سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! کیا فطرہ دیتے وقت مد کا تعین لازمی ہے؟ مثال کے طور پر میں نے کسی مستحق کو 5 افراد کی طرف سے 1000 روپے دے دیے، تو کیا فطرہ ادا ہوگیا یا دوبارہ دینا پڑے گا؟
جواب: واضح رہے کہ صدقۃ الفطر کی ادائیگی کے لیے رقم دیتے وقت یا رقم کو صدقۃ الفطر کے لیے الگ کر کے رکھتے وقت صدقۃ الفطر کی نیت کرنا شرعاً ضروری ہوتا ہے، یہ نیت کرنے سے ہی اس رقم کی مد متعین ہو جاتی ہے، اگر بغیر کسی نیت کے مستحق کو رقم دیدی، تو بعد میں نیت کرنا معتبر نہیں ہے، اس سے صدقۃ الفطر ادا نہیں ہوگا۔
ہاں! اگر مستحق شخص کے پاس بعینہ وہ رقم موجود ہو، تو اب بھی اگر صدقۃ الفطر کی نیت کر لی جائے تو صدقۃ الفطر ادا ہو جائے گاہے، لیکن اگر مستحق نے وہ رقم خرچ کر دی، تو پھر نیت معتبر نہیں ہو گی۔
مد متعین کرنے سے آپ کی کوئی اور مراد ہے، تو اسے مکمل وضاحت سے لکھ کر بھیجیں، تو اس کا جواب دیا جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (187/3، ط: زکریا)
"وشرط صحۃ أدائہا نیۃ مقارنۃ لہ أي للأداء،
قولہ نیۃ: أشار إلی أنہ لا اعتبار للتسمیۃ فلو سماہا ہبۃ أو فرضاً تجزیہ في الأصح".
الفتاویٰ الھندیۃ: (كِتَابُ الزَّكَاةِ، 171/1، ط: دار الفكر)
"وَإِذَا دَفَعَ إلَى الْفَقِيرِ بِلَا نِيَّةٍ ثُمَّ نَوَاهُ عَنْ الزَّكَاةِ فَإِنْ كَانَ الْمَالُ قَائِمًا فِي يَدِ الْفَقِيرِ أَجْزَأَهُ، وَإِلَّا فَلَا، كَذَا فِي مِعْرَاجِ الدِّرَايَةِ وَالزَّاهِدِيِّ وَالْبَحْرِ الرَّائِقِ وَالْعَيْنِيِّ وَشَرْحِ الْهِدَايَةِ".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی