سوال:
مفتی صاحب! ایک مسافر شخص عشاء کی نماز میں چار رکعت فرض پڑھ لیں، اگلے دن یاد آیا کہ دو رکعت پڑھنی تھیں، اب اس کے لیے کیا حکم ہے، کیا فرض اور وتر دہرانے ہونگے؟
جواب: صورت مسئولہ میں اگر آپ نے عشاء کے فرض کی دوسری رکعت پر قعدہ کرلیا تھا، تو آخر میں سجدہ سہو کرنے سے آپ کی نماز درست ہوگئی، لیکن اگر آپ نے آخر میں سجدہ سہو نہیں کیا، تو اس نماز کے وقت کے اندر نماز کا اعادہ واجب تھا، وقت گزرنے کے بعد اب اس نماز کا اعادہ مستحب ہے۔
اور اگر آپ نے دوسری رکعت پر قعدہ نہیں کیا، تو چونکہ قعدہ اخیرہ فرض ہے، اور فرض کے چھوٹ جانے سے نماز ادا نہیں ہوتی، لہذا آپ کا فرض بھی ادا نہیں ہوا، اور اب اس نماز کا اعادہ کرنا لازم ہے، البتہ صرف فرض کا اعادہ کیا جائے گا، کیونکہ فرض کے فاسد ہونے سے وتر فاسد نہیں ہوتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (409/2، ط: سعید)
فلو أتم مسافر إن قعد في القعدة الأولیٰ تم فرضه ولکنه أساء، لو عامداً ؛ لتاخیر السلا م، وترک واجب القصر، وواجب تکبیرة افتتاح لنقل، وخلط النفل بالفرض و هذا لا یحل۔''
البحر الرائق: (230/2، ط: زکریا)
فلو أتمّ وقعد في الثانیة صحّ وإلا فلا أي وإن لم یقعد علی رأس الرکعتین لم یصحّ فرضہ الخ
بدائع الصنائع: (271/1)
إن من صلیٰ العشاء علی غیر وضوء وہو لا یعلم ثم توضأ فأوتر ثم تذکر أعاد صلاۃ العشاء بالاتفاق ولا یعید الوتر في قول أبي حنیفۃؒ وعندہما یعید۔ وجہ البناء علی ہذا الأصل أنہ لما کان واجبا عند أبي حنیفۃؒ کان أصلا بنفسہ في حق الوقت لا تبعا للعشاء کما غاب الشفق دخل وقتہ کما دخل وقت العشاء إلا أن وقتہ بعد فعل العشاء إلا أن تقدیم أحدہما علی الآخر واجب حالۃ التذکر فعند النسیان یسقط کما في العصر والظہر الذي یؤدیہما في وقت العصر یجب ترتیب العصر علی الظہر عند التذکر ثم تجوز تقدیم العصر علی الظہر عند النسیان۔
حاشیة الطحطاوی علی مراقی الفلاح: (ص: 461، ط: دار الکتب العلمیة)
"وإن تكرر" بالإجماع كترك الفاتحة والاطمئنان في الركوع والسجود والجلوس الأول وتأخير القيام للثالثة بزيادة قدر أداء ركن ولو ساكنا "وإن كان تركه" الواجب "عمدا أثم ووجب" عليه "إعادة الصلاة"
قوله: "ووجب عليه إعادة الصلاة" فإن لم يعدها حتى خرج الوقت سقطت عنه مع كراهة التحريم هذا هو المعتمد۔
رد المحتار: (426/2، ط: سعید)
قید فی البحر فی باب قضاء الفوائت وجوب الاعادۃ فی اداء الصلوۃ مع کراھۃ التحریم بما قبل خروج الوقت، اما بعد فتستحب...
فتاویٰ رحیمیہ: (234/5، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی