أحوط والثانی أوسع ھکذا فی المحیط والیہ مال أکثر العلماء کذا فی خزانۃ الفتاویٰ فی کتاب الصلوۃ۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی