سوال:
کیا مراقبہ کرنا سنت ہے؟ وضاحت فرمائیں۔
جواب: مراقبہ کے لفظی معنی "محافظت" اور "نگہبانی" کے آتے ہیں اور یہ اہلِ تصوف کی ایک خاص اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دل سے ہر وقت دھیان رکھے کہ اللہ تعالی کو میرے سب حالوں کی خبر ہے ظاہر کی بھی اور دل کی بھی۔ اگر برا کام ہوگا یا برا خیال لایا جائے گا شاید اللہ تعالی دنیا میں یا آخرت میں سزا دیں۔ دوسرے عبادت کے وقت یہ دھیان جمائے کہ وہ میری عبادت کو دیکھ رہے ہیں اچھی طرح بجا لانا چاہیے۔ (بہشتی زیور: ص319، ط: الفلاح)
قرآن کریم کی کئی آیات مراقبے کے مفہوم پر دلالت کرتی ہیں:واذکر ربک فی نفسک(سورہ اعراف: آیت نمبر:205) ترجمہ: "اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کر۔"
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیلؑ نے آپ ﷺ سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: "احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو گویا تم اسے دیکھ رہے ہو، اگر ایسا نہ کر سکو تو کم از کم یہ خیال کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث نمبر:4777) اور یہی مراقبہ کی اصل حقیقت ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا دھیان نصیب ہوجائے۔
اسی طرح آپ ﷺ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:"تم اللہ تعالیٰ کے حقوق کا خیال رکھو، اسے تم اپنے سامنے پاؤ گے"۔ (سنن ترمذی،حدیث نمبر:2516)
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ مراقبے کی اصل قرآن و حدیث سے ثابت ہے،البتہ مراقبہ کا خاص طریقہ اور ہیئت جو اہلِ تصوف کے ہاں رائج ہے، وہ کسی نص سے ثابت نہیں ہے، اس لیے مراقبے کی کسی خاص ہیئت کو سنت نہیں کہا جاسکتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے جس طرح آج کل دین کا علم حاصل کرنے کے لیے مختلف وسائل و ذرائع کو استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ اس میں سے کسی وسیلہ یا ذریعہ کو لازم یا ضروری نہیں سمجھا جاتا ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کے ذکر میں دھیان جمانے اور محض نظر و فکر کو یکسو کرنے کے لیے بطورِ علاج و وسیلہ مراقبہ کیا جاتا ہے، جبکہ اس طریقہ اور ہیئت کو سنت یا لازمی نہیں سمجھا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 4777، ط: دار طوق النجاۃ)
حدثني إسحاق، عن جرير، عن ابي حيان، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يوما بارزا للناس إذ اتاه رجل يمشي، فقال: يا رسول الله، ما الإيمان۔۔۔قال: يا رسول الله، ما الإحسان؟ قال:" الإحسان ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه فإنه يراك"۔۔۔الخ
سنن الترمذی: (رقم الحدیث: 2516)
حدثنا احمد بن محمد بن موسى، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا ليث بن سعد، وابن لهيعة , عن قيس بن الحجاج، قال. ح وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا ابو الوليد، حدثنا ليث بن سعد، حدثني، قيس بن الحجاج , المعنى واحد , عن حنش الصنعاني، عن ابن عباس، قال: كنت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما، فقال: يا غلام , " إني اعلمك كلمات: احفظ الله يحفظك احفظ الله تجده تجاهك۔۔۔۔الخ
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی