عنوان: جِنّات میں انبیائے کرام علیہم السلام کا مبعوث ہونا(7557-No)

سوال: مجھے ایک عالم نے بتایا ہے کہ جِنّات بھی مکلف ہوتے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا جِنّات میں بھی انبیائے کرام علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں یا نہیں؟

جواب: ۱)واضح رہے کہ امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت انسان اور جنات سب کے لیے ہوئی ہے،لیکن جناب رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے پہلے جنات میں انبیاء اور رسول مبعوث ہوئے یا نہیں؟ اس بارے میں علماء کرام کے مختلف اقوال پائے جاتے ہیں، ان اقوال میں راجح اور بہتر قول جمہور علماء کرام کا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :رسول اور نبی صرف انسانوں ہی میں مبعوث ہوئے ہیں، جنّات کی قوم میں سے کسی کوبھی رسول نہیں بنایا گیا۔
جمہور علماء کرام کے دلائل:
1) قرآن کریم کی کئی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول صرف انسانوں میں بھیجے گئے ہیں،وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى "اور ہم نے تم سے پہلے جو رسول بھیجے وہ سب مختلف بستیوں میں بسنے والے انسان ہی تھے جن پر ہم وحی بھیجتے تھے"۔ (سورۃ یوسف، آیت نمبر :۱۰۹ )
علامہ قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:یہ آیت مشرکین کے قول کہ ’’اللہ نے فرشتہ کو نبی بنا کرکیوں نہیں بھیجا‘‘کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور اس آیت کامعنی یہ ہے کہ ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھیجے وہ سب انسان مرد ہی تھے ،ان میں کوئی عورت ،کوئی جن اور کوئی فرشتہ رسول نہیں تھا۔ حسن بصری رحمہ فرماتے ہیں:اللہ تعالی نے نہ تو دیہات میں کبھی نبی بھیجا ،نہ عورت اور نہ ہی کسی جن کو نبی بنا کر بھیجا۔ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں: یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے کسی جن ،عورت اور نہ کسی دیہاتی کو نبی بناکر بھیجا۔

2) وہ جنات جنہوں نے جناب رسول اللہ ﷺ سے قرآن کریم سنا جب وہ اپنی قوم کے پاس گئے تو "انہوں نے کہا : اے ہماری قوم کے لوگو ! یقین جانو ہم نے ایک ایسی کتاب سنی ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) کے بعد نازل کی گئی ہے" اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام جنات کی طرف بھی بھیجے گئے تھے"۔
اس طرح کے کئی ایک دلائل سے جمہور علماکے موقف کی تائید ہوتی ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:انسان جنات کی بنسبت کامل اور تام العقل ہے تو ان میں تین صنف زیادہ ہیں جو جنات میں نہیں ہیں ،اور وہ رسل ،انبیاء اور مقربین ہیں اور جنات میں ان میں سے کوئی صنف نہیں ہے بلکہ ان کا زیور نیکی ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ قول انتہائی کمزور ہے کہ جنات میں بھی رسول بھیجے گئے ہیں ،صحابہ کرام ،تابعین اور ائمۃ المسلمین میں کسی سے منقول نہیں ہے اور جہاں تک سورۃ الانعام کی آیت نمبر۱۳۰ ہے تووہ ظاہر پر محمول نہیں ہے۔
علامہ سبکی فرماتے ہیں کہ آیت’’ يَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي‘‘ (سورة الانعام، آیت نمبر:30) ("اے جنات اور انسانوں کے گروہ ! کیا تمہارے پاس خود تم میں سے وہ پیغمبر نہیں آئے تھے جو تمہیں میری آیتیں پڑھ کر سناتے تھے"۔) کی تفسیر میں حضرت ابن عباس ،ابن جریج وغیرہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ انسانوں کے رسو ل اللہ تعالی نے انسانوں کی طرف بھیجے اور جنات کے رسول اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں بھیجے گئے تھے، بلکہ ان کو اللہ تعالی ٰ نے زمین میں پھیلایا، انہوں نے بنی آدم کے انبیاء اور رسولوں کے کلام کو سنا اور اپنی جنّ قوم کی طرف آکر وہ پیغام انہیں پہنچایا،جیسا کہ سورۃ الاحقاف کی مذکورہ آیت میں ہے تو معلوم ہوا کہ جنات اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول نہیں تھے، بلکہ وہ انبیا ء علیہم السلام کے قاصد اور پیغام رسا تھے اور اپنی قوم کے منذر(ڈارانے والے )تھے،سورۃ الانعام کی آیت ۱۳۰ میں ان کو مجازاً رسول کہا گیا ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ رسول صرف انسانوں میں بھیجے گئے اور جنات میں منذر(ڈارانے والے ) بھیجے گئے جو رسولوں کے رسول(قاصد)تھے۔ قاضی بدرالدین شبلی فرماتے ہیں: جمہور علماء کرام کے نزدیک جنات میں کبھی بھی کوئی رسول نہیں آیا اور رسول انسانوں ہی میں سے آئے ہیں۔ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ جمہور علماء کرام کا قول راجح ہےکہ رسول اور نبی صرف انسانوں میں ہی مبعوث ہوئے ہیں اور جنات کی قوم میں سے کسی کو رسول نہیں بنایا گیا ہے۔
۲)قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ انسانوں کی طرح جنات بھی مکلف ہیں، ان کا بھی حساب کتاب ہوگا اور انہیں بھی جنت یا دوزخ ملے گی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

التفسير الكبير :(150/13، ط: دار إحياء التراث العربي)
اختلفوا هل كان من الجن رسول أم لا؟ فقال الضحاك: أرسل من الجن رسل كالإنس ۔۔۔والقول الثاني: وهو قول الأكثرين: أنه ما كان من الجن رسول البتة وإنما كان الرسل من الإنس.

تفسير القرطبي : (86/7، ط: دار الكتب المصرية)
وقال ابن عباس: رسل الجن هم الذين بلغوا قومهم ما سمعوه من الوحي، كما قال:" ولوا إلى قومهم منذرين ". وقال مقاتل والضحاك: أرسل الله رسلا من الجن كما أرسل من الإنس. وقال مجاهد: الرسل من الإنس، والنذر من الجن، ثم قرأ" إلى قومهم منذرين «2» ". وهو معنى قول ابن عباس، وهو الصحيح

فتاوى السبكي: (618/2، ط: دار المعارف)
سئل الضحاك عن الجن هل كان فيهم من نبي قبل أن يبعث النبي - صلى الله عليه وسلم -؟ فقال: ألم تسمع إلى قول الله تبارك وتعالى {يا معشر الجن والإنس} [الأنعام: 130]- الآية يعني بذلك رسلا من الإنس ورسلا من الجن؟ قالوا: بلى، ۔۔۔والأكثرون خالفوا الضحاك وقالوا: لم يكن من الجن قط رسول ولم تكن رسل إلا من الإنس.
نقل معنى هذا عن ابن عباس وابن جرير ومجاهد والكلبي وأبي عبيد والواحدي مع قوله: إن الآية تدل للضحاك لكن هؤلاء يتأولونها، واختلفوا في تأويلها فقال ابن عباس ومجاهد وابن جريج وأبو عبيد ما معناه: إن رسل الإنس رسل من الله إليهم ورسل الجن قوم من الجن ليسوا رسلا عن الله ولكن بثهم الله في الأرض فسمعوا كلام رسل الله الذين هم من بني آدم وجاءوا إلى قومهم من الجن فأخبروهم كما اتفق للذين صرفهم الله إلى النبي - صلى الله عليه وسلم - واستمعوا القرآن وولوا إلى قومهم منذرين فهم رسل عن الرسل لا رسل عن الله تعالى ويسمون نذرا ويجوز تسميتهم رسلا لتسمية رسل عيسى رسلا في قوله تعالى {إنا إليكم مرسلون} [يس: 14] وجاءقوله {يا معشر الجن والإنس ألم يأتكم رسل منكم} [الأنعام: 130] على ذلك فالرسل على الإطلاق من الإنس وهم رسل الله، والنذر من الجن وهم رسل الرسل ويجوز تسميتهم رسلا هذا قول هؤلاء.

تفسير القرطبي: (274/9، ط: دار الكتب المصرية)
قوله تعالى: (وما أرسلنا من قبلك إلا رجالا نوحي إليهم من أهل القرى) هذا رد على القائلين:" لولا أنزل عليه ملك" [الأنعام: 8] أي أرسلنا رجالا ليس فيهم امرأة ولا جني ولا ملك قال الحسن: لم يبعث الله نبيا من أهل البادية قط، ولا من النساء، ولا من الجن.

طريق الهجرتين لابن القيم: (416، ط: دار السلفية)
ولما كان الإنس أكمل من الجن وأتم عقولاً ازدادوا عليهم بثلاثة أصناف أُخر ليس شيء منها للجن، وهم: الرسل، والأنبياءُ والمقربون. فليس فى الجن صنف من هؤلاءِ، بل حيلتهم الصلاح: وذهب شذاذ من الناس إلى أن فيهم الرسل والأنبياءَ محتجين على ذلك بقوله تعالى: {يَا مَعْشَرَ الْجِنَّ وَالإِنْسِ أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ} [الأنعام: 130] ، وبقوله: {وَإِذ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَراً مِنَ الْجِنِّ} إلى قوله: {مُنْذِرِينَ} [الأحقاف: 29] ، وقد قال الله تعالى: {رُسُلاً مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ} [النساء: 165] ، وهذا قول شاذ لا يلتفت إليه ولا يعرف به سلف من الصحابة والتابعين وأئمة الإسلام، وقوله تعالى: {أَلَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِّنْكُمْ} [الأنعام: 130] ، لا يدل على أن الرسل من كل واحدة من الطائفتين، بل إذا كانت الرسل من الإنس وقد أُمرت الجن باتباعهم [صح أن يقال للإنس والجن: ألم يأتكم رسل منكم ونظير هذا] أن يقال للعرب والعجم: ألم يجئكم رسل منكم يا معشر العرب والعجم؟ فهذا لا يقتضى أن يكون من هؤلاءِ رسل ومن هؤلاء.وقال تعالى: {وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُوراً} [نوح: 16] ، وليس فى كل سماءٍ قمر. وقوله تعالى: {وَلَّوْا إِلَى قَوْمِهِمْ مُنْذِرِينَ} [الأحقاف: 29] ، فالإنذار أعم من الرسالة والأعم لا يستلزم الأخص، قال تعالى: {فَلَوْلا نَفَر مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مَنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِى الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ} [التوبة: 122] ، فهؤلاءِ نذر وليسوا برسل. قال غير واحد من السلف: الرسل من الإنس، وأما الجن ففيهم النذر. قال تعالى: {وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلا رِجَالاً نُوحِى إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الْقُرَي} [يوسف:109] ، فهذا يدل على أنه لم يرسل جنياً ولا امرأة ولا بدوياً

آكام المرجان في أحكام الجان: (62، ط: مكتبة القرآن)
قال أبو عمر بن عبد البر الجن عند الجماعة مكلفون مخاطبون لقوله تعالى {فبأي آلاء ربكما تكذبان} وقال الرازي في تفسيره أطبق الكل على أن الجن كلهم مكلفون فصل قال القاضي عبد الجبار لا نعلم خلافا بين أهل النظر في الجن مكلفون

أيضا: (63، ط: مكتبة القرآن)
جمهور العلماء سلفا وخلفا على أنه لم يكن من الجن قط رسول ولم تكن الرسل إلا من الإنس ونقل معي هذا عن ابن عباس وابن جريح ومجاهد والكلبي وأبي عبيد والواحدي

واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 1475 May 19, 2021
kia jinnat mai anbia maboos mabous hoye howe hain?, Have prophets been sent to the jin / devils?

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Beliefs

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.