سوال:
السلام علیکم، جو احباب پاکستان سے باہر ممالک میں ہیں اور ان کے اہل وعیال پاکستان میں ہیں تو کیا ان کو اپنے بچوں کا صدقہ فطر وہاں دینا بہتر ہوگا یا پاکستان میں دینا بہتر ہوگا؟
جواب: صورت مسئولہ میں پاکستان اور پاکستان سے باہر جس ملک میں آپ مقیم ہیں، دونوں ہی جگہ صدقہ فطر ادا کیا جاسکتا ہے، البتہ اگر پاکستان میں آپ کے ایسے رشتے دار موجود ہیں، جو زکوۃ کے مستحق ہیں، یا پاکستان کے لوگ زیادہ ضرورت مند ہیں، تو ایسی صورت میں پاکستان میں صدقہ فطر دینا بہتر ہے، کیونکہ رشتہ داروں کو دینے میں صلہ رحمی وجہ ترجیح ہے، اور زیادہ ضرورت مند کو دینے میں اس کی غربت وجہ ترجیح ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن النسائی: (باب الصدقۃ علی الأقارب، رقم الحدیث: 2578)
عن سلمان ابن عامر رضي اللّٰہ عنہ عن النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: إن الصدقۃ علی المسکین صدقۃ، و علی ذي الرحم اثنتان: صدقۃ وصلۃ۔
مصنف ابن أبي شیبۃ: (412/2، ط: دار الکتب العلمیۃ)
عن الضحاک قال: إذا کان لک أقارب فقراء، فہم أحق بزکاتک من غیرہم۔
الدر المختار: (621/2، ط: سعید)
"قال الرحمتي: والحق التفصيل، فما كانت الحاجة فيه أكثر والمنفعة فيه أشمل فهو الأفضل كما ورد: «حجة أفضل من عشر غزوات». وورد عكسه فيحمل على ما كان أنفع، فإذا كان أشجع وأنفع في الحرب فجهاده أفضل من حجه، أو بالعكس فحجه أفضل...
الدر المختار مع رد المحتار: (355/2)
"والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال، وفي الوصية مكان الموصي، وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد، وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه.
(قوله: مكان المؤدي) أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه (قوله: وهو الأصح) بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه".
الفتاوى الھندية: (190/1)
"ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات"
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی