سوال:
مفتی صاحب! ایک شخص نے جان بوجھ کر بلا کسی عذر کے روزے نہیں رکھے ہیں، اب وہ کفارہ دینا چاہ رہا ہے، کیونکہ جب اس نے ایک مہینے کے روزے نہیں رکھے ہیں تو دو مہینوں کے روزے کیسے رکھے گا، براہ کرم آپ بتادیں کہ اس کا کیا کفارہ بنے گا؟
جواب: واضح رہے کہ رمضان کے مہینے میں بلا کسی شرعی عذر کے روزہ نہ رکھنا گناہِ کبیرہ ہے، لہذا ایسے شخص کو چاہیے کہ اپنے اس گناہ پر توبہ و استغفار کرتے ہوئے جتنی جلدی ہوسکے، ان روزوں کی قضاء کرے، البتہ اس جان بوجھ کر چھوڑے ہوئے روزوں کی صرف قضا لازم ہے، کفارہ لازم نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (403/2، 406، ط: دار الفکر)
"(أو أصبح غير ناو للصوم فأكل عمداً)، ولو بعد النية قبل الزوال؛ لشبهة خلاف الشافعي: ومفاده أن الصوم بمطلق النية كذلك...(قضى) في الصور كلها (فقط)".
الھدایة: (242/1، ط: مکتبه رحمانیه)
و من اصبح غیر ناویا للصوم فأکل لا کفارۃ علیه.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی