سوال:
حرمین شریفین کے باہر جو لوگ بغیر اتصال کے جماعت کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں، ان کی جماعت ہو جاتی ہے یا نہیں؟ اگر جماعت نہیں ہوئی، تو نماز ہوجائیگی یا نماز ہی دہرانی ہوگی؟
جواب: واضح رہے کہ مسجد حرام کی حدود کے اندر دو صفوں کے برابر یا اس سے زیادہ فاصلہ بھی ہو، تب بھی نماز ہوجائے گی، البتہ بغیر عذر کے اتنا فاصلہ چھوڑنا مکروہ ہے۔
مسجد حرام کی حدود سے باہر صحن یا راستہ میں نماز کے صحیح ہونے کے لیے صفوں کا متصل ہونا ضروری ہے، صفوں کے اتصال کے بغیر امام کی اقتداء صحیح نہیں ہوگی۔
اتصال سے مراد یہ ہے کہ صفوف کے درمیان دو صفوں کے برابر یا اس سے زیادہ فاصلہ نہ ہو، البتہ اگر دیوار حائل ہو اور امام کے انتقالات (ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے) سے مقتدی باخبر رہیں تو ان مقتدیوں کی نماز درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوی الھندیۃ: (88/1، ط: دار الفکر)
والمسجد وإن كبر لا يمنع الفاصل فيه. كذا في الوجيز للكردري.
ولو اقتدى بالإمام في أقصى المسجد والإمام في المحراب فإنه يجوز. كذا في شرح الطحاوي
الدر المختار مع رد المحتار: (585/1، ط: دار الفکر)
(ويمنع من الاقتداء)۔۔۔۔(طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدا كمسجد القدس (يسع صفين) فأكثر إلا إذا اتصلت الصفوف فيصح مطلقا۔۔۔۔۔۔(والحائل لا يمنع) الاقتداء (إن لم يشتبه حال إمامه) بسماع أو رؤية۔
والمسجد وإن كبر لا يمنع الفاصل إلا في الجامع القديم بخوارزم، فإن ربعه كان على أربعة آلاف أسطوانة وجامع القدس الشريف أعني ما يشتمل على المساجد الثلاثة الأقصى والصخرة والبيضاء، كذا في البزازية اه
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی