سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! اگر کسی فرض نماز (مثلاً مغرب کی نماز) میں امام تین رکعت کی جگہ دو رکعت کے بعد سلام پھیر لے، اور سلام پھیرنے کے بعد کوئی بتائے کہ دو رکعت ہوئی ہیں تو اس صورت میں امام نماز کو کیسے درست کرے؟ نیز جو مقتدی نماز کے درمیان میں شامل ہوئے تھے اور امام کے سلام پھیرنے کے بعد بقیہ نماز پوری کرنے کے لیے کھڑے ہوگئے، ان کی نماز کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: اگر امام نے مغرب کی نماز میں بھول کر دوسری رکعت پر سلام پھیردیا، لیکن نماز کے بعد سینہ قبلہ سے نہیں پھیرا تھا اور نہ ہی کسی سے بات کی تھی، اور اسی حالت میں کسی مقتدی نے امام کو اپنے الفاظ (امام صاحب ! دو رکعت ہوئی ہیں) میں لقمہ دیا اور امام محض مقتدی کے لقمہ کی بنیاد پر نہیں، بلکہ اپنے سوچنے کی بنیاد پر تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوا، اور رکعت مکمل کرنے کے بعد اخیر میں سجدہ سہو بھی کرلیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز ہوگئ۔
لیکن اگر امام اپنی یادداشت کی بنیاد پر نہیں، بلکہ محض مقتدی کے لقمہ کی بنیاد پر کھڑا ہوا، تو چونکہ خارج نماز (نماز سے باہر شخص) کا لقمہ لینے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے، اس لیے اس صورت میں امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہوجائے گی۔
واضح رہے کہ دونوں صورتوں میں جس مقتدی نے بھی سلام کے بعد امام کو لقمہ دینے کے لیے یہ کہا تھا کہ "صرف دو رکعتیں ہوئیں ہیں" تو اس جملے سے اس کی نماز فاسد ہوگئی ہے، وہ اپنی نماز دوبارہ لوٹائے۔
مزید یہ کہ صورت مسئولہ میں اگر امام تیسری رکعت کے لیے کھڑا ہوتا ہے، تو مسبوق بھی امام کی پیروی کرے گا، اور تیسری رکعت پر امام کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی بقیہ نماز پوری کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (99/1، ط: دار الفکر)
وإن فتح غير المصلي فأخذ بفتحه تفسد. كذا في منية المصلي وإن فتح على إمامه لم تفسد۔
و فیھا ایضاً: (98/1، ط: دار الفکر)
ولو سلم على رأس الركعتين على ظن أنها رابعة فإنه يمضي على صلاته ويسجد للسهو. كذا في فتاوى قاضي خان.
الفتاوی التاتارخانیۃ: (145/2، ط: قديمی کتب خانہ)
واذا سلم الامام فالمؤتم یتأني ولا يتعجل في القيام وينظر هل يشتغل الإمام بقضاء مانسيه من صلاته فاذا تيقن فراغ الامام من صلاته حينئذ يقوم المسبوق بعد سلام الامام الي قضائه ولايسلم مع الامام لانه في وسط صلاته.
کذا فی فتاوی بنوری تاؤن: رقم الفتوی: 144008201254
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی