سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ آج کل نوجوان نسل اور چھوٹی عمر کے بچےجن کو سمجھ ہے، وہ صبح سے لے کر رات تک پب جی گیم پر مصروف رہتے ہیں یا پھر سوشل میڈیا پر مصروف رہتے ہیں کیا شریعت کے حوالے سے یہ جائز ہے؟ اگر نہیں ہے تو کس طرح ان کو سمجھایا جائے کہ وہ باز آجائیں؟ مہربانی فرما کر جواب عنایت فرمائیں جزاک اللہ
جواب: واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے کھیلوں سے مطلقاً منع نہیں کیا ہے، بلکہ ایسے کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی ہے، جن سے جسمانی فائدہ ہوتا ہو، جیسے: گھڑسواری، تیراکی، تیراندازی وغیرہ، اور ان کھیلوں کی حوصلہ شکنی کی ہے، جن میں لگنے سے وقت ضائع ہوتا ہو، اور دنیوی اور دینی کوئی فائدہ نہ ہوتا ہو، اور ایسے کھیلوں کو ناجائز قرار دیا ہے، جن کی وجہ سے حرام کاموں کا ارتکاب لازم آتا ہو۔
اگر موبائل فون یا کمپیوٹر وغیرہ پر گیم، فیس بک، واٹس ایپ اور دیگر سوشل سائٹ وغیرہ میں مشغول ہوکر کسی فرض و واجب کا ترک یا کسی حرام کا ارتکاب لازم آئے، تو یہ لھوالحدیث (ایسی اشیاء جو اللہ کی یاد سے غافل کردیں) میں داخل ہے، اس صورت میں اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا، البتہ اگر اس کے استعمال سے کسی فرض و واجب کا ترک یا کسی حرام کا ارتکاب تو لازم نہ آئے، لیکن بے فائدہ استعمال ہو، تو پھر اس صورت میں اس کا استعمال لایعنی ہونے کی وجہ سے مکروہ ہوگا، کیونکہ یہ ایک بے فائدہ کام میں اپنی توانائی اور وقت کو ضائع کرنا ہے۔
خیال رہے کہ اولاد کی تربیت والدین کی ذمہ داری ہے، انہیں اس سے کسی صورت غفلت اور کوتاہی نہیں برتنی چاہیے، اس سلسلے میں بچوں کو نرمی سے سمجھایا جائے، اور وقت پڑنے پر مناسب سختی بھی کی جائے، نیز بچوں کی رہنمائی ایسی متبادل تفریحات کی طرف کی جائے، جس سے بچے کے وقت کا مثبت استعمال ہوسکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (اللقمان، الآیۃ: 6)
وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌo
و قولہ تعالیٰ: (المومنون، الآیۃ: 3-1)
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۙo الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ ۙo وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ عَنِ اللَّغۡوِ مُعۡرِضُوۡنَo
سنن الترمذي: (أبواب الزھد، رقم الحدیث: 2317)
عن ابی ھریرہ رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “من حسن اسلام المرء ترکہ ما لا یعنیہ”
مرقاة المفاتيح: (باب حفظ اللسان، 3040/7، ط: دار الفكر)
"(قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من حسن إسلام المرء) أي: من جملة محاسن إسلام الشخص وكمال إيمانه (تركه ما لا يعنيه) ، أي: ما لايهمه ولايليق به قولًا و فعلًا و نظرًا و فكرًا، فحسن الإسلام عبارة عن كماله، وهو أن تستقيم نفسه في الإذعان لأوامر الله تعالى ونواهيه، والاستسلام لأحكامه على وفق قضائه وقدره فيه، وهو علامة شرح الصدر بنور الرب، ونزول السكينة على القلب، وحقيقة ما لايعنيه ما لايحتاج إليه في ضرورة دينه ودنياه، و لاينفعه في مرضاة مولاه بأن يكون عيشه بدونه ممكنًا، وهو في استقامة حاله بغيره متمكنًا، وذلك يشمل الأفعال الزائدة والأقوال الفاضلة، فينبغي للمرء أن يشتغل بالأمور التي يكون بها صلاحه في نفسه في أمر زاده بإصلاح طرفي معاشه ومعاده، وبالسعي في الكمالات العلمية والفضائل العملية التي هي وسيلة إلى نيل السعادات الأبدية، والفوز بالنعم السرمدية، ولعل الحديث مقتبس من قوله تعالى: {والذين هم عن اللغو معرضون} [المؤمنون: 3]."
رد المحتار: (کتاب الحظر و الإباحۃ، 360/6، ط: سعید)
کل ما أدی إلی ما لا یجوز لا یجوز۔
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی