ربیع الاول اسلامی سال کا تیسرا قمری مہینہ ہے۔
ربیع الاول کی وجہ تسمیہ:
۱۔’’ربیع ‘‘عربی میں موسمِ بہار کو کہا جاتا ہے، اور اوّل کے معنی ہیں: پہلا، تو ربیع الاول کے معنی ہوئے: پہلا موسمِ بہار۔
موسمِ بہار دو زمانوں پر مشتمل ہوتا ہے: ایک تو اس کا ابتدائی زمانہ ،جس میں کلیاں اور پُھول کھلتے ہیں، اور دوسرا وہ زمانہ جب پھل پک جاتے ہیں، پہلے زمانے کو ربیع الاوّل یعنی پہلا موسمِ بہار، جبکہ دوسرے زمانے کو ربیع الثانی یعنی دوسرا موسمِ بہار کہا جاتا ہے۔جب ان مہینوں کے یہ نام رکھے جارہے تھے تو اس وقت بہار کے یہی موسم تھے، اورپھر بعد میں ان مہینوں کے یہی نام پڑگئے ۔(۱)
۲۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ ’’ربیع الاول ‘‘یہ ’’ارتباع ‘‘سے نکلا ہے ، جس کے معنی ہیں ’’موسمِ بہار میں قیام کرنا‘‘ چونکہ عرب لوگ اس مہینےمیں سفر کرنے کے بجائے موسمِ بہار گزارنے کی غرض سے گھروں میں قیام پذیر ہوتے تھے ، اس لیے اس مہینے کا نام ’’ ربیع الاول‘‘ رکھا گیا۔(۲)
ماہِ ربیع الاوّل کی فضیلت:
اس مہینے میں سرورِ دو عالم حضور اقدس جناب محمد رسول اللہ ﷺ دنیا میں تشریف لائے اور یہ مقام کسی اور مہینے کو حاصل نہیں، اسی لیے جب آپ ﷺ سے پیر کےدن روزے کےبارے میں پوچھاگیا ،تو آپ ﷺ نے اس کی فضیلت کی ایک وجہ یہ بیان فرمائی کہ اس دن میں پیدا ہوا، جب پیر کے دن روزہ کو حضورﷺ کی ولادت کی وجہ سے فضیلت حاصل ہے، تو ماہِ ربیع الاوّل کوبھی آپ ﷺ کی ولادت کا مہینہ ہونے کی خاص حیثیت کے اعتبارسے سال بھر کے تمام مہینوں پر فضیلت وفوقیت حاصل ہے۔(۳)
حضور اقدس ﷺ کی ولادت باسعادت:
تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت پیرکے دن ہوئی ۔
جیسا کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی ولادت پیرکے روز ہوئی اوروفات بھی پیر کے روزہوئی۔(۴)
اسی طرح اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر کےساتھ بیت اللہ شریف پر حملہ کیا) میں پیدا ہوئےاور جمہور اہلِ علم کا مسلک یہ ہے کہ آپﷺ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے۔ (۵)
رسولِ اکرمﷺ کی تاریخ ولادت کیا ہے ؟
اس بارےمیں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں، کسی نے ربیع الاول کی دو تاریخ کہا، کسی نے آٹھ، کسی نے دس، کسی نے بارہ، کسی نے سترہ، کسی نے اٹھارہ اور کسی نے بائیس ربیع الاول کہا اور بہت سےمحققین نے ۱۲ کی بجائے ۹ ربیع الاول کو یومِ ولادت ثابت کیا ہے ۔(۶)
تاریخ ولادت میں راجح قول:
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ فیل کے پچاس یا پچس روز کے بعد بتاریخ ۸ ربیع الاول پیر یوم دو شنبہ مطابق ماہ اپریل ۵۷۰ عیسوی مکہ مکرمہ میں صبح صادق کے وقت ابو طالب کے مکان میں پیدا ہوئے، ولادت باسعادت میں مشہور قول تو یہ ہے کہ حضور پُرنور ﷺ ۱۲ ربیع الاول کو پیدا ہوئے، لیکن جمہور محدثین اور مورخین کے نزدیک راجح اور مختار قول یہ ہے کہ حضور ﷺ ۸ ربیع الاول کو پیدا ہوئے، عبداللہ بن عباس اور جبیر بن مطعم رضی اللہ عنھم سے بھی یہی منقول ہے اور اسی قول کو علامہ قطب الدین قسطلانی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ہے۔(۷)(سیرت مصطفی ،ج:۱،ص:۵۶،ط:دارالناشر)
حضور اقدس ﷺ کی تاریخ وفات:
آپﷺ کی تاریخِ وفات کے بارے میں تین اقوال (یکم ربیع الاول ، دوربیع الاول اوربارہ ربیع الاول )ملتے ہیں۔
جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ۱۲؍ ربیع الاول رسولِ اکرمﷺ کا یوم وفات ہے۔
۱۔ علامہ ابن سعد نے حضرت عائشہؓ کی روایت نقل کی ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ پیر کے دن،ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔(۸)
۲۔ حافظ ابن کثیر نے لکھاہے کہ اللہ کے رسولﷺ بارہ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔(۹)
۳۔ مؤرخ علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں کہ جب آپﷺ کا مرض شدت اختیار کرگیا توآپ کو حضرت عائشہؓ کے حجرہ مبارکہ میں منتقل کیا گیا، آپ ﷺچاشت کے وقت، پیر کے دن، بارہ ربیع الاول کو اس وقت فوت ہوئے، جس وقت میں آپﷺ مدینہ میں داخل ہوئے تھے۔(۱۰)
۴۔علامہ ابن جریر طبریؒ نے بھی بارہ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (۱۱)
۵۔سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب "الرحیق المختوم" کے مصنف مولانا صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ بارہ ربیع الاول سن ۱۱ہجری چاشت کی شدت کے وقت پیش آیا۔(۱۲)
۶۔مشہورسیرت نگارحافظ سیدفضل الرحمن صاحب اپنی کتاب ہادی عالم میں لکھتے ہیں کہ جدید توقیت میں آپ ﷺکی تاریخِ وفات مدنی روئیت کےمطابق ۱۲\ربیع الاول ۱۱ہجری قمری (۸جون۲۳۶ء)بروزپیرہے۔(۱۳)
حضوراکرم ﷺ کی تاریخ ولادت میں اختلاف کیوں؟:
حضوراکرم ﷺ کی تاریخ ولادت میں اختلاف کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ تاریخی روایات میں تعارض پایا جاتا ہے۔
2۔ قمری اور شمسی سال میں اختلاف کی وجہ سے۔
3۔ مشرکین عرب تاریخ میں ردو بدل کرکے مہینوں کو آگے پیچھے کردیا کرتے تھے، جس کو قرآن کریم نے یوں رد کیا ہے۔
اور یہ نسیئ (یعنی مہینوں کو آگے پیچھے کردینا) تو کفر میں ایک مزید اضافہ ہے جس کے ذریعے کافروں کو گمراہ کیا جاتا ہے۔
(سورہ التوبۃ آیت نمبر 37، آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی)
ماہِ ربیع الاوّل کے اَعمال
قرآن وسنت کی روشنی میں اس مہینے سے متعلق مخصوص اَعمال کا کوئی ثبوت نہیں، اس لیے اس ماہ سے متعلق اپنی طرف سے اعمال وعبادات بیان کرنا شریعت میں زیادتی ہے جو کہ ناجائز ہے۔
حضوراکرم ﷺ کا ذکر مبارک ایک اعلی ترین عبادت ہے، بلکہ روحِ ایمان ہے۔
آپ کی ولادت، آپ کا بچپن، آپ کاشباب، آپ کی بعثت، آپ کی دعوت ، آپ کا جہاد ،آپ کی عبادت ونماز، آپ کے اخلاق، آپ کی صورت وسیرت، آپ کازہدو تقوی، آپ کی صلح وجنگ ، خفگی و غصہ، رحمت و شفقت، تبسم و مسکراہٹ، آپ کا اٹھنابیٹھنا ، چلنا پھرنا، سونا جاگنا، الغرض آپ کی ایک ایک ادا اور ایک ایک حرکت و سکون امت کے لیے اسؤہ حسنہ اور اکسیر ہدایت ہے اور اس کا سیکھنا سکھانا، اس کا مذاکرہ کرنا اور دعوت دینا امت کا فرض ہے۔
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کاطریقہ
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کو بیان کرنے کے دو طریقے ہیں:
پہلاطریقہ:
آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے ایک ایک نقشے کو اپنی زندگی کےظاہر و باطن پر اس طرح آویزاں کیا جائے کہ آپ ﷺ کے ہر امتی کی صورت وسیرت، چال ڈھال، رفتارو گفتار، اخلاق وکردار آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کی تصوير بن جائے اور دیکھنے والے کو نظرآئے کہ یہ محمدرسول اللہﷺ کا غلام ہے۔
دوسراطریقہ:
جہاں بھی موقع ملے آپﷺ کے ذکر ِخیر سے ہرمجلس و محفل کو معطر کیا جائے۔ آپ ﷺ کے فضائل و کمالات اور آپﷺ کے بابرکت اعمال اور طریقوں کا تذکرہ کیاجائے۔
سلف صالحین، صحابہ کرام و تابعین اور ائمہ کرام ان دونوں طریقوں پر عمل کرتے تھے۔ وہ آپ ﷺ کی ایک ایک سنت کو اپنے عمل سے زندہ کرتے تھے اور ہر محفل و مجلس میں بھی آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کا تذکرہ کرتے تھے۔
چند مثالیں:
(۱)مسلم شریف کی ایک روایت کے مطابق حضرت عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ مجھ سے کوئی یہ دریافت کرے کہ جناب رسول اللہؐ کا چہرہ مبارک کیسا تھا تو میں اس سوال کا جواب نہیں دے پاؤں گا اور آپﷺ کے چہرہ مبارک کی تفصیلات بیان کرنا میرے بس میں نہیں ہوگا، اس لیے کہ جب میں کافر تھا تو میرے دل میں حضرت محمدﷺکے لیے اس قدر شدید نفرت تھی کہ میں ان کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا، لیکن جب میں مسلمان ہوا تو میرے دل میں آقائے نامدارﷺکی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپﷺ کے رعب کی وجہ سے میں ان کو نگاہ بھر کر دیکھنے کی تاب نہیں رکھتا تھااور اسی کیفیت میں زندگی بسر ہوگئی کہ میں ایک بار بھی رسول اکرمﷺ کے چہرہ مبارک کو آنکھ بھر کر نہیں دیکھ سکا اور اسی وجہ سے آنحضرتؐ کے چہرۂ انور کی تفصیلات کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے۔
(۲)حضرت انس بن مالکؓ جناب نبی اکرمﷺ کے ذاتی خادموں میں سے تھے جنہیں دس سال کی عمر میں ان کی والدہ محترمہ حضرت ام سلیمؓ نے اس مقصد کے لیے رسول اللہؐ کی خدمت میں پیش کر دیا تھا کہ میرا یہ بچہ آپؐ کی خدمت کے لیے وقف ہے۔ انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی انصاری صحابیؓ نے حضورؐ کی دعوت کی۔ بطور خادم میں بھی ساتھ تھا، صاحب خانہ نے خشک کیے ہوئے گوشت (قدید) کی بوٹیوں کے ساتھ شوربے والا کدو پکا رکھا تھا، جو آنحضرتؐ کی مرغوب غذا تھی۔ دسترخوان بچھا کر ایک بڑا پیالہ رکھ دیا گیا جس میں کدو اور شوربے والا گوشت تھا۔ انس بن مالکؓ ؓ کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہؐ پیالے میں سے کدو کے ٹکڑے تلاش کر کے کھانے لگے، یہ دیکھ کر میں نے شوربے میں سے کدو کے ٹکڑے نکال کر آپؐ کے سامنے رکھنے شروع کر دیے۔ اور پھر اس کے بعد مجھے کدو سے محبت سی ہوگئی، اس لیے کہ جناب رسول اللہؐ اسے پسند فرماتے تھے، پھر کبھی ایسا نہیں ہوا کہ گھر والوں نے مجھ سے کوئی چیز پکانے کے لیے پوچھا ہو اور میں نے کدو کے علاوہ کسی اور چیز کی فرمائش کی ہو۔
حتیٰ کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے دور حکومت میں جب بصرہ نئے شہر کے طور پر آباد ہوا اور وہاں امیر المومنینؓ نے بہت سے دیگر صحابہ کرامؓ کے ساتھ حضرت انس بن مالکؓ کو بھی بصرہ میں بھیج دیا اور وہاں انہیں کچھ زمین عنایت فرمائی تو حضرت انسؓ نے اس زمین میں کدو ہی کاشت کرنا شروع کر دیے۔ حضرت انسؓ کی زمین میں فاصلے کے ساتھ کھجور کے درخت اور درمیان میں کدو کی بیلیں ہر طرف دکھائی دیتی تھیں۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرمؐ کی پسند کے ساتھ محبت اور رسالت مآبﷺ کی دعا کا اثر تھا کہ باقی لوگوں کی کھیتیاں سال میں ایک بار فصل دیتی تھیں، جبکہ میری فصل سال میں دو بار فصل دیتی تھی اور بسا اوقات اتنے بڑے بڑے کدو ہوتے تھے کہ ایک کدو کو کاٹ کر گدھے پر لاد کر گھر لے جانا پڑتا تھا۔
(۳)حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے شاگرد اور خادم خاص حضرت نافعؓ کہتے ہیں کہ آخر عمر میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نابینا ہوگئے تھے، لیکن حج کے سفر پر متواتر جاتے تھے اور حج بھی اس ترتیب کے ساتھ کرتے تھے کہ جہاں رسول اللہﷺ نے احرام باندھا، وہیں احرام باندھنا ہے، جہاں غسل کیا تھا، وہیں غسل کرنا ہے، جہاں ظہر پڑھی تھی وہیں ظہر پڑھنی ہے، جہاں پہلی رات قیام کیا تھا، وہیں پہلی رات قیام کرنا ہے اور جہاں دوسرے دن ظہر پڑھی تھی،دوسرے دن ظہر پڑھنی ہے۔ یہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا ذوق تھا، جس پر وہ آخر عمر تک عمل کرتے رہے۔ حضرت نافعؓ کہتے ہیں کہ ایک بار سفر حج میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے ایک جگہ مجھ سے پوچھا کہ یہاں سے فلاں جانب اتنے فاصلے پر ایک بڑا پتھر ہوگا کیا وہ تمہیں نظر آ رہا ہے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو فرمایا کہ مجھے وہاں لے چلو، میں انہیں اس پتھر تک لے گیا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اس کے قریب ایک طرف رخ کر کے اس طرح تھوڑی دیر بیٹھے جیسے پیشاب کرنا چاہ رہے ہوں، مگر پیشاب کیے بغیر اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا تو بتایا کہ جناب نبی اکرمؐ نے اس مقام پر بیٹھ کر پیشاب کیا تھا، مجھے پیشاب کی حاجت نہیں تھی، مگر جی چاہتا تھا کہ یہاں کچھ دیر ضرور بیٹھوں اس لیے میں یہاں بیٹھا ہوں۔
(۴)حضرت نافعؓ کہتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جب نابینا ہوگئے تھے، ایک روز مجھ سے کہا کہ ذرا بازار تک لے چلو۔ میں نے ہاتھ پکڑا اور بازار لے آیا تھوڑی دور تک چلے اور پھر فرمایا واپس چلو۔ میں نے عرض کیا کہ حضرت کام تو آپ نے کوئی بھی نہیں کیا۔ فرمایا کہ آتے ہوئے چند دوستوں کے ساتھ سلام جواب ہوا ہے اور واپسی پر بھی کچھ لوگوں کے ساتھ گزرتے ہوئے سلام کلام ہوگا۔ بس اسی کام کے لیے آیا تھا کہ کچھ مسلمان بھائیوں سے سلام کہنے اور سلام کا جواب دینے کی اس سنت پر عمل ہو جائے گا، جس پر کافی دنوں سے اندر بیٹھے بیٹھے عمل نہیں ہو رہا تھا۔
(۵)حضرت عمرو بن العاصؓ مصر کے فاتح تھے۔ وہ جب مصر میں یلغار کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے اور شہر و قلعے فتح کرتے ہوئے بڑھتے جا رہے تھے کہ بویس نامی ایک قلعہ پر ان کے قدم رک گئے۔ آٹھ ہزار کا لشکر پاس تھا قلعہ کا محاصرہ کیے ہوئے کافی دن گزر گئے تھے، مگر قلعہ فتح نہیں ہو رہا تھا اور نہ ہی قلعہ فتح ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں آرہی تھی۔ امیر المومنین حضرت عمرؓ کی خدمت میں خط دے کر قاصد روانہ کیا اور صورتحال عرض کر کے ان سے رہنمائی چاہی تو حضرت عمرؓ نے جواب میں چار افراد پر مشتمل کمک بھیجی جن میں زبیر بن العوامؓ، حضرت مقداد بن اسودؓ، حضرت خارجہ بن حذافہؓ اور حضرت بسر بن اوطاہؓ شامل تھے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت عمرؓ نے جوابی خط میں لکھا کہ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آٹھ ہزار کا صحابہؓ کا لشکر ہو اور قلعہ فتح نہ ہو، ضرور تم سے رسول اللہؐ کی کوئی سنت ترک ہو گئی ہے، جس کی وجہ سے برکت نہیں رہی، اس لیے اس بات کی فکر کرو۔ امیر المومنین کا خط ملنے کے بعد حضرت عمرو بن العاصؓ نے لشکر کو خط سنایا اور کہا کہ امیر المومنین کی بات غلط نہیں ہو سکتی، ضرور ہم سے کوئی سنت نبویؐ ترک ہو گئی ہے، جس کی وجہ ہم فتح کی برکت سے ابھی تک محروم ہیں۔ اس پر سارے لشکر نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ جنگی مصروفیات کی وجہ سے لشکر کے بہت سے لوگوں سے مسواک رہ جاتی ہے۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے سارے لشکر کو حکم دیا کہ مسواکیں پکڑو اور قریب ندی کے کنارے بیٹھ کر مسواک کرو۔اب جو قلعہ کے اندر محصور لوگوں نے آٹھ ہزار کے لشکر کو اجتماعی طور پر مسواک کرتے یا دانت تیز کرتے دیکھا تو اسے کوئی نئی جنگی چال سمجھا اور خوف زدہ ہو کر لڑائی کے بغیر قلعہ مسلمانوں کے سپرد کرنے کے لیے صلح کا پرچم بلند کر دیا۔
یہ صحابہ کرامؓ کا جناب نبی اکرمﷺ کی سیرت مبارکہ کے ساتھ عملی تعلق تھا۔
(مولانا زاہدالراشدی صاحب کے مضمون سے اقتباس)(۱۴)
ماہِ ربیع الاوّل اور سیرت النبی ﷺ کے جلسے اور جلوس
آپ ﷺ کا ذکر مبارک:
نبی کریمﷺ کا ذکر مبارک انسان کی عظیم ترین سعادت ہے اور اس روئے زمین پر کسی بھی ہستی کا تذکرہ اتنا باعث اجر و ثواب اتنا باعث خیر و برکت نہیں ہوسکتا جتنا سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کا تذکرہ ہوسکتا ہے۔ لیکن تذکرہ کے ساتھ ساتھ ان سیرتِ طیبہ کی محفلوں میں ہم نے بہت سی ایسی غلط باتیں شروع کردی ہیں جن کی وجہ سے ذکر مبارک کا صحیح فائدہ اور صحیح ثمرہ ہمیں حاصل نہیں ہورہا ہے۔
سیرتِ طیبہ اور صحابہ کرامؓ
ان غلطیوں میں سے ایک غلطی یہ ہے کہ ہم نے سرکارِ دو عالمﷺ کا ذکر مبارک صرف ایک مہینے یعنی ربیع الاوّل کے ساتھ خاص کردیا ہے اور ربیع الاوّل کے بھی صرف ایک دن اور ایک دن میں بھی صرف چند گھنٹے نبی کریم ﷺ کا ذکر کرکے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے نبی کریمﷺ کاحق ادا کردیا ہے، یہ حضورِ اقدس ﷺ کی سیرتِ طیبہ کے ساتھ اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس سے بڑا ظلم سیرتِ طیبہ کے ساتھ کوئی اور نہیں ہوسکتا۔
صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پوری زندگی میں یہ بات آپ کو نظر نہیں آئے گی اور نہ آپ کو اس کی ایک مثال ملے گی کہ انہوں نے ۱۲؍ ربیع الاوّل کو خاص جشن منایا ہو۔ عید میلادالنبی کا اہتمام کیا ہو یا اس خاص مہینے کے اندر سیرتِ طیبہ کی محفلیں منعقد کی ہوں، اس کے بجائے صحابہ کرام کا طریقہ یہ تھا کہ ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ سرکارِ دوعالمﷺ کے تذکرہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ جہاں دو صحابہ ملے انہوں نے آپﷺ کی حدیث اور آپ ﷺ کے ارشادت آپ کی دی ہوئی تعلیمات کا، آپﷺ کی حیاتِ طیبہ کے مختلف واقعات کا تذکرہ شروع کردیا۔ اس لئے ان کی ہر محفل سیرتِ طیبہ کی محفل تھی۔ ان کی ہر نشست سیرتِ طیبہ کی نشست تھی۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ان کو نبی کریمﷺ کے ساتھ محبت اور تعلق کے اظہار کیلئے رسمی مظاہروں کی ضرورت نہ تھی کہ عید میلادالنبی منائی جارہی ہے اور جلوس نکالے جارہے ہیں، جلسے جلوس ہورہے ہیں، چراغاں کیا جارہا ہے۔ اس قسم کے کاموں کی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں ایک مثال بھی پیش نہیں کی جاسکتی۔
اسلام رسمی مظاہروں کا دین نہیں:
بات درحقیقت یہ تھی کہ رسمی مظاہرہ کرنا صحابہ کرام کی عادت نہ تھی وہ اس کی روح کو اپنائے ہوئے تھے۔ حضورِ اقدس ﷺ اس دنیا میں کیوں تشریف لائے تھے؟ آپ ﷺ کا پیغام کیا تھا؟ آپﷺ کی کیا تعلیم تھی؟ آپ ﷺ دنیا میں سے کیا چاہتے تھے؟ اس کام کیلئے انہوں نے اپنی ساری زندگی کو وقف کردیا۔ لیکن اس قسم کے رسمی مظاہرے نہیں کئے اور یہ طریقہ ہم نے غیر مسلموں سے لیا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ غیر مسلم اقوام اپنے بڑے بڑے لیڈروں کے دن منایا کرتی ہیں اور ان دنوں میں خاص جشن اور خاص محفل منعقد کرتی ہیں اور ان کی دیکھا دیکھی ہم نے سوچا کہ ہم بھی نبی کریمﷺ کے تذکرہ کیلئے عید میلاد النبی منائیں گے اور یہ نہیں دیکھا کہ جن لوگوں کے نام پر کوئی دن منایا جاتا ہے درحقیقت وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زندگی کے تمام لمحات کو قابل اقتداء اور قابل تقلید نہیں سمجھا جاسکتا، بلکہ یا تو وہ سیاسی لیڈر ہوتا ہے یا کسی اور دنیاوی معاملے میں لوگوں کا قائد ہوتا ہے، تو صرف اس کی یاد تازہ کرنے کیلئے اس کا دن منایا گیا، لیکن اس قائد کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ قابل تقلید ہے اور اس نے دنیا میں جو کچھ کیا، وہ صحیح کیا ہے، وہ معصوم اور غلطیوں سے پاک تھا لہٰذا اس کی ہر چیز کو اپنایا جائے۔ ان میں سے کسی کے بارے میں یہ بھی نہیں کہا جاسکتا۔
لیکن یہاں توسرکارِ دوعالمﷺ کے بارے میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ کو بھیجا ہی اس مقصد کیلئے تھا کہ آپ انسانیت کے سامنے ایک مکمل اور بہترین نمونہ پیش کریں، ایسا نمونہ بن جائیں جس کو دیکھ کر لوگ نقل کریں۔ اس کی تقلید کریں، اس پر عمل پیرا ہوں اپنی زندگی کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔ اس غرض کیلئے نبی کریمﷺ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ آپ ﷺ کی زندگی کا ہر ایک لمحہ ہمارے لئے ایک مثال ہے۔ ایک نمونہ ہے اور ایک قابل تقلید عمل ہے اور ہمیں آپﷺ کی زندگی کے ایک ایک لمحے کی نقل اُتارنی ہے۔ اور ایک مسلمان کی حیثیت سے ہمارا یہ فریضہ ہے ،لہٰذا ہم نبی کریمﷺ کو دنیا کے دوسرے لیڈروں پر قیاس نہیں کرسکتے کہ ان کا ایک دن منایا اور بات ختم ہوگئی بلکہ سرکارِ دوعالمﷺ کی حیاتِ طیبہ کو ہماری زندگی کے ایک ایک شعبے کیلئے اﷲ تعالیٰ نے نمونہ بنایا ہے اور سب چیزوں میں ہمیں ان کی اقتدا کرنی ہے ہمارا زندگی کا ہر دن ان کی یاد منانے کا دن ہے۔
ہماری نیت درست نہیں:
دوسری بات یہ ہے کہ سیرت کی محفلیں اور جلسے جگہ جگہ منعقد ہوتے ہیں اور ان میں نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ کو بیان کیا جاتا ہے لیکن بات دراصل یہ ہے کہ کام کتنا ہی اچھے سے اچھا کیوں نہ ہو۔ مگرجب تک کام کرنے والے کی نیت صحیح نہیں ہوگی جب تک اس کے دل میں داعیہ او رجذبہ صحیح نہیں ہوگا۔ اس وقت تک وہ کام بے کار، بے فائدہ ، اس کے دل میں بعض اوقات مضر، نقصان دہ اور باعث گناہ بن جاتا ہے۔ دیکھئے! نماز کتنا اچھا عمل ہے اور اﷲتعالیٰ کی عبادت ہے اور قرآن وحدیث نماز کے فضائل سے بھرے ہوئے ہیں، لیکن اگر کوئی شخص نماز اس لیے پڑھ رہا ہے تاکہ لوگ مجھے نیک، متقی اور پارسا سمجھیں، ظاہر ہے کہ وہ ساری نماز اکارت ہے، بے فائدہ ہے، بلکہ ایسی نماز پڑھنے سے ثواب کے بجائے اُلٹا گناہ ہوگا۔ حدیث شریف میں حضورِ اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:’’جو شخص لوگوں کودکھانے کیلئے نماز پڑھے تو گویا کہ اس نے اﷲ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہرایا ہے‘‘(مسند احمد۔ ج۔۴، ص۔۱۲۶)
اس لئے کہ نماز اﷲ کو راضی کرنے کیلئے نہیں پڑھ رہا ہے۔ بلکہ مخلوق کو راضی کرنے کیلئے اور مخلوق میں اپنا تقویٰ اور نیکی کا رعب جمانے کیلئے پڑھ رہا ہے، اس لئے وہ ایسا ہے جیسے اس نے اﷲ کے ساتھ مخلوق کو شریک ٹھہرایا۔ اتنا اچھا کام تھا، لیکن صرف نیت کی خرابی کی وجہ سے بے کار ہوگیا اور اُلٹا باعث گناہ بن گیا۔
یہی معاملہ سیرتِ طیبہ کے سننے اور سنانے کا ہے۔ اگر کوئی شخص سیرتِ طیبہ کو صحیح مقصد، صحیح نیت اور صحیح جذبے سے سنتا اور سناتا ہے تو یہ کام بلاشبہ عظیم الشان ثواب کا کام ہے اور باعث خیر و برکت ہے اور زندگی میں انقلاب لانے کا موجب ہے، لیکن اگر کوئی شخص سیرتِ طیبہ کو صحیح نیت سے نہیں سنتا اور صحیح نیت سے نہیں سناتا ہے بلکہ اس کے ذریعے کچھ اور اغراض و مقاصد دل میں چھپے ہوئے ہیں اور جن کے تحت سیرتِ طیبہ کے جلسے اور محفلیں منعقد کی جارہی ہیں۔ یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہے، اس لئے کہ ظاہر میں تو نظر آرہا ہے کہ آپ بہت نیک کام کررہے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اُلٹا گناہ کا سبب بن رہا ہے اور اﷲ تعالیٰ کے عذاب اور عتاب کا سبب بن رہا ہے۔
اس نقطہ نظر سے اگر ہم اپنا جائزہ لے کر دیکھیں اور سچے دل سے نیک نیتی کے ساتھ اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھیں کہ ان تمام محفلوں میں جو کراچی سے پشاور تک منعقد ہورہی ہیں، کیا ان کے منتظمین اس بناء پر محفل منعقد کررہے ہیں کہ ہمارا مقصد اﷲ تعالیٰ کو راضی کرنا ہے؟ اور اﷲ کے رسولﷺ کی پیروی مقصود ہے؟ کیا اس لئے محفل منعقد کررہے ہیں کہ نبی کریمﷺ کی جوتعلیمات ان محفلوں میں سنیں گے اس کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے؟ بعض اﷲ کے نیک بندے ایسے بھی ہوں گے جن کی یہ نیت ہوگی۔ لیکن ایک عام طرزِ عمل دیکھئے تو یہ نظر آئے گا محفل منعقد کرنے کے مقاصد ہی کچھ اور ہیں۔ نیتیں ہی کچھ اور ہیں، یہ نیت نہیں ہے کہ اس جلسے میں شرکت کے بعد ہم نبی کریمﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں گے، بلکہ نیت یہ ہے کہ محلے کی کوئی انجمن ہے، جو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے جلسہ منعقدکررہی ہے اور یہ خیال ہے کہ جلسہ سیرت النبی کرنے سے ہماری انجمن کی شہرت ہوجائے گی، کوئی جماعت اس لئے جلسہ سیرت النبی منعقد کررہی ہے کہ اس جلسہ کے ذریعے ہماری تعریف ہوگی کہ بڑا شاندار جلسہ کیا، بڑے اعلیٰ درجے کے مقررین بلائے اور بڑے مجمع نے اس میں شرکت کی اور مجمع نے ان کی بڑی تحسین کی۔ کہیں جلسے اس لئے منعقد ہورہے ہیں کہ اپنی بات کہنے کا کوئی اور موقع تو ملتا نہیں ہے کوئی سیاسی بات ہے یا کوئی فرقہ وارانہ بات ہے جس کو کسی اورپلیٹ فارم پر ظاہر نہیں کیا جاسکتا، اس لئے سیرت النبی کا ایک جلسہ منعقد کرلیں اور اس میں اپنے دل کی بھڑاس نکال لیں، چنانچہ اس جلسے میں پہلے حضورِ اقدسﷺ کی تعریف اور توصیف کے دوچار جملے بیان ہوگئے اور اس کے بعد پوری تقریر میں اپنے مقاصد بیان ہورہے ہیں اور فریق مخالف پر بمباری ہورہی ہے۔ اس غرض کیلئے جلسے منعقد ہورہے ہیں۔
پھر دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اگر واقعتہً سچےدل سے سرکار دوعالمﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی نیت سے ہم نے یہ محفلیں منعقد کی ہوتیں تو پھر ہمارا طرزِ عمل کچھ اور ہوتا ایک گھر میں ایک محفل میلاد منعقد ہورہی ہے، اب اگر اس محفل میں اس کا کوئی دوست یا رشتہ دار شریک نہیں ہو اتو اس کو مطعون کیا جارہا ہے اور اس پر ملامت کی جارہی ہے اور اس سے شکایتیں ہورہی ہیں اس محفل میں شرکت کرنے والوں کی نیت یہ نہیں کہ سرکارِ دوعالمﷺ کی سیرت کو سننا ہے اور اس پر عمل کرنا ہے، بلکہ نیت یہ ہے کہ کہیں محفل منعقد کرنے والے ہم سے ناراض نہ ہوجائیں اور ان کے دل میں شکایت پیدا نہ ہوجائے اﷲ کو راضی کرنے کی فکر نہیں ہے، محفل منعقد کرنے والوں کو راضی کرنے کی فکر ہے۔
کوئی شخص اس لئے جلسے میں شرکت کررہا ہے کہ اس میں فلاں مقرر صاحب تقریر کریں گے۔ ذراجاکر دیکھیں کہ وہ کیسی تقریر کرتے ہیں، سنا ہے کہ بڑے جوشیلے اور شاندار مقرر ہیں۔ بڑی دھواں دھار تقریر کرتے ہیں۔ گویا کہ تقریر کا مزہ لینے کے لئے جارہے ہیں تقریر کے جوش و خروش کا اندازہ کرنے کیلئے جارہے ہیں اور یہ دیکھنے کیلئے جارہے ہیں کہ فلاں مقرر کیسے گاگا کر شعر پڑھتا ہے کتنے واقعات سناتا ہے۔
کچھ لوگ اس لئے سیرت النبی کے جلسے میں شرکت کررہے ہیں کہ چلو، آج کوئی اور کام نہیں ہے اور وقت گزاری کرنی ہے، چلو کسی جلسے میں جاکر بیٹھ جاؤ تو وقت گزر جائے گا اور بے شمار افراد اس لئے شریک ہورہے ہیں کہ گھر میں تو دل نہیں لگ رہا ہے اور محلے میں ایک جلسہ ہورہا ہے چلو اس میں تھوڑی دیر جاکر بیٹھ جائیں اور جتنی دیر دل لگے گا وہاں بیٹھے رہیں گے اور جب دل گھبرائے گا اُٹھ کر چلے جائیں گے۔ لہٰذا مقصد یہ نہیں ہے کہ سرکار دوعالمﷺ کی سیرت طیبہ کو حاصل کیا جائے بلکہ مقصد یہ ہے کہ کچھ وقت گزاری کا سامان ہوجائے اگرچہ بعض اوقات اس طرح وقت گزاری کیلئے جانا بھی فائدہ مند ہوجاتا ہے اﷲ رسول کی کوئی بات کان میں پڑجاتی ہے اور اس سے انسان کی زندگی بدل جاتی ہے ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ لیکن میں نیت کی بات کررہا ہوں کہ جاتے وقت نیت درست نہیں ہوتی۔ یہ نیت نہیں ہوتی کہ میں جاکر رسول اﷲﷺ کی سیرت سن کر اس پر عمل پیرا ہوں گا۔
آپ ﷺ کی سنتوں کا مذاق اُڑایا جارہا ہے:
تیسری بات یہ ہے کہ انہی سیرتِ طیبہ کے نام پر منعقد ہونے والی محفلوں میں عین محفل کے دوران ہم ایسے کام کرتے ہیں جوسرکارِ دوعالم محمد مصطفےٰﷺ کے ارشادات کے قطعی خلاف ہیں، آپ ﷺ کی سنتوں کا ذکر کیا جارہا ہے، لیکن عملاً ہم ان تعلیمات کا، ان سنتوں کا، ان ہدایات کا مذاق اُڑا رہے ہین جو نبی کریمﷺ لے کر آئے تھے۔
چنانچہ ہمارے معاشرے میں اب ایسی محفلیں کثرت سے ہونے لگی ہیں، جن میں مخلوط اجتماع ہے اور عورتیں اور مرد ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور سیرتِ طیبہ کا بیان ہورہا ہے، نبی کریمﷺ نے تو عورتوں کو فرمایا کہ اگر تمہیں نماز پڑھنی ہو تو مسجد کے بجائے گھر میں پڑھو اور گھر میں صحن کی بجائے کمرے میں پڑھو اور کمرے میں بہتر یہ ہے کہ کوٹھڑی میں پڑھو۔ عورت کے بارے میں آپﷺ یہ حکم دے رہے ہیں۔ لیکن انہی سرکارِ دوعالمﷺ کا ذکر مبارک ہورہا ہے جس میں عورتیں اور مرد مخلوط اجتماعات میں شریک ہیں اور کسی اﷲ کے بندے کو یہ خیال نہیں آتا کہ سیرتِ طیبہ کے ساتھ کیا مذاق ہورہا ہے، پوری آزمائش اور زیبائش کے ساتھ سج دھج کر بے پردہ ہوکر خواتین شریک ہورہی ہیں اور مرد بھی ساتھ موجود ہیں۔
نبی کریم سرکارِ دوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ مجھے جس کام کیلئے بھیجا گیا ہے، اس میں سے ایک اہم کام یہ ہے کہ میں ان باجوں بانسریوں کو اور ساز و سرور کو اور آلات موسیقی کو اس دنیا سے مٹادوں۔ لیکن آج انہی سرکار دو عالم ﷺ کے نام پر محفل منعقد ہورہی ہیں۔ جلسہ ہورہا ہے اور اس میں ساز و سرور کے ساتھ نعت پڑھی جارہی ہے اور اس میں قوالی شریف ہورہی ہے قوالی کے ساتھ لفظ ’’شریف‘‘ بھی لگ گیا ہے اور اس میں پورے آب و تاب کے ساتھ ہارمونیم بج رہا ہے، ساز و سرور ہورہا ہے۔ عام گانوں میں اور نبی کریم ﷺ کی نعت میں کوئی فرق نہیں رکھا جارہا ہے۔ نبی کریمﷺ کی سیرت کے ساتھ اس سے بڑا مذاق اور کیا ہوسکتا ہے۔
اس کے علاوہ ریڈیو اور ٹیلیویژن پر عورتیں اور مرد مل کر نعتیں پڑھ رہے ہیں کہ پورے آرائش اور زیبائش کے ساتھ عورتیں ٹیلیویژن پر آرہی ہیں۔ یہ کیا مذاق ہے جو آپ کی
سیرتِ طیبہ اور آپ کی تعلیمات کے ساتھ ہورہا ہے۔ عورت جس کے بارے میں قرآنِ کریم نے فرمایا کہ: زمانۂ جاہلیت کی طرح تم بناؤ سنگھار کرکے مردوں کے سامنے مت آؤ. (سورۂ الاحزاب۔ ۳۳)
آج وہی عورت پورے میک اَپ اور بناؤ سنگھار کے ساتھ مردوں کے سامنے آرہی ہے اور نبی کریمﷺ کی شان میں نعت پڑھ رہی ہے۔ نبی کریمﷺ کی نعت اور سیرت کے ساتھ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہوسکتا ہے؟ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ان چیزوں کی وجہ سے اﷲ کی رحمت آپ کی طرف متوجہ ہوگی تو پھر آپ سے زیادہ دھوکے میں کوئی اور نہیں ہے۔ نبی کریم سرورِ دوعالمﷺ کی سنتوں کو مٹاکر، آپﷺ کی تعلیمات کی خلاف ورزی کرکے، آپ کی سیرتِ طیبہ کی مخالفت کرکے اور اس کا مذاق اُڑاکر بھی اگر آپ اس کے متمنی ہیں کہ اﷲ کی رحمتیں آپ پر نچھاور ہوں تو اس سے بڑا مغالطہ اور اس سے بڑا دھوکہ اس روئے زمین پر کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ معاذ اﷲ۔۔۔ یہ تو اﷲ تعالیٰ کا عذاب اور اس کے عتاب کو دعوت دینے والی باتیں ہیں، وہ کام جو حضورﷺ کی نافرمانی کے کام ہیں وہ ہم عین سیرتِ طیبہ کو بیان کرتے وقت کرتے ہیں۔
سیرت کے جلسے میں نمازیں قضاء:
پہلے بات صرف جلسوں کی حد تک محدود تھی کہ سیرتِ طیبہ کا جلسہ ہورہا ہے، اس میں شریعت کی چاہے جتنی خلاف ورزی ہورہی ہو، کسی کو پرواہ نہیں، لیکن اب تو بات اور آگے بڑھ گئی ہے چنانچہ دیکھنے اور سننے میں آیاہے کہ آپﷺ کی سیرتِ طیبہ کے جلسے کے انتظامات ہورہے ہیں اور ان انتظامات میں نمازیں قضا ہورہی ہیں کسی شخص کو نماز کا ہوش نہیں، پھر رات کے دو دو بجے تک تقریریں ہورہی ہیں اور صبح فجر کی نماز جارہی ہے۔ جبکہ نبی کریمﷺ کا ارشاد تو یہ تھاکہ جس شخص کی ایک عصر کی نماز فوت ہوجائے تو وہ شخص ایسا ہے جیسے اس کے تمام مال اور تمام اہل و عیال کو کوئی شخص لوٹ کر لے گیا۔ اتنا عظیم نقصان ہے۔ لیکن سیرت طیبہ کے جلسے کے انتظامات میں نمازیں قضا ہورہی ہیں او رکوئی فکر نہیں اس لئے کہ ہم تو ایک مقدس کام میں لگے ہوئے ہیں اور نبی کریمﷺ نے نماز کی جو تاکید بیان فرمائی تھی وہ نگاہوں سے اوجھل ہے۔
سیرت کے جلسے اور ایذاء مسلم:
سیرتِ طیبہ کا جلسہ ہورہا ہے۔ جس میں کل پچّیس تیس سامعین بیٹھے ہیں۔ لیکن لاؤڈ اسپیکر اتنا بڑا لگانا ضروری ہے کہ اس کی آوا زپورے محلے میں گونجے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک جلسہ ختم نہ ہوجائے اس وقت تک محلے کا کوئی بیمار، کوئی ضعیف، کوئی بوڑھا اور معذور آدمی سو نہ سکے۔ حالانکہ نبی کریمﷺ کا عمل تو یہ تھا کہ آپ تہجد کی نماز کیلئے بیدار ہورہے ہیں لیکن کس طرح بیدار ہورہے ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ ’’فقام رویداً‘‘ آپ دھیرے سے اُٹھے کہیں ایسا نہ ہو کہ عائشہ (رضی اﷲ عنہا) کی آنکھ کھل جائے۔ ’’فتح الباب رویداً‘‘ آہستہ سے دروزاہ کھولا ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عائشہ (رضی اﷲ عنہا) کی آنکھ کھل جائے اور نماز جیسے فریضے کے اندر حضورﷺ کا یہ عمل تھا کہ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اگر میں نماز میں کسی بچے کے رونے کی آواز سنتا تو نماز کو مختصر کردیتا ہوں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اس بچے کی آواز سن کر اس کی ماں کسی شفقت میں مبتلا ہوجائے۔ لیکن یہاں بلاضرورت، بغیر کسی وجہ کے، صرف ۲۵،۳۰ سامعین کو سنانے کیلئے اتنا بڑا لاؤڈ اسپیکر نصب ہے کہ کوئی ضعیف، بیمار آدمی اپنے گھر میں سو نہیں سکتا اور انتظام کرنے والے اس سے بے خبر ہیں کہ کتنے بڑے کبیرہ گناہ کا ارتکاب ہورہا ہے۔ اس لئے کہ ایذاء مسلم کبیرہ گناہ ہے اس کا کسی کو احساس نہیں۔
دوسروں کی نقالی میں جلوس:
ہمارا یہ سارا طرزِ عمل اس بات پر دلالت کررہا ہے کہ درحقیقت نیت درست نہیں ہے، نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کو اپنانے اور اس پر عمل کرنے کی نیت نہیں ہے بلکہ مقاصد کچھ اور ہیں اور جیسا کہ میں نے عرض کیا پہلے صرف جلسوں کی حد تک بات تھی اب تو جلسوں سے آگے بڑھ کر جلوس نکلنا شروع ہوگئے اور اس کیلئے استدلال کیا جاتا ہے کہ فلاں فرقہ فلاں مہینے میں اپنے امام کی یاد میں جلوس نکالتا ہے تو پھر ہم اپنے نبی کے نام پر ربیع الاوّل میں جلوس کیوں نہ نکالیں۔ گویا کہ ان کی نقل اُتاری جارہی ہے کہ جب محرم کا جلوس نکلتا ہے تو ربیع الاوّل کا بھی نکلنا چاہئے۔ بزعم خود یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم نبی کریم ﷺ کے احکام کے مطابق عمل کررہے ہیں اور آپ کی عظمت اور محبت کا حق ادا کررہے ہیں۔
لیکن اس پر ذرا غور کریں کہ اگر نبی کریمﷺ خود اس جلوس کو دیکھ لیں جو آپ کے نام پر نکالا جارہا ہے تو کیا آپ ﷺ اس کوگوارا او رپسند فرمائیں گے؟ نبی کریمﷺ نے تو ہمیشہ اس اُمت کو ان رسمی مظاہروں سے اجتناب کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا کہ ظاہری اور رسمی چیزوں کی طرف جانے کے بجائے میری تعلیمات کی روح کو دیکھو اور میری تعلیمات کو اپنانے کی کوشش کرو۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ علیہم اجمعین کی پوری حیاتِ طیبہ میں کوئی شخص ایک نظیر یا ایک مثال اس بات پر پیش کرسکتا ہے کہ نبی کریمﷺ کی سیرت کے نام پر ربیع الاوّل میں یا کسی مہینے میں کوئی جلوس نکالا گیا ہو؟ بلکہ پورے چودہ سو سال کی تاریخ میں کوئی ایک مثال کم از کم مجھے تو نہیں ملی کہ کسی نے آپ کے نام پر جلوس نکالا ہو۔ ہاں! شیعہ حضرات محرم میں اپنے امام کے نام پر جلوس نکالا کرتے تھے ہم نے سوچا کہ ان کی نقالی میں ہم بھی جلوس نکالیں گے۔ حالانکہ
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:جو شخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کرتا ہے وہ ان میں سے ہوجاتا ہے.(ابوداؤد، حدیث نمبر 4031) اور صرف جلوس نکالنے پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ہورہا ہے کہ کعبہ شریف کی شبیہیں بنائی جارہی ہیں، روضۂ اقدس کی شبیہیں بنائی جارہی ہیں۔ گنبد خضراء کی شبیہیں بنائی جارہی ہیں۔ اور دنیا بھر کی عورتیں بچے بوڑھے اس کو متبرک سمجھ کر برکت حاصل کرنے کیلئے اس کو ہاتھ لگانے کی کوشش کررہے ہیں وہاں جاکر دعائیں مانگی جارہی ہیں، منتیں مانی جارہی ہیں۔ حضرت محمدﷺ کی سیرتِ طیبہ کے نام پر کیا ہورہا ہے؟نبی کریمﷺ شرک کو، بدعات کو، اور جاہلیت کو مٹانے کیلئے دنیا میں تشریف لائے اور آج آپ نے نبی کریمﷺ ہی کے نام یہ ساری بدعات شروع کردیں۔ روضۂ اقدس ﷺ کو اس گنبد سے کوئی مناسبت نہیں جو آپ نے اپنے ہاتھوں بناکر کھڑا کردیا ہے، لیکن اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس کو مقدس سمجھ کر تبرک کے لئے کوئی اس کو چوم رہا ہے، کوئی اس کو ہاتھ لگارہا ہے۔
حضرت عمر اور حجر اسود:
حضرت عمر رضی اﷲ عنہٗ تو حجر اسود کو چومتے وقت فرماتے ہیں کہ اے حجر اسود! میں جانتا ہوں توایک پتھر کے سوا کچھ نہیں ہے، خدا کی قسم! اگر محمد مصطفےٰ ﷺ کو میں نے تجھے چومتا ہوا نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا، لیکن میں نے نبی کریمﷺ کو چومتے ہوئے دیکھا ہے اور ان کی یہ سنت ہے، اس واسطے میں تجھے چومتا ہوں۔
(صحیح بخاری، حدیث نمبر: 1597)
وہاں تو حجر اسود کو یہ کہا جارہا ہے اور اپنے ہاتھ سے ایک گنبد بناکر کھڑا کردیا، اپنے ہاتھ سے ایک کعبہ بناکر کھڑا کردیا اور اس کو متبرک سمجھا جارہا ہے اور اس کو چوما جارہا ہے، یہ تو نبی کریمﷺ جس چیز کو مٹانے کیلئے تشریف لائے تھے اسی کو زندہ کیا جارہا ہے، چراغاں ہورہا ہے، ریکارڈنگ ہورہی ہے، گانے بجانے ہورہے ہیں، تفریح بازی ہورہی ہے۔ نبی کریمﷺ کے نام پر میلہ منعقد کیا ہوا ہے۔ یہ دین کو کھیل کود بنانے کا ایک بہانہ ہے، جو شیطان نے ہمیں سکھادیا ہے، خدا کیلئے ہم اپنی جانوں پر رحم کریں اور سرکارِ دوعالم ﷺ کی سیرتِ طیبہ کی عظمت اور محبت کا حق ادا کریں اور ان کی عظمت اور محبت کا حق یہ ہے کہ اپنی زندگی کو ان کے راستے پر ڈھالنے کی کوشش کریں۔
خدا کیلئے اس طرزِ عمل کو بدلیں:
سیرتِ طیبہ کے جلسے میں کوئی آدمی اس نیت سے نہیں آتا کہ ہم اس محفل میں اس بات کا عہد کریں گے کہ اگر ہم نبی کریمﷺ کی تعلیمات کے خلاف پہلے پچاس کام کیا کرتے تھے تو اب کم از کم اس میں سے دس چھوڑ دیں گے، کسی نے اس طرح عہد کیا؟ کسی شخص نے اس طرح عید میلاد النبی منائی؟ کوئی ایک شخص بھی اس کام کیلئے تیار نہیں، لیکن جلوس نکالنے کیلئے، میلے سجانے کیلئے، محرابیں کھڑی کرنے کیلئے، چراغاں کرنے کیلئے ہر وقت تیار ہیں، ان کاموں پر جتنا چاہو، روپیہ خرچ کروالو اور جتنا چاہو وقت لگوالو، اس لئے کہ ان کاموں میں نفس کو حظ ملتا ہے لذت آتی ہے اور نبی کریمﷺ کی سیرتِ طیبہ کا جو اصل راستہ ہے اس میں نفس و شیطان کو لذت نہیں ملتی۔ خدا کیلئے ہم اپنے اس طرزِ عمل کو ختم کریں اور نبی کریمﷺ کی عظمت، محبت کا حق پہچانیں، اﷲتعالیٰ ہم سب کو سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔(۱۵)
ماہِ ربیع الاوّل کے رسومات و منکرات
۱۔بارہ ربیع الاول کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایصالِ ثواب کرنا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایصال ثواب بلاتعیین زمان ومکان باعث سعادت ہے، آنحضرت ﷺ کا ہر امتی پر اس قدر احسان ہے کہ اگر زندگی کے ہر لمحہ میں بھی آپ کے لئے ایصالِ ثواب جاری رکھا جائے ،تو بھی آپ کے احسانات کا حق ادا نہیں ہوسکتا؛ لہٰذا ایصال ثواب یا درود شریف کے لئے ۱۲؍ربیع الاول کی تاریخ کو سال بھر میں خاص کرلینا اور بقیہ دنوں میں اس کی طرف توجہ نہ دینا شرعاً بے اصل اور بڑی محرومی کی بات ہے اور یہ عمل غیر مسلموں کی سال گرہ اور برسی کے مشابہ ہے، جن کی مشابہت سے جناب رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا۔(۱۶)
۲۔ بارہ ربیع الاول کو کھانا تقسیم کرنے کا التزام کرنا
بارہ ربیع الاول کو کھانا تقسیم کرنے کو لازم سمجھنا اور اس کا التزام کرنا اور اس کو دین کا جزو بنانا بدعت ہے، اس بدعت اور التزام کو ختم کرنے کے لئے ایسا کھانا قبول نہیں کرنا چاہیے، البتہ اگر اس دن کہیں سے کھانا آ گیا اور اس کو کھا لیا تو ان شاء اللہ گناہ نہ ہوگا، البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر یہ کھانا کسی غیر اللہ کے نام پر یا غیر اللہ کے تقرب حاصل کرنے کے لئے دیا گیا ہو تو اس صورت میں کسی مسلمان کیلئے یہ کھانا حلال نہیں ہے، اب چونکہ یہ پتہ لگانا مشکل ہے کہ کس نے کس نیت سے دیا ہے، کیوں کہ عوام میں جہالت عام ہے اور صحیح عقائد کے علم کا فقدان ہے، اس لیے ایسے کھانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔(۱۷)
3۔بارہ ربیع الاول کا روزہ رکھنے کا حکم
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اس دن میری پیدائش ہوئی ہے اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔(۱۸)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: پیراور جمعرات کے دن اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں ،میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔ (ترمذی : (747)(۱۹)
ان احادیث سے پتہ چلا کہ نبی ﷺ نےپیر کے دن جیسے اپنی پیدائش کی خوشی میں روزہ رکھا، ایسے ہی اس دن کی فضیلت کی وجہ سے روزہ رکھا ،کیونکہ اس دن میں آپ پر وحی نازل ہوئی ،اور اسی دن اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں ۔چنانچہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا کہ آپ کا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔
معلوم ہوا کہ آپ کی پیدائش کا اس دن ہونا ،اس دن روزہ رکھنے کے بہت سے اسباب میں سے ایک ہے ۔
چنانچہ کوئی شخص پیر کا روزہ اس وجہ سے رکھتا ہے کہ آپ ﷺ نے رکھا ،تو یہ اچھی بات ہے اور سنت کے موافق بھی ہے ، یہ معمول سارا سال ہی حسب طاقت جاری رہنا چاہئے ،لیکن سال کے کسی دن کو نبیﷺ کی پیدائش کی وجہ سےروزے کے لیے خاص کرنا بدعت ہے۔(۲۰)(محمودیہ)
۴۔بارہ ربیع الاول کو کاروبار بند رکھنا
بعض لوگ بارہ ربیع الاول کو چھٹی کرتے ہیں اور اس دن کاروبار کرنے کو گناہ سمجھتے ہیں۔
واضح رہے کہ بارہ ربیع الاول کو کاروبار بند رکھنے یا جاری رکھنے سے متعلق شریعت میں کوئی خاص حکم موجود نہیں ہے ، کوئی شخص ویسے ہی چھٹی کرلے یا انتظامی اعتبار سے چھٹی ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، لیکن یہ چھٹی ثواب یا شریعت کا کوئی حکم نہیں۔(۲۱)(کفایت المفتی)
5۔ربیع الاول کے مہینے کی خوش خبری دینا
بعض لوگ ماہِ ربیع الاول کے آتے ہی ایک حدیث نشر کرنا شروع کر دیتے ہیں:
"جو بھی اس فضیلت والے ماہ کی مبارک باد سب سے پہلےدے گا، اس پر جہنم کی آگ حرام ہو جائے گی۔ "
یہ موضوع اور من گھڑت روایت ہے۔ اس روایت کی سند حدیث کی کتابوں میں نہیں ملی اور خود ساختہ اور من گھڑت ہونے کی علامات اس حدیث پر بالکل واضح ہیں، اس لیے اس کی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنا جائز نہیں ہے۔(۲۲)
خلاصہ کلام:
اصل ربیع الاوّل اس کا ہے، جو رات دن ہر وقت حضور ﷺ کو یاد رکھتا ہے، سال میں ایک مہینے کے لیے نہیں، ایک دن کے لیے نہیں، بارہ ربیع الاوّل کے لیے نہیں، جس کی ہر سانس بارہ ربیع الاوّل ہے، جو اللہ کے نبی کی سنت پر زندہ رہتا ہے، ہر سانس میں سوچتاہے اور اہلِ علم سے پوچھتا ہے کہ یہ خوشی کیسے مناؤں؟ شادی کیسے ہو؟ غمی کیسے ہو؟ ساری سنتیں پوچھتاہے اور سنت پوچھ کر سنت کے مطابق خوشی اور غمی کی تقریبات کرتاہے،تو جس کی ہر سانس سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت پر فد ا ہو، اس کی ہر سانس بارہ ربیع الاوّل ہے۔ جو شخص آپ کی سنت پرعمل کررہاہے اس کا روزانہ بارہ ربیع الاوّل ہے، کیونکہ آپ کے دنیا میں تشریف لانے کا مقصد یہی ہے کہ امت آپ کے نقشِ قدم کی اتباع کرے، کیونکہ؎
نقشِ قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اﷲسے ملاتے ہیں سنت کے راستے
(آداب عشق رسول اللہ ﷺ مولانا حکیم اختر رحمہ اللہ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1) لسان العرب: (98/9، ط: دار صادر)
ومنهم من يسمي الفصل الذي تدرك فيه الثمار وهو الخريف الربيعَ الأَول ويسمي الفصل الذي يتلو الشتاء وتأْتي فبه الكَمْأَة والنَّوْرُ الربيعَ الثاني وكلهم مُجْمِعون على أَنّ الخريف هو الربيع ۔۔۔۔۔ سميا بذلك لأَنهما حُدّا في هذا الزمن فلَزِمَهما في غيره وهما شهرانِ بعد صفَر ولا يقال فيهما إِلا شهرُ ربيع الأَوّل وشهرُ ربيع الآخر
(2) تفسیر ابن کثیر: (195/7، ط: مؤسسة قرطبة)
وشهر ربيع الأول سمي بذلك لارتباعهم فيه والارتباع الإقامة في عمارة الربع ويجمع على أربعاء كنصيب وأنصباء وعلى أربعة كرغيف وأرغفة
(3) صحیح مسلم: (کتاب الصیام، باب استحباب صیام ثلاثة ایام، رقم الحدیث: 2744) سنن ابي داؤد: (باب صوم الدھر تطوعاً، رقم الحدیث: 2424) مسند احمد: (297/5، ط: عالم الکتب بیروت)
عن ابي قتادة الانصاري رضي الله عنه،: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صومه، قال: " فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فقال عمر رضي الله عنه: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا وببيعتنا بيعة، قال: فسئل عن صيام الدهر، فقال: " لا صام ولا افطر، او ما صام وما افطر "، قال: فسئل عن صوم يومين وإفطار يوم، قال: " ومن يطيق ذلك "، قال: وسئل عن صوم يوم وإفطار يومين، قال: " ليت ان الله قوانا لذلك "، قال: وسئل عن صوم يوم وإفطار يوم، قال: " ذاك صوم اخي داود عليه السلام "، قال: وسئل عن صوم يوم الاثنين، قال: " ذاك يوم ولدت فيه، ويوم بعثت او انزل علي فيه "، قال: فقال: " صوم ثلاثة من كل شهر، ورمضان إلى رمضان صوم الدهر "، قال: وسئل عن صوم يوم عرفة، فقال: " يكفر السنة الماضية والباقية "، قال: وسئل عن صوم يوم عاشوراء، فقال: " يكفر السنة الماضية "
المدخل لابن الحاج: (3/2، ط: دار الفکر)
أشار عليه الصلاة والسلام إلى فضيلة هذا الشهر العظيم بقوله عليه الصلاة والسلام للسائل الذي سأله عن صوم يوم الاثنين فقال له عليه الصلاة والسلام ذلك يوم ولدت فيه فتشريف هذا اليوم متضمن لتشريف هذا الشهر الذي ولد فيه فينبغي أن نحترمه حق الاحترام ونفضله بما فضل الله به الأشهر الفاضلة۔
(4) المعجم اللکبیر للطبراني: (85/11، ط: مكتبة العلوم و الحكم)
عن ابن عباس قال : ولد رسول الله صلى الله عليه و سلم يوم الأثنين وأنزل عليه يوم الأثنين ومات يوم الأثنين
(5) البدایة والنھایة: (26/2، ط: دار الفکر، بیروت)
ﻫﻜﺬا ﺭﻭﻱ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻫﺬا اﻟﻮﺟﻪ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺃﻧﻪ ﻭﻟﺪ ﻳﻮﻡ اﻻﺛﻨﻴﻦ، ﻭﻫﺬا ﻣﺎ ﻻ ﺧﻼﻑ ﻓﻴﻪ ﺃﻧﻪ ﻭﻟﺪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻮﻡ اﻻﺛﻨﻴﻦ.۔۔۔۔ ﺛﻢ اﻟﺠﻤﻬﻮﺭ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﺫﻟﻚ ﻛﺎﻥ ﻓﻲ ﺷﻬﺮ ﺭﺑﻴﻊ اﻷﻭﻝ ﻓﻘﻴﻞ ﻟﻠﻴﻠﺘﻴﻦ ﺧﻠﺘﺎ ﻣﻨﻪ ﻗﺎﻟﻪ اﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺒﺮ ﻓﻲ اﻻﺳﺘﻴﻌﺎﺏ ﻭﺭﻭاﻩ اﻟﻮاﻗﺪﻱ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﻣﻌﺸﺮ ﻧﺠﻴﺢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ اﻟﻤﺪﻧﻲ.
ﻭﻗﻴﻞ ﻟﺜﻤﺎﻥ ﺧﻠﻮﻥ ﻣﻨﻪ ﺣﻜﺎﻩ اﻟﺤﻤﻴﺪﻱ ﻋﻦ اﺑﻦ ﺣﺰﻡ.
۔۔۔۔۔ﻭﻗﻴﻞ ﻟﻌﺸﺮ ﺧﻠﻮﻥ ﻣﻨﻪ ﻧﻘﻠﻪ اﺑﻦ ﺩﺣﻴﺔ ﻓﻲ ﻛﺘﺎﺑﻪ ﻭﺭﻭاﻩ اﺑﻦ ﻋﺴﺎﻛﺮ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺟﻌﻔﺮ اﻟﺒﺎﻗﺮ ﻭﺭﻭاﻩ ﻣﺠﺎﻟﺪ ﻋﻦ اﻟﺸﻌﺒﻲ ﻛﻤﺎ ﻣﺮ. ﻭﻗﻴﻞ ﻟﺜﻨﺘﻲ ﻋﺸﺮﺓ ﺧﻠﺖ ﻣﻨﻪ ﻧﺺ ﻋﻠﻴﻪ اﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﻭﺭﻭاﻩ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺷﻴﺒﺔ ﻓﻲ ﻣﺼﻨﻔﻪ ﻋﻦ ﻋﻔﺎﻥ ﻋﻦ ﺳﻌﻴﺪ ﺑﻦ ﻣﻴﻨﺎ ﻋﻦ ﺟﺎﺑﺮ ﻭاﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﺃﻧﻬﻤﺎ ﻗﺎﻻ: ﻭﻟﺪ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻋﺎﻡ اﻟﻔﻴﻞ ﻳﻮﻡ اﻻﺛﻨﻴﻦ اﻟﺜﺎﻣﻦ ﻋﺸﺮ ﻣﻦ ﺷﻬﺮ ﺭﺑﻴﻊ اﻷﻭﻝ ﻭﻓﻴﻪ ﺑﻌﺚ ﻭﻓﻴﻪ ﻋﺮﺝ ﺑﻪ ﺇﻟﻰ اﻟﺴﻤﺎء ﻭﻓﻴﻪ ﻫﺎﺟﺮ ﻭﻓﻴﻪ ﻣﺎﺕ. ﻭﻫﺬا ﻫﻮ اﻟﻤﺸﻬﻮﺭ ﻋﻨﺪ اﻟﺠﻤﻬﻮﺭ ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ. ﻭﻗﻴﻞ ﻟﺴﺒﻌﺔ ﻋﺸﺮ ﺧﻠﺖ ﻣﻨﻪ ﻛﻤﺎ ﻧﻘﻠﻪ اﺑﻦ ﺩﺣﻴﺔ ﻋﻦ ﺑﻌﺾ اﻟﺸﻴﻌﺔ. ﻭﻗﻴﻞ ﻟﺜﻤﺎﻥ ﺑﻘﻴﻦ ﻣﻨﻪ ﻧﻘﻠﻪ اﺑﻦ ﺩﺣﻴﺔ۔
(6) رحمة للعالمین للقاضی سلیمان منصوربوري: (69/1، ط: مرکز الحرمین الاسلامي)
قاضی سلیمان منصور بوری"رحمة للعالمین" میں لکھتے ہیں:
تاریخِ ولادت باسعادت میں موٴرخین نے بہت اختلاف کیا ہے، طبری اور ابن خلدون نے ۱۲/ربیع الاوّل لکھی ہےاور ابوالفداء نے ۱۰/ربیع الاوّل لکھی ہے، بعض نے ۸/ربیع الاوّل، اور مشہور یہی روایت ہے؛ مگر سب کا اس پر اتفاق ہے کہ ولادتِ شریفہ دوشنبے کے دن ہوئی چونکہ دو شنبہ کا دن ۹/ربیع الاوّل کے سوا کسی اور تاریخ سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے ۹/ربیع الاول ہی صحیح ہے۔ تاریخ دول العرب و الاسلام میں "طلعت بک عرب" نے بھی 9 تاریخ ہی کو صحیح قرار دیا ہے۔ چنانچہ فلکیات کے مشہور مصری عالم اور محقق محمود پاشا کی تحقیق بھی یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ شریفہ دوشنبہ کے دن، ۹/ربیع الاوّل کو واقعہٴ فیل کے پہلے سال ہوئی۔
الرحیق المختوم: (ص: 83، ط: المکتبة السلفیة، لاھور)
سیرت نگاری کے عالمی مقابلہ میں اوّل انعام پانے والی کتاب "الرحیق المختوم" کے مصنف مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کے بقول ''رسول اللہﷺ مکہ میں شعب بنی ہاشم کے اندر ۹؍ ربیع الاول سن۱، عام الفیل یوم دو شنبہ (سوموار) کو صبح کے وقت پیدا ہوئے۔''۔
دیکھیے: سیرت النبي از شبلي نعماني: (137/1، ط: مکتبة اسلامیة لاھور) کذا فی ’’تاریخ اسلام‘‘ از اکبر شاہ: (87/1)
برصغیر کے معروف مؤرخین مثلاً علامہ شبلی نعمانی، اکبر شاہ نجیب آبادی وغیرہ نے بھی ۹؍ ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے کو ازروئے تحقیق جدید صحیح ترین تاریخ ولادت قرار دیا ہے۔
(7) سیرت مصطفی: ( 56/1، ط: دار الناشر) کذا فی ’’سیرت ہادی اعظم‘‘ ازحافظ سید فضل الرحمن زید مجدہ: (207/1، ط: زوار اکیدمی)
(8) الطبقات الکبري: (209/2، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت)
ﺣﺪﺛﻨﻲ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻳﺰﻳﺪ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻃﺎﻭﻭﺱ ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﺒﺎﺱ ﻗﺎﻝ ﻭﺣﺪﺛﻨﻲ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﻋﻦ اﻟﺰﻫﺮﻱ ﻋﻦ ﻋﺮﻭﺓ ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﻗﺎﻟﺖ: ﺗﻮﻓﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ - ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ - ﻳﻮﻡ اﻻﺛﻨﻴﻦ ﻻﺛﻨﺘﻲ ﻋﺸﺮﺓ ﻣﻀﺖ ﻣﻦ ﺭﺑﻴﻊ اﻷﻭﻝ.
(9) البدایة و النھایة: (360/5، ط: رشیدیة، کوئتة)
ﻭﻗﺎﻝ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ: ﺗﻮﻓﻲ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻻﺛﻨﺘﻲ ﻋﺸﺮﺓ ﻟﻴﻠﺔ ﺧﻠﺖ ﻣﻦ ﺷﻬﺮ ﺭﺑﻴﻊ اﻷﻭﻝ ﻓﻲ اﻟﻴﻮﻡ اﻟﺬﻱ ﻗﺪﻡ ﻓﻴﻪ اﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻣﻬﺎﺟﺮا، ﻭاﺳﺘﻜﻤﻞ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻲ ﻫﺠﺮﺗﻪ ﻋﺸﺮ ﺳﻨﻴﻦ ﻛﻮاﻣﻞ. ﻗﺎﻝ اﻟﻮاﻗﺪﻱ: ﻭﻫﻮ اﻟﻤﺜﺒﺖ ﻋﻨﺪﻧﺎ ﻭﺟﺰﻡ ﺑﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺳﻌﺪ ﻛﺎﺗﺒﻪ.
(10) اسد الغابة: (34/1، ط: دار احیاء التراث العربي، بیروت)
ﺛﻢ اﻧﺘﻘﻞ ﺣﻴﻦ اﺷﺘﺪ ﻣﺮﺿﻪ ﺇﻟﻰ ﺑﻴﺖ ﻋﺎﺋﺸﺔ، ﺭﺿﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﺎ، ﻭﻗﺒﺾ ﻳﻮﻡ اﻻﺛﻨﻴﻦ ﺿﺤﻰ ﻓﻲ اﻟﻮﻗﺖ اﻟﺬﻱ ﺩﺧﻞ ﻓﻴﻪ اﻟﻤﺪﻳﻨﺔ ﻻﺛﻨﺘﻲ ﻋﺸﺮﺓ ﺧﻠﺖ ﻣﻦ ﺭﺑﻴﻊ اﻷﻭﻝ ﻭﺩﻓﻦ ﻳﻮﻡ اﻟﺜﻼﺛﺎء ﺣﻴﻦ ﺯاﻏﺖ اﻟﺸﻤﺲ۔
(11) تاریخ طبری اردو ترجمة: (450/1، ط: دار الاشاعت، کراتشي)
(12) الرحیق المختوم: (ص:603، ط: المکتبة السلفیة لاھور)
(13) سیرت ہادی اعظم: (580/1، ط: زوار اکیدمي)
(14) مولانا زاہدالراشدی صاحب کے مضمون سے اقتباس
(15) اصلاحي خطبات از مفتي تقي عثماني صاحب: (201/2۔ 220، ط: میمن اسلامک پبلشرز)
(16) سنن أبي داؤد: (کتاب اللباس، باب في لبس الشھرۃ، رقم: 4031)
عن ابن عمر رضي اللّٰہ عنہما قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فہو منہم۔
رد المحتار: (244/2، ط: دار الفکر، بیروت)
مطلب في إهداء ثواب القراءة للنبي صلى الله عليه وسلم تتمة ذكر ابن حجر في الفتاوى الفقهية أن الحافظ ابن تيمية زعم منع إهداء ثواب القراءة للنبي لأن جنابه الرفيع لا يتجرأ عليه إلا بما أذن فيه وهو الصلاة عليه وسؤال الوسيلة له ۔ قال وبالغ السبكي وغيره في الرد عليه بأن مثل ذلك لا يحتاج لإذن خاص ألا ترى أن ابن عمر كان يعتمر عنه عمرا بعد موته من غير وصية وحج ابن الموفق وهو في طبقة الجنيد عنه سبعين حجة وختم ابن السراج عنه أكثر من عشرة آلاف ختمة وضحى عنه مثل ذلك اه
قلت رأيت نحو ذلك بخط مفتي الحنفية الشهاب أحمد بن الشلبي شيخ صاحب البحر عن شرح الطيبة للنويري ومن جملة ما نقله أن ابن عقيل من الحنابلة قال يستحب إهداؤها له اه
قلت وقول علمائنا له أن يجعل ثواب عمله لغيره يدخل فيه النبي فإنه أحق بذلك حيث أنقذنا من الضلالة ففي ذلك نوع شكر وإسداء جميل له والكامل قابل لزيادة الكمال۔
کذا في فتاويٰ عزیزي: (ص: 199، ط: سعید، کراتشي)
(17) الاعتصام للشاطبي: (53/1، ط: دار ابن عفان)
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.
الاعتصام للشاطبي: (389/1، ط: دار ابن عفان، السعودية)
إِذَا ثَبَتَ هَذَا؛ فَالدُّخُولُ فِي عَمَلٍ عَلَى نِيَّةِ الِالْتِزَامِ لَهُ، إِذَا ثَبَتَ هَذَا، فَالدُّخُولُ فِي عَمَلٍ عَلَى نِيَّةِ الِالْتِزَامِ لَهُ إِنْ كَانَ فِي الْمُعْتَادِ، بِحَيْثُ إِذَا دَاوَمَ عَلَيْهِ؛ أَوْرَثَ مَلَلًا، يَنْبَغِي أَنْ يُعْتَقَدَ أَنَّ هَذَا الِالْتِزَامَ مَكْرُوهٌ ابْتِدَاءً، إِذْ هُوَ مُؤَدٍّ إِلَى أُمُورِ جَمِيعُهَا مَنْهِيٌّ عَنْهُ:
أَحَدُهَا: أَنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ أَهْدَى فِي هَذَا الدِّينِ التَّسْهِيلَ وَالتَّيْسِيرَ، وَهَذَا الْمُلْتَزِمَ يُشْبِهُ مَنْ لَمْ يَقْبَلْ هَدِيَّتَهُ، وَذَلِكَ يُضَاهِي رَدَّهَا عَلَى مُهْدِيهَا، وَهُوَ غَيْرُ لَائِقٍ بِالْمَمْلُوكِ مَعَ سَيِّدِهِ، فَكَيْفَ يَلِيقُ بِالْعَبْدِ مَعَ رَبِّهِ؟ ۔۔۔۔۔وَالْخَامِسُ): الْخَوْفُ مِنَ الدُّخُولِ تَحْتَ الْغُلُوِّ فِي الدِّينِ؛ فَإِنَّ الْغُلُوَّ هُوَ الْمُبَالَغَةُ فِي الْأَمْرِ، وَمُجَاوَزَةُ الْحَدِّ فِيهِ إِلَى حَيِّزِ الْإِسْرَافِ،
الاعتصام للشاطبي: (391/1، ط: دار ابن عفان، السعودية)
فصل مِنَ الْبِدَعِ الْإِضَافِيَّةِ إِخْرَاجُ الْعِبَادَةِ عَنْ حَدِّهَا الشَّرْعِيِّ
وَمِنَ الْبِدَعِ الْإِضَافِيَّةِ الَّتِي تَقْرُبُ مِنَ الْحَقِيقِيَّةِ: أَنْ يَكُونَ أَصْلُ الْعِبَادَةِمَشْرُوعًا؛ إِلَّا أَنَّهَا تُخْرَجُ عَنْ أَصْلِ شَرْعِيَّتِهَا بِغَيْرِ دَلِيلٍ تَوَهُّمًا أَنَّهَا بَاقِيَةٌ عَلَى أَصْلِهَا تَحْتَ مُقْتَضَى الدَّلِيلِ، وَذَلِكَ بِأَنْ يُقَيَّدَ إِطْلَاقُهَا بِالرَّأْيِ، أَوْ يُطْلَقَ تَقْيِيدُهَا، وَبِالْجُمْلَةِ؛ فَتَخْرُجُ عَنْ حَدِّهَا الَّذِي حُدَّ لَهَا.۔۔۔۔ وَمِنْ ذَلِكَ قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ بِهَيْئَةِ الِاجْتِمَاعِ عَشِيَّةَ عَرَفَةَ فِي الْمَسْجِدِ لِلدُّعَاءِ تَشَبُّهًا بِأَهْلِ عَرَفَةَ.
نفع المفتي و السائل: (ص:134) کذا في فتاويٰ رحیمیة: (203/2، ط: دار الا شاعت) کذا فی احسن الفتاويٰ: (361/1، ط: سعید)
ان ختم القرآن بالجماعۃ جہرا ویسمی بالفارسیۃ سیپارہ خواندن مکروہ
الموسوعة الفقھیة الکویتیة: (21/8، ط: دار السلاسل)
أطلق أصحاب الاتجاه الأول البدعة على كل حادث لم يوجد في الكتاب والسنة، سواء أكان في العبادات أم العادات، وسواء أكان مذموما أم غير مذموم.
رأس السنة هل نحتفل؟: (84/1، ط: دار الخلفاء الراشدين)
وإما أن تكون التهنئة في أزمان معينة كالأعياد والأعوام والأشهر والأيام، وهذا يحتاج إلى بيان وتفصيل، وتفصيله كما يلي:
- أما الأعياد عيد الأضحى وعيد الفطر فهذا واضح لا إشكال فيه وهو ثابت عن جمع من الصحابة.
- وأما الأعوام فكالتهنئة بالعام الهجري الجديد أو ما يسمى رأس السنة الهجرية.
- وأما الأشهر فكالتهنئة بشهر رمضان، وهذا له أصل والخلاف فيه مشهور.
- وأما الأيام فكالتهنئة بيوم ميلاد النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - أو بيوم الإسراء والمعراج وما شابه ذلك، والحكم فيه معروف وهو من البدع لارتباطه بمناسبات دينية مبتدعة.
وكل هذه التهاني ماعدا الأول منها لم يثبت فيها شيء عن النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - ولا عن الصحابة الكرام ولا عن أحد من السلف مع أن موجبها انعقد في زمن النبي - صلى الله عليه وآله وسلم - والصحابة - رضي الله عنهم - ولم يوجد المانع ومع ذلك لم ينقل عن أحد منهم أنه فعل ذلك بل قصروا التهنئة على العيدين فقط۔
(18) صحیح مسلم: (کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثة ایام، رقم الحدیث: 2746) سنن ابي داؤد: (باب صوم الدھر تطوعاً، رقم الحدیث:2426) مسند احمد: (297/5، ط: عالم الکتب، بیروت)
عن ابي قتادة الانصاري رضي الله عنه، رسول الله صلى الله عليه وسلم: سئل عن صومه، قال: " فغضب رسول الله صلى الله عليه وسلم "، فقال عمر رضي الله عنه: رضينا بالله ربا وبالإسلام دينا وبمحمد رسولا وببيعتنا بيعة، قال: فسئل عن صيام الدهر، فقال: " لا صام ولا افطر، او ما صام وما افطر "، قال: فسئل عن صوم يومين وإفطار يوم، قال: " ومن يطيق ذلك "، قال: وسئل عن صوم يوم وإفطار يومين، قال: " ليت ان الله قوانا لذلك "، قال: وسئل عن صوم يوم وإفطار يوم، قال: " ذاك صوم اخي داود عليه السلام "، قال: وسئل عن صوم يوم الاثنين، قال: " ذاك يوم ولدت فيه، ويوم بعثت او انزل علي فيه "، قال: فقال: " صوم ثلاثة من كل شهر، ورمضان إلى رمضان صوم الدهر "، قال: وسئل عن صوم يوم عرفة، فقال: " يكفر السنة الماضية والباقية "، قال: وسئل عن صوم يوم عاشوراء، فقال: " يكفر السنة الماضية "
(19) سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 747)
(20) فتاويٰ محمودیة: (201/10، ط: ادارۃ الفاروق، کراتشي)
(21) فتاويٰ محمودیة: (222/3، ط: ادارۃ الفاروق، کراتشي)
(22) https://islamqa.info/..
فتوی: (نمبر: 215135)
المنار المنيف في الصحيح والضعيف: (ص:50، ط: مكتبة المطبوعات الإسلامية)
(23) آداب عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم از مولانا حکیم اختر صاحب: (ص:34، ط: خانقاہ امدادیة اشرفیة، کراتشي)