سوال:
مفتی صاحب! میں ایک جگہ جاب کرتا ہوں، جہاں ماہانہ تنخواہ ملتی ہے، رمضان میں انہوں نے اضافی پیسے دیے ہیں، اس قید کے ساتھ کہ اس کو سحری اور افطاری میں خرچ کرنا لازم ہے، تو کیا میں پابند ہوگیا ہوں؟ اگر مجھے کسی اور کام میں زیادہ ضرورت ہو تو وہاں خرچ کر سکتا ہوں؟
جواب: واضح رہے کہ ہدیہ ملی ہوئی رقم جب قبضہ میں آجاتی ہے، تو ہدیہ دینے والے کی طرف سے کسی خاص مصرف میں وہ رقم خرچ کرنا ضروری نہیں ہوتا ہے، بلکہ اسے اپنی دوسری ضروریات میں بھی خرچ کیا جا سکتا ہے، تاہم اگر ہدیہ دینے والے کی خوشی کی رعایت کی جائے تو بہتر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
العنایۃ شرح الھدایۃ: (19/9)
"الْهِبَةُ عَقْدٌ مَشْرُوعٌ لِقَوْلِهِ – عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ – «تَهَادَوْا تَحَابُّوا» وَعَلَى ذَلِكَ انْعَقَدَ الْإِجْمَاعُ (وَتَصِحُّ بِالْإِيجَابِ وَالْقَبُولِ وَالْقَبْضِ) أَمَّا الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ فَلِأَنَّهُ عَقْدٌ، وَالْعَقْدُ يَنْعَقِدُ بِالْإِيجَابِ، وَالْقَبُولِ، وَالْقَبْضُ لَا بُدَّ مِنْهُ لِثُبُوتِ الْمَلِكِ".
الدر المختار: (688/5)
(وَ) حُكْمُهَا (أَنَّهَا لَا تَبْطُلُ بِالشُّرُوطِ الْفَاسِدَةِ) فَهِبَةُ عَبْدٍ عَلَى أَنْ يُعْتِقَهُ تَصِحُّ وَيَبْطُلُ الشَّرْطُ"۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی