علاج کروانا توکل کے خلاف نہیں ہے:
واضح رہےکہ جس طرح بھوک مٹانے کے لئے کھانا کھانا اور پیاس بجھانے کے لئے پانی پینا توکّل کے خلاف نہیں ہے، اسی طرح شریعت میں بیمار آدمی کے لیے اپنی بیماری کا علاج کروانا بھی توکل کے خلاف نہیں ہے۔حضور ﷺ سید المتوکلین(توکل کرنے والوں کے سردار) تھے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی علاج فرمالیا کرتے تھےاو ر دوسروں کو بھی علاج کروانے کا فرمایا کرتےتھے۔
چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے :
وعن أسامة بن شريك رضي الله عنه قال : قَالَتِ الأَعْرَابُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلا نَتَدَاوَى؟ قَالَ : نَعَمْ، يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً، إِلا دَاءً وَاحِدًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَمَا هُوَ؟ قَالَ: الْهَرَمُ.
ترجمہ:
حضرت اسامہ بن شریک سے روایت ہے کہ کچھ دیہاتی حاضرِ خدمت ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا ہم دواو علاج کریں؟ تو آپ نے فرمایا: ہاں اے اللہ کے بندو! دواوعلاج کرو، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کوئی ایسی بیماری پیدا نہیں کی، جس کی شفا نہ رکھی ہو، سوائے ایک بیماری کے کہ اس کا کوئی علاج نہیں۔ عرض کیا یارسول اللہ کہ وہ کونسی بیماری ہے؟ توآپﷺ نے فرمایا : وہ بڑھاپا ہے۔
(سنن ترمذی:حدیث نمبر:2038 )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 2038، 451/3، ط: دار الغرب الاسلامي- بیروت)
وعن أسامة بن شريك رضي الله عنه قال : قَالَتِ الأَعْرَابُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلا نَتَدَاوَى؟ قَالَ : نَعَمْ، يَا عِبَادَ اللَّهِ تَدَاوَوْا، فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يَضَعْ دَاءً إِلا وَضَعَ لَهُ شِفَاءً، إِلا دَاءً وَاحِدًا، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ ، وَمَا هُوَ؟ قَالَ: الْهَرَمُ۔