سوال:
السلام علیکم، مفتی صاحب! آج کل ناشتے یا tea کے لیے کسی بھی ہوٹل جاؤ، تو وہاں پر families بھی کھانا کھارہی ہوتی ہیں جو کہ نا محرم ہوتی ہیں، تو کیا اس صورت میں وہاں پر کھانا کھانا یا ناشتہ کرنا جائز ہوگا یا نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے کہیں ایک طرف بیٹھ کر کھانا جائز ہوگا؟ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔
جواب: واضح رہے کہ جس ہوٹل میں نامحرم عورتیں موجود ہوں، وہاں ایک طرف بیٹھ کر نظروں کی حفاظت کرتے ہوئے چائے وغیرہ پینے کی گنجائش ہے، البتہ اگر کسی شخص کو وہاں بیٹھنے میں بد نظری کے گناہ میں مبتلا ہونے کا غالب گمان ہو، تو ایسے شخص پر لازم ہے کہ وہاں بیٹھنے سے اجتناب کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (النور، الایة: 30)
قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَo
صحيح مسلم: (رقم الحديث: 2121، ط: دار احياء التراث العربي)
عن أبي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "اياكم والجلوس في الطرقات" قالوا: يا رسول الله! ما لنا بد من مجالسنا نتحدث فيها، قال رسول الله صلی الله عليه وسلم: فاذا أبيتم إلا المجلس فاعطوا الطريق حقه، قالوا: وما حقه؟ قال: غض البصر وكف الأذي ورد السلام والأمر بالمعروف والنهي عن المنكر.
بدائع الصنائع: (كتاب الاستحسان، 122/5، ط: دار الكتب العلمية)
ثم انما يحل النظر الى مواضع الزينة الظاهرة منها من غير شهوة فاما عن شهوة فلا يحل لقوله عليه الصلاة والسلام: "العينان تزنيان"، وليس زنا العينين إلا النظر عن شهوة ولان النظر عن شهوة سبب الوقوع في الحرام فيكون حراما الا في حالة الضرورة.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی