سوال:
براہ کرم قرآن و حدیث سے عذاب قبر کے دلائل عنایت فرمادیں۔
جواب: عذاب قبر قرآن كريم كی کئی آیاتِ مبارکہ اور متواترصحیح احادیث مبارکہ سے ثابت ہے، لہذا اہلِ سنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ عذابِ قبر کے برحق ہونے کا ہے، ذیل میں اس حوالے سے چند آیات اور احادیث مبارکہ ذکر کی جاتی ہیں:
۱)النار يعرضون عليها غدوا وعشيا ويوم تقوم الساعة أدخلوا آل فرعون أشد العذابo(سورۃ الغافر: آیت نمبر:46)
ترجمہ:آگ ہے جس کے سامنے انہیں صبح و شام پیش کیا جاتا ہے اور جس دن قیامت آجائے گی (اس دن حکم ہوگا کہ) فرعون کے لوگوں کو سخت ترین عذاب میں داخل کردو۔
امام رازیؒ اس آيت كى تفسير ميں لکھتے ہیں: ہمارے علمائے کرام نے اس آیت سے عذاب قبر کے اثبات پر استدلال کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت تقاضا کرتی ہے کہ آگ ان پر یعنی فرعون اور اس کے آل و خاندان پر صبح وشام پیش کی جاتی ہے اور یہ آگ کا پیش کیا جانا قیامت کے دن ہونا مراد نہیں لیا جاسکتا، كيونكہ آگے اس بات کی وضاحت ہے کہ: وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ [غافر: 46] اور نہ ہی اس سے دنیا میں آگ کا پیش کیا جانا مراد لیا جا سکتا ہے، کیونکہ دنیا میں ان کے ساتھ ایسے نہیں ہوا، لہذا اس سے ثابت ہوا کہ یہ آگ کا پیش کیا جانا موت کے بعد اور قیامت سے پہلے ہوگا اور یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرعون اور آل فرعون کے لیے قبر میں عذاب قبر ثابت ہے اور جب ان کے لیے عذاب قبر کا برحق ہونا ثابت ہوگیا تو دوسروں کے حق میں بھی ثابت ہوگیا، کیونکہ ان میں اور دوسروں میں فرق کا کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
علامہ قرطبی فرماتے ہیں: اس آیت سے مفسرین نے "عذاب قبر"کے اثبات پر استدلال کیا ہے اور امام مجاہد، عکرمہ، محمد بن مقاتل اور محمد بن کعب سب فرماتے ہیں : یہ آیت "عذابِ قبر"کے اثبات پر دلالت کرتی ہے۔
۲) وممن حولكم من الأعراب منافقون ومن أهل المدينة مردوا على النفاق لا تعلمهم نحن نعلمهم سنعذبهم مرتين ثم يردون إلى عذاب عظيمo(سور ة التوبۃ: آیت نمبر:101)
ترجمہ:اور تمہارے ارد گرد جو دیہاتی ہیں، ان میں بھی منافق لوگ موجود ہیں، اور مدینہ کے باشندوں میں بھی۔ یہ لوگ منافقت میں (اتنے) ماہر ہوگئے ہیں (کہ) تم انہیں نہیں جانتے، انہیں ہم جانتے ہیں۔ ان کو ہم دو مرتبہ سزا دیں گے۔ پھر ان کو ایک زبردست عذاب کی طرف دھکیل دیا جائے گا۔
اس آیت کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، امام قتادہ اور حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ دوسرے عذاب سے مراد "عذاب ِ قبر"ہے۔
۳)مما خطيئاتهم أغرقوا فأدخلوا نارا فلم يجدوا لهم من دون الله أنصاراo(سورۃ نوح:آیت نمبر:25)
ترجمہ:ان لوگوں کے گناہوں کی وجہ ہی سے انہیں غرق کیا گیا، پھر آگ میں داخل کیا گیا، اور انہیں اللہ کو چھوڑ کر کوئی حمایتی میسر نہیں آئے۔
امام رازیؒ اس آيت كى تفسير ميں لکھتے ہیں : ہمارے علماء نے اس آیت سے عذاب قبر کے اثبات پر دو طرح سے استدلال کیا ہے:
الف) "فَاُدْخِلُوْ "میں حرف فاء ہے، جو تعقيب مع الوصل كے ليے ہے، یعنی فا اپنے سے پہلے لفظ کے فوراً بعد ہونے پر دلالت کرتا ہے، لہٰذا مطلب یہ ہوا کہ آگ میں داخلہ غرق ہونے کے فوراً بعد ہوا اور اس سے آخرت كا عذاب مراد نہيں ليا جاسكتا ہے، ورنہ "فا" کی دلالت باطل ہوجائے گی۔
ب)"ادخلوا "فعل ماضی کا صیغہ ہے جو زمانہ ماضی (گذشتہ) میں ہونے کی خبر دے رہا ہے، لہذا یہ فعل اس بات پر دلیل ہے کہ آگ میں داخلہ ہوچکا ہے۔
احاديث مباركہ سے عذاب قبر کا ثبوت:
قبر میں عذاب اور فرشتوں کے سوال و جواب کے بارے میں احادیث متواتر ہیں اور بہت سے صحابہ کرامؓ اور صحابیات مثلاً :حضرت عائشہ، حضرت عمر بن الخطاب، حضرت عثمان بن عفان، حضرت زید بن ثابت، حضرت انس بن مالک، حضرت براء بن عازب، حضرت تمیم داری، حضرت ثوبان، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت حذیفہ، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت عبداللہ بن رواحہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت عمرو بن العاص، حضرت معاذ بن جبل، حضرت ابو امامہ، حضرت ابو الدرداء اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے منقول ہیں۔
۱)حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت ان کے پاس آئی اور اس نے عذاب قبر کا ذکر کیا تو کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔ ام المومنین حضرت عائشہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ سے عذاب قبر کےمتعلق دریافت کیا تو آپ ﷺ نےفرمایا:"ہاں عذاب قبر(برحق) ہے"۔ حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ اس کے بعد میں نےرسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ ہر نماز کے بعد عذاب قبر سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ غندر کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"عذاب قبر برحق ہے"۔(صحیح بخاری:حدیث نمبر:1372)
۲) حضرت ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ میرے پاس تشریف لائے، میں بنو نجار کے ایک باغ میں تھی، جس میں زمانہ جہالیت میں وفات پانے والوں کی قبریں تھیں تو میں نے آپ ﷺکو (باغ)سے نکلتے ہوئے یہ فرماتے ہوئے سنا: "عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو" تو میں نے کہا:اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا قبر میں عذاب ہوگا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: "جی ہاں! مردوں کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے جس کو جانور بھی سنتے ہیں"۔(المعجم الکبیرللطبرانی:حدیث نمبر:268)
۳) حضرت انس ؓ سے روايت ہے كہ جناب نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:" اگر تم مردوں کو دفن کرنا نہ چھوڑو تو میں اللہ سے دعا کروں کہ وہ تمہیں عذاب قبر سنائے"۔(صحیح مسلم :حدیث نمبر:2868)
اس تفصیل سے ثابت ہو اکہ عذابِ قبر برحق ہے، چونکہ یہ مسئلہ قرآن و احادیث متواترہ صحیحہ اور اجماع امت سے ثابت ہے، اس لیے اس پر ایمان لانا ضروری ہے، لہذا اگر کوئی شخص عذاب قبر سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث کا بلا تاویل انکار کرتا ہو تو ایسا شخص کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے، البتہ اس عذاب كی تفصیلی کیفیت کا ہمیں علم اور ادراک نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں عذابِ قبر سے اپنی پناہ میں رکھے، آمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاری: (رقم الحدیث: 1372، ط: دار طوق النجاۃ)
عن عائشة رضي الله عنها: أن يهودية دخلت عليها، فذكرت عذاب القبر، فقالت لها: أعاذك الله من عذاب القبر، فسألت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عذاب القبر، فقال: «نعم، عذاب القبر» قالت عائشة رضي الله عنها: فما رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد صلى صلاة إلا تعوذ من عذاب القبر زاد غندر: «عذاب القبر حق»
المعجم الکبیر للطبرانی: (رقم الحدیث: 268، ط: مكتبة ابن تيمية)
عن أم مبشر، قالت: دخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا في حائط من حوائط بني النجار فيه قبور قد ماتوا في الجاهلية، فخرج فسمعته يقول: «استعيذوا بالله من عذاب القبر» فقلت: يا رسول الله، وللقبر عذاب؟ فقال: «نعم، إنهم يعذبون في قبورهم عذابا يسمعه البهائم»
صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2868، ط: دار إحياء التراث العربی)
عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لولا أن لا تدافنوا لدعوت الله أن يسمعكم من عذاب القبر.
التفسير الكبير: (521/27، ط: دار إحياء التراث العربی)
احتج أصحابنا بهذه الآية على إثبات عذاب القبر قالوا الآية تقتضي عرض النار عليهم غدوا وعشيا، وليس المراد منه يوم القيامة لأنه قال: ويوم تقوم الساعة أدخلوا آل فرعون أشد العذاب، وليس المراد منه أيضا الدنيا لأن عرض النار عليهم غدوا وعشيا ما كان حاصلا في الدنيا، فثبت أن هذا العرض إنما حصل بعد الموت وقبل يوم القيامة، وذلك يدل على إثبات عذاب القبر في حق هؤلاء، وإذ ثبت في حقهم ثبت في حق غيرهم لأنه لا قائل بالفرق.
و فیه ایضاً: (659/30)
تمسك أصحابنا في إثبات عذاب القبر بقوله: أغرقوا فأدخلوا نارا وذلك من وجهين الأول: أن الفاء في قوله: فأدخلوا نارا تدل على أنه حصلت تلك الحالة عقيب الإغراق فلا يمكن حملها على عذاب الآخرة، وإلا بطلت دلالة هذه الفاء الثاني: أنه قال: فأدخلوا على سبيل الإخبار عن الماضي.
تفسیر القرطبی: (319/15، ط: دار الكتب المصرية)
احتج بعض أهل العلم في تثبيت عذاب القبر بقوله:" النار يعرضون عليها غدوا وعشيا" ما دامت الدنيا. كذلك قال مجاهد وعكرمة ومقاتل ومحمد بن كعب كلهم قال: هذه الآية تدل على عذاب القبر في الدنيا.
و فیه ایضاً: (241/8)
قوله تعالى: (سنعذبهم مرتين ثم يردون إلى عذاب عظيم) قال ابن عباس: بالأمراض في الدنيا وعذاب الآخرة. فمرض المؤمن كفارة، ومرض الكافر عقوبة. وقيل: العذاب الأول الفضيحة باطلاع النبي صلى الله عليه وسلم عليهم، على ما يأتي بيانه في المنافقين. والعذاب الثاني عذاب القبر. الحسن وقتادة: عذاب الدنيا وعذاب القبر.
شرح النووی علی مسلم: (201/17، ط: دار إحياء التراث العربی)
اعلم أن مذهب أهل السنة إثبات عذاب القبر وقد تظاهرت عليه دلائل الكتاب والسنة قال الله تعالى النار يعرضون عليها غدوا وعشيا الآية وتظاهرت به الأحاديث الصحيحة عن النبي صلى الله)
عليه وسلم من رواية جماعة من الصحابة فى مواطن كثيرة ولايمتنع في العقل أن يعيد الله تعالى الحياة في جزء من الجسد ويعذبه وإذا لم يمنعه العقل وورد الشرع به وجب قبوله واعتقاده وقد ذكر مسلم هنا أحاديث كثيرة في إثبات عذاب القبر وسماع النبي صلى الله عليه وسلم صوت من يعذب فيه وسماع الموتى قرع نعال دافنيهم وكلامه صلى الله عليه وسلم لأهل القليب وقوله ما أنتم بأسمع منهم وسؤال الملكين الميت وإقعادهما إياه وجوابه لهما والفسح له في قبره وعرض مقعده عليه بالغداة والعشي وسبق معظم شرح هذا في كتاب الصلاة وكتاب الجنائز والمقصود أن مذهب أهل السنة إثبات عذاب القبر كما ذكرنا خلافا للخوارج ومعظم المعتزلة وبعض المرجئة نفوا ذلك ثم المعذب عند أهل السنة الجسد بعينه أو بعضه بعد إعادة الروح إليه أو إلى جزء منه وخالف فيه محمد بن جرير وعبد الله بن كرام وطائفة فقالوا لايشترط إعادة الروح قال أصحابنا هذا فاسد لأن الألم والإحساس إنما يكون في الحي قال أصحابنا ولايمنع من ذلك كون الميت قد تفرقت أجزاؤه كما نشاهد في العادة أو أكلته السباع أو حيتان البحر أو نحو ذلك فكما أن الله تعالى يعيده للحشر وهو سبحانه وتعالى قادر على ذلك فكذا يعيد الحياة إلى جزء منه أو أجزاء وإن أكلته السباع والحيتان فإن قيل فنحن نشاهد الميت على حاله في قبره فكيف يسأل ويقعد ويضرب بمطارق من حديد ولايظهر له أثر فالجواب أن ذلك غير ممتنع بل له نظير في العادة وهو النائم فانه يجد لذة وآلاما لانحس نحن شيئا منها وكذا يجد اليقظان لذة وآلما لما يسمعه أو يفكر فيه ولايشاهد ذلك جليسه منه وكذا كان جبرائيل يأتي النبي صلى الله عليه وسلم فيخبره بالوحى الكريم ولايدركه الحاضرون وكل هذا ظاهر جلي قال أصحابنا وأما إقعاده المذكور في الحديث فيحتمل أن يكون مختصا بالمقبور دون المنبوذ ومن أكلته السباع والحيتان وأما ضربه بالمطارق فلا يمتنع أن يوسع له في قبره فيقعد ويضرب والله أعلم۔
منح الروض الازهر فی شرح الفقه الاكبر: (ص: 297، ط: دار البشائر الاسلامیۃ)
قال بعضهم تدخل الروح في الجسد كما في الدنيا وقال بعضهم السؤال للروح دون الجسد وقال بعضهم تدخل الروح إلى الصدر وقال بعضهم : يدخل الروح بين الجسد والكفن والصحيح نؤمن بذلك ولانشتغل بكيفيته۔
رد المحتار: (165/2، ط: دار الفکر)
قال أهل السنة والجماعة: عذاب القبر حق وسؤال منكر ونكير وضغطة القبر حق.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی