سوال:
حضرت ! فجر کی فرض شروع ہو گئے اور سنت نہیں پڑھی، سنت پڑھنا شروع ہوئے تو نماز کے بعد ایک غیر مقلد صاحب نے بتایا کہ یہ نہ حضور سے ثابت ہے نہ صحابہ سے، رہنمائی فرما دیجئے سنت کو مقدم رکھیں یا فرض کو؟ اگرچہ امام صاحب نے ابھی نماز شروع کی ہے اور پہلی رَکْعَت ہی میں شامل ہو سکتے ہیں .
جواب: اگر کوئی شخص فجر کی نماز کے لیے مسجد آئے اور جماعت شروع ہوگئی ہو تو اگر اسے امید ہو کہ وہ سنتیں پڑھ کر امام کے ساتھ قعدہ اخیرہ میں شامل ہوجائے گا تو اسے چاہیے کہ (کسی ستون کے پیچھے یا برآمدے یا صحن میں یا جماعت کی صفوں سے ہٹ کر) فجر کی سنتیں ادا کرے اور پھر امام کے ساتھ قعدہ میں شامل ہوجائے اور اگر سنتیں پڑھنے کی صورت میں نماز مکمل طور پر نکلنے کا اندیشہ ہو تو سنتیں چھوڑ دے اور فرض نماز میں شامل ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (56/2، ط: دار الفکر)
(وإذا خاف فوت) ركعتي (الفجر لاشتغاله بسنتها تركها) لكون الجماعة أكمل (وإلا) بأن رجا إدراك ركعة في ظاهر المذهب. وقيل التشهد واعتمده المصنف والشرنبلالي تبعا للبحر، لكن ضعفه في النهر (لا) يتركها بل يصليها عند باب المسجد إن وجد مكانا وإلا تركها لأن ترك المكروه مقدم على فعل السنۃ
(قوله عند باب المسجد) أي خارج المسجد كما صرح به القهستاني. وقال في العناية لأنه لو صلاها في المسجد كان متنفلا فيه عند اشتغال الإمام بالفريضة وهو مكروه، فإن لم يكن على باب المسجد موضع للصلاة يصليها في المسجد خلف سارية من سواري المسجد
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی