سوال:
ذی الحج کے 9 روزوں کی بڑی فضیلت بیان کی گی ہے، کیا یہ حدیث سے ثابت ہیں؟ نیز کیا ہم ان روزوں میں قضا روزوں کی نیت بھی کرسکتے ہیں؟
جواب: 1- واضح رہے کہ ذی الحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں نیک اعمال کی فضیلت صحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، ان نیک اعمال میں روزہ رکھنا بھی شامل ہے، چنانچہ بالعموم ان دنوں کے روزوں کی فضیلت حدیث شریف میں وارد ہوئی ہے اور خاص طور پر عرفہ (نو ذی الحجہ) کے دن روزہ رکھنے کی فضیلت الگ سے بیان فرمائی گئی ہے، ذیل میں ان روایات کو ذکر کیا جاتا ہے:
١- صحیح بخاری کی روایت ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا یہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے؟ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا: اللہ کے راستے میں جہاد کرنے سے بھی بڑھ کر ہے، مگر وہ شخص جو جان اور مال لے کراللہ کے راستے میں نکلے، پھر ان میں سے کوئی چیز بھی واپس لے کر نہ آئے۔ (سب اللہ کے راستے میں قربان کردے ،اور شہید ہو جائے یہ ان دنوں کے نیک عمل سے بھی بڑھ کر ہے)
(صحيح البخاري ٢/ ٢٠ (٩٦٩)كتاب العيدين/ باب فضل العمل في أيام التشريق)
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں: اس حدیث کو عشرہ ذی الحجہ میں روزے رکھنے کی فضیلت کے ثبوت کے لیے بطور دلیل پیش کیا گیا ہے، کیونکہ نیک اعمال میں روزہ بھی شامل ہے۔
(فتح الباري لابن حجر: ٢/ ٤٦٠)
٢- صحيح مسلم کی روایت ہے:
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے اللہ تعالی کی ذات سے امید ہے کہ وہ یوم عرفہ کے روزے رکھنے کی صورت میں گزشتہ سال اور اگلے سال کے گناہ بخش دے گا۔
(صحیح مسلم: رقم الحدیث 1162)
٣- شعب الایمان کی روایت ہے:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کوئی دن ایسا نہیں ہے کہ جس میں نیک عمل اللہ تعالیٰ کے یہاں اِن (ذی الحجہ کے) دس دنوں کے نیک عمل سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہو، لہذا تم ان ایام میں کثرت سے تہلیل اور تکبیر (لا الہ الااللہ اور اللہ اکبر) پڑھا کرو، بے شک یہ تہلیل اور تکبیر کے ایام ہیں اور ان دنوں میں ایک دن کے روزے کا ثواب ایک سال روزہ رکھنے کے ثواب برابر ہے اور ان ایام میں نیک عمل کا ثواب سات سو گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔
(شعب الإيمان: 5/ 311) (3481) تخصيص أيام العشر من ذي الحجة بالاجتهاد بالعمل فيهن)
٤- ابن عدی کی "الکامل" میں روایت ہے:
حضرت جابر بن عبد الله رضي الله عنه فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلى اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے ان دس ایام میں روزہ رکھا، تو اس کے ہر روزے کے بدلے میں ایک سال کے روزوں کا ثواب لکھا جائے گا، سوائے عرفہ کے دن کے، کیوں کہ جس نے عرفہ کے دن کا روزہ رکھا تو اس کے لیے دو سال روزہ رکھنے کا ثواب لکھا جائے گا۔
(الكامل لابن عدي: ٦/ ١٥٧)
٥- شعب الإيمان کی روایت ہے:
امام اوزاعى کہتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچى ہے کہ عشرہ ذى الحجہ میں نیک عمل کا ثواب اللہ تعالى کے راستے میں جہاد کے اجر کى طرح ہے، جس کے دن میں روزہ اور رات میں پہرہ دیا جائے، مگر اس شخص کا اجر زیادہ ہوگا، جو جہاد میں جائے اور شہادت کے مرتبہ پر فائز ہو جائے۔
امام اوزاعى کہتے ہیں: مجھے یہ حدیث بنو مخزوم کے ایک شخص نے نبی اکرم صلى اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرکے سنائی ہے۔
(شعب الایمان للبيهقي:٥ /٣٠٩ (٣٤٧٧) باب في الصيام/ تخصيص أيام العشر من ذي الحجة بالاجتهاد بالعمل فيهن)
٦- سنن الترمذی کی روایت ہے:
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کے (ابتدائی) دس دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں، جس کی عبادت اللہ کو زیادہ محبوب ہو، ان ایام میں سے ہر دن کا روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔
(سنن الترمذي: ٢/ ١٢٢ (٧٥٨)أبواب الصوم عن رسول الله ﷺ/ باب ما جاء في العمل في أيام العشر)
2- واضح رہے کہ نفل روزے کی الگ حیثیت ہے اور فرض روزے کی قضا کی الگ اور مستقل حیثیت ہے، لہذا نفل اور قضا روزوں کو الگ الگ رکھا جائے گا، ایک روزہ میں نفل اور قضا دونوں کی نیت نہیں کر سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (باب فضل العمل في أيام التشريق، رقم الحدیث: 969)
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَرْعَرَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ مُسْلِمٍ البَطِينِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ أَنَّهُ قَالَ: "مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ أَفْضَلَ مِنَ الْعَمَلِ فِي هَذِهِ" قَالُوا: وَلا الْجِهَادُ؟ قَالَ: "وَلا الْجِهَادُ إِلَّا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ".
فتح الباري لابن حجر: (460/2)
"واستدل به على فضل صيام عشر ذي الحجة لاندراج الصوم في العمل واستشكل بتحريم الصوم يوم العيد وأجيب بأنه محمول على الغالب".
سنن الترمذی: (باب ما جاء في العمل في أيام العشر، رقم الحدیث: 758)
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ البَصْرِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ وَاصِلٍ، عَنْ نَهَّاسِ بْنِ قَهْمٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ المُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: «مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا مِنْ عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ الْقَدْرِ».
مرقاة المفاتيح: (1087/3)
وقال: هذا حديث غريب لا نعرفه إلا من حديث مسعود بن واصل عن النهاس، وسألت محمدا عن هذا الحديث، فلم يعرفه من غير هذا الوجه مثل هذا، وقد روي عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن النبي ﷺ مرسلا شيء من هذا، وقد تكلم يحيى بن سعيد في نهاس بن قهم من قبل حفظه.
والحديث ذكره المنذري في "الترغيب" 2/ 127(5) الترغيب في العمل الصالح في عشر ذي الحجة وفضله، بصيغة التمريض، وقال: رواه الترمذي وابن ماجه والبيهقي وقال الترمذي حديث غريب. قال الحافظ روى البيهقي وغيره عن يحيى بن عيسى الرملي حدثنا يحيى بن أيوب البجلي عن عدي بن ثابت وهؤلاء الثلاثة ثقات مشهورون تكلم فيهم
وعن سعيد بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من أيام أفضل عند الله ولا العمل فيهن أحب إلى الله عز وجل من هذه الأيام يعني من العشر فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير وذكر الله وإن صيام يوم منها يعدل بصيام سنة والعمل فيهن يضاعف بسبعمائة ضعف
الكامل لابن عدي: (157/6)
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْمَاعِيلَ، ثَنَا عَامِرُ بْنُ سَيَّارٍ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبدِ المَلِكِ، ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ المُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرٍ، قَال: قَال رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ صَامَ أَيَّامَ الْعَشْرِ كُتِبَ لَهُ بِكُلِّ يَوْمٍ صَوْمُ سَنَةٍ غَيْرَ عَرَفَةَ، فَإِنَّهُ مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ كُتِبَ لَهُ صَوْمُ سَنَتَيْنِ».
ترجمة محمد بن عبد الملك الأنصاري مديني، قال ابن عدي: ولمحمد بن عبد الملك غير ما ذكرت عن ابن المنكدر ونافع وعطاء والزهري وسالم وغيرهم، وكل أحاديثه مما لا يتابعه الثقات عليه، وهو ضعيف جدا.
شعب الایمان للبيهقي: (باب في الصيام، رقم الحدیث: 3477)
أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللهِ الحَافِظُ، وَمُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى، قَالَا: حدثنَا أَبُو العَبَّاسِ الأَصَمُّ، حدثنَا العَبَّاسُ بْنُ الوَلِيدِ بْنِ مَزْيَدَ، أَخْبَرَنِي أَبِي، حدثنَا الأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: بَلَغَنِي أَنَّ الْعَمَلَ فِي الْيَوْمِ مِنْ أَيَّامِ الْعَشْرِ كقَدْرِ غَزْوَةٍ فِي سَبِيلِ اللهِ، يُصَامُ نَهَارُهَا وَيُحْرَسُ لَيْلُهَا، إِلَّا أَنْ يُخْتَصَّ امْرُؤٌ بِشَهَادَةٍ.قَالَ الأَوْزَاعِيُّ: حَدَّثَنِي بِهَذَا الْحَدِيثِ رَجُلٌ مِنْ قُرَيْشٍ مِنْ بَنِي مَخْزُومٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ.
شعب الایمان للبيهقي: (باب في الصيام، رقم الحدیث: 3481)
أخبرنا محمد بن عبد الله الحافظ، حدثنا أبو علي الحسين بن علي بن يزيد الحافظ، حدثنا عبد الله بن محمد بن وهب الدينوري، حدثنا العباس بن الوليد الأزدي، حدثنا يحيى بن عيسى الرملي، حدثنا يحيى بن أيوب البجلي، عن عدي بن ثابت، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من أيام أفضل عند الله ولا العمل فيهن أحب إلى الله عز وجل من هذه الأيام العشر، فأكثروا فيهن من التهليل والتكبير، فإنها أيام التهليل والتكبير وذكر الله، وإن صيام يوم منها يعدل بصيام سنة، والعمل فيهن يضاعف سبعمائة ضعف "
الفتاوى الهندية: (196/1)
"ومتى نوى شيئين مختلفين متساويين في الوكادة والفريضة، ولا رجحان لأحدهما على الآخر بطلا، ومتى ترجح أحدهما على الآخر ثبت الراجح، كذا في محيط السرخسي. فإذا نوى عن قضاء رمضان والنذر كان عن قضاء رمضان استحساناً، وإن نوى النذر المعين والتطوع ليلاً أو نهاراً أو نوى النذر المعين، وكفارة من الليل يقع عن النذر المعين بالإجماع، كذا في السراج الوهاج. ولو نوى قضاء رمضان، وكفارة الظهار كان عن القضاء استحساناً، كذا في فتاوى قاضي خان. وإذا نوى قضاء بعض رمضان، والتطوع يقع عن رمضان في قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى -، وهو رواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - كذا في الذخيرة".
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی