سوال:
مفتی صاحب! ایک مسئلہ میں رہنمائی فرمائیں:اگر کوئی شخص کہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی پہلے اور آخری نبی ہیں، اس شخص کی یہ دلیل ہے کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے پہلے ہی پیدا کیا تھا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کا یہ کہنا کیسا ہے؟
جواب: واضح رہے کہ بعثت اور ظاہری ارسال کے اعتبار سے سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور اس اعتبار سے سب سے آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ چنانچہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی طویل حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: "انبیاء میں سب سے پہلے آدم اور سب سے آخر میں محمد ہے"۔ (كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حدیث نمبر: 44158)
البتہ یہ بات بھی دلائل کی روشنی میں درست اور ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ازل ہی میں سب سے پہلے نبی کریم ﷺ کی نبوت کو مقدّر فرمایا تھا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے سوال کیا: یا رسول اللہ ! آپ کے لیے نبوت کس وقت ثابت ہو چکی تھی؟ آپ نے فرمایا: "جس وقت آدم علیہ السلام ابھی روح اور جسم کے درمیان تھے (یعنی ان کے تن میں جان بھی نہ ائی تھی)۔" (سنن ترمذي، حدیث نمبر: 3936)
اسی طرح ایک روایت میں ہے: "میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا، جب کہ آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں تھے"۔ (مشكاة المصابيح، حدیث نمبر: 5759)
ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے صراحت کے ساتھ فرمایا: "میں تخلیق کے اعتبار سے انبیاء میں سب سے پہلا اور بعثت کے اعتبار سے سب سے آخری ہوں۔" (جامع الأحاديث، حدیث نمبر: 15832)
حاصل یہ کہ اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نبوت سب سے پہلےثابت ہوئی ہے، مگر آپ کی بعثت اور جسمانی ظہور بحیثیت نبی تمام انبیاء کے اخیر میں ہوا ہے۔
حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی علیہ نے اس مسئلہ کو نشر الطیب میں نہایت عمدہ مثال سے واضح فرمایا ہے۔ وہ لکھتے ہیں: "اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت ختم نبوت کے ثبوت بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب انبیاء کے بعد میں مبعوث ہوئے اس لیے ختم نبوت کا حکم کیا گیا سو یہ وصف تو خود تاخر کو مقتضی ہے۔
جواب یہ ہے کہ یہ تاثر مرتبہ ظہور میں ہے مرتبہ ثبوت میں نہیں جیسے کسی کو تحصیلداری کا عہدہ مل جائے اور تنخواہ بھی آج ہی چڑھنے لگے مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھیجے جانے کے بعد"۔ (نشر الطیب، ص: 12، مشتاق بک کارنر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال: (16/ 132، رقم الحدیث: 44158، ط: الرسالة)
«وأول الأنبياء آدم وآخرهم محمد،»
سنن الترمذي: (6/ 206، رقم الحدیث: 3936، ط: دار الرسالة العالمية)
«عن أبي هُريرةَ، قال: قَالُوا: يَا رَسولَ اللهِ، مَتَى وَجبتْ لَكَ النُّبُوَّةُ؟ قال: "وَآدمُ بَيْنَ الرُّوحِ وَالْجَسدِ"»
جامع الأحاديث: (رقم الحدیث: 15832، 409/15، بترقيم الشاملة آليا)
«كنت أول النبيين فى الخلق وآخرهم فى البعث (ابن لال عن قتادة عن الحسن عن أبى هريرة)»
تفسير الثعلبي: (332/21، ط: دار التفسير)
«عن أبي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: "كنت أول النبيين في الخلق، وآخرهم في البعث" (4). قال: قول الله عز وجل {وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيسَى} فبدأ به صلى الله عليه وسلم قبلهم»
مشكاة المصابيح: (رقم الحدیث: 5759، 1604/3، ط: المكتب الإسلامي)
وعن العرباض بن سارية، رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال «إني عند الله مكتوب: خاتم النبيين، وإن آدم لمنجدل في طينته،
فيض القدير: (رقم الحدیث: 6424، 53/5، ط: المكتبة التجارية الكبرى)
« (كنت نبيا) لم يقل كنت إنسانا ولا كنت موجودا إشارة إلى أن نبوته كانت موجودة في أول خلق الزمان في عالم الغيب دون عالم الشهادة فلما انتهى الزمان بالاسم الباطن إلى وجود جسمه وارتباط الروح به انتقل حكم الزمان في جريانه إلى الاسم الظاهر فظهر بذاته جسما وروحا فكان الحكم له باطنا أوفى كل ما ظهر من الشرائع على أيدي الأنبياء والرسل ثم صار الحكم له ظاهرا فنسخ كل شرع أبرزه الاسم الباطن بحكم الاسم الظاهر لبيان اختلاف حكم الاسمين وإن كان الشرع واحدا (وآدم بين الروح والجسد) يعني أنه تعالى أخبره بمرتبته وهو روح قبل إيجاد الأجسام الإنسانية كما أخذ الميثاق على بني آدم قبل إيجاد أجسامهم ذكره ابن عربي ومنه أخذ بعضهم قوله لما أخذ الله من بني آدم من ظهورهم ذرياتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم كان محمد أول من قال بلى ولهذا صار متقدما على الأنبياء وهو آخر من يبعث»
التنوير شرح الجامع الصغير: (رقم الحدیث: 6405، 241/8، ط: دار السلام)
«"كنت أول الناس في الخلق وآخرهم في البعث". ابن سعد عن قتادة مرسلاً".
(كنت أول الناس في الخلق) لأن الله تعالى خلقه نوراً قبل خلق آدم عناية بشأنه وتعظيماً لقدره وأراد بالناس الأنبياء لقوله: (وآخرهم في البعث) فإن آخريته عن الأنبياء لا عن الناس كلهم ويدل حديث "كنت أول النبيين … " يأتي ومن قال: المراد بالخلق التقدير لا الإيجاد فإنه قبل ولادته لم يكن موجوداً فقد تعقب بأنه لو كان ذلك المراد لم يكن لتخصيصه معنى بل ما ذكرناه من اتخاذه نوراً.»
تحفة الأحوذي: (56/10، رقم الحدیث: 3609، ط: دار الكتب العلمية)
«قوله (متى وجبت لك النبوة) أي ثبتت (قال وآدم بين الروح والجسد) أي وجبت لي النبوة والحال أن آدم مطروح على الأرض صورة بلا روح والمعنى أنه قبل تعلق روحه بجسده»
رد المحتار: (1/ 527، ط: الحلبي)
«مطلب في عدد الأنبياء والرسل - عليهم الصلاة والسلام - (قوله كالإيمان بالأنبياء) لأن عددهم ليس بمعلوم قطعا، فينبغي أن يقال آمنت بجميع الأنبياء أولهم آدم وآخرهم محمد عليه وعليهم الصلاة والسلام معراج»
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی