ماہِ شوال کے فضائل، مسائل اور رسومات و بدعات
(دارالافتاء الاخلاص)

ماہِ شوال اسلامی سال کا دسواں قمری مہینہ ہے۔
ماہِ شوال کا لغوی معنی اور وجہ تسمیہ:
۱۔“شوال” عربی مصدر ’’شول‘‘ سے مشتق ہے ،اور’’شول‘‘ کے معنی’’اوپراٹھنا اوراوپر اٹھانا، بلند ہو نا اوربلند کرنا‘‘ کے آتے ہیں ۔عربی میں کہاجاتا ہے’’ شالت الإبل بأذنابها للطراق‘‘یعنی نر اونٹ نے جفتی کرنے لیے اپنی دم اوپر اٹھالی۔(قاموس الوحید، ص:۸۹۹،ط: ادارۃ اسلامیات)
علامہ ابن کثیر ؒ فرماتے ہیں کہ’’شوال‘‘’’ شالت الإبل بأذنابها للطراق‘‘ سے مشتق ہے،کیونکہ اس مہینے میں نر اونٹ مادہ اونٹ سے جفتی کرتے اور مستی میں اپنی دم اٹھالیتے تھے،تو اس مناسبت کی وجہ سے اس مہینے کو “شوال”کہاگیا۔(۱)
۲۔’’شوال‘‘ ’’تشویل‘‘ سے مشتق ہے اور ’’تشویل‘‘کا معنی ’’اونٹ کے دودھ کاکم ہونا‘‘کے ہیں ۔ عربی میں کہاجاتا ہے’’ شوّلت الناقۃ و شوّلت المزادۃ‘‘یعنی اونٹی کا دودھ اورمشکیزےکا پانی کم ہوگیا۔
(قاموس الوحید، ص: ۹۰۰،ط:ادارۃ اسلامیات)
علامہ ابن منظور لکھتے ہیں کہ ’’شوال‘‘ کے مہینے میں اونٹنیوں کے دودھ میں کمی ہوجاتی تھی ،اس لیے اس مہینے کو ’’شوال‘‘ کہا گیا ۔(۲)
۳۔’’شوال‘‘’’ شالت نعامۃ القوم ‘‘سے مشتق ہے اور ’’شالت نعامۃ القوم ‘‘کا معنی ‘‘قوم کا شیرازہ بکھرگیا، وہ اپنے مکان خالی کرگئے ‘‘ کے ہیں ، چونکہ اس مہینے میں عرب لوگ سیر وسیاحت اور شکار کےلیے اپنے مکانات خالی چھوڑ کر نکل جاتےتھے ، اس لیے اس مہینے کو ’’شوال‘‘ گیا۔(۳)
۴۔علامہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ایک روایت نقل کی ہے ،جس میں ’’شوال‘‘ کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی گئی ہےکہ اس مہینے میں لوگوں کے گناہ اٹھالیے جاتے ہیں (معاف کردئیے جاتے ہیں)،اس لیے اس مہینے کو ’’شوال‘‘ کہا گیا ۔(۴)

ماہِ شوال کے فضائل:
۱۔ماہِ شوال عید الفطر کا مہینہ ہے۔
ماہِ شوال کی پہلی تاریخ کو عید الفطر منائی جاتی ہے،جو اسلام کا ایک عظیم الشان تہوار ہے اورمسلمانوں کے لیے بڑی مسرت او رخوشی کا دن ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ہجرت کے بعد) رسول ﷺ مدینہ تشریف لائے (اہل مدینہ نے) دو دن کھیل کود کے لئے مقرر کر رکھے تھے، آپ ﷺ نے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں ہم ان دنوں میں کھیلا کرتے تھے ۔آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہیں ان دوتہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں، ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطرکا دن۔
(سنن ابی داؤد، حدیث نمبر:1134)

۲۔عید الفطر کا دن انعامات حاصل کرنے کا دن ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ عید کا دن انعامات ملنے کا دن ہے۔
(کنزالعمال، حدیث نمبر:24540)

حضرت سعد ابن اوس انصاری اپنے والد اوس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب عید الفطر کا دن آتا ہے، تو فرشتے تمام راستوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں: اے مسلمانو! اپنے رب کریم کی بارگاہ میں آؤ،جو اپنے کرم اوراحسان سے (بندوں کو)نیکیوں کی توفیق دیتا ہےاور اس پر اجرعظیم سے نوازتاہے۔تمہیں اس کی طرف سے روزے رکھنے کا حکم دیا گیا ، تو تم نے روزے رکھے اور اپنے رب کی اطاعت گزاری کی ،تمہیں اس کی طرف سے تراویح پڑھنے کا حکم دیا گیا ،تو تم نے تراویح پڑھی ،سو اب چلو اپنے انعامات لو ، پھر جب لوگ عید کی نماز پڑھ لیتے ہیں ، تو ایک فرشتہ اعلان کرتا ہے:اے لوگو! تمہارے رب نے تمہاری بخشش فرمادی، پس تم اپنے گھروں کو کامیاب و کامران لوٹو، یہ عید کا دن انعام کا دن ہے اور آسمان میں اس دن کا نام یوم الجائزۃیعنی ’’انعام کادن ‘‘ رکھا گیا ہے۔
(الترغیب و الترھیب للمنذری،حدیث نمبر:1659)

۳۔عید الفطر کا دن اللہ تعالیٰ کی رضاء و مغفرت اور دعاء کی قبولیت کا دن ہے۔
ایک طویل حدیث میں عید کے دن کا بڑا پیارااورخوبصورت منظر بیان کیا گیا ہے، جسے پڑھ کر یہ محسوس کیا جاسکتا ہے کہ عید کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت کس قدر جوش میں ہوتی ہے ، اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اس انعام والے دن کتنانوازتے ہیں ،چنانچہ فرمایا:جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہر وں میں بھیجتے ہیں، وہ زمین میں اُتر کر تمام گلیوں ، راستوں کے سروں پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے،پکارتے ہیں : اے محمد (ﷺ)کی امّت !اس کریم رب کی (درگاہ)کی طرف چلو، جو بہت زیادہ عطاء فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانےوالا ہے ، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں : کیا بدلہ ہے، اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو ؟
وہ عرض کرتے ہیں : ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہےکہ اُس کی مزدوری پوری پوری دے دی جائے، تو اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں : اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں، میں نے اُن کو رمضان کے روزوں اورتراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطاء کردی اور بندوں سے خطاب فرماکر اِرشاد ہوتا ہے:اے میرے بندو! مجھ سے مانگو ، میری عزّت کی قسم ، میرے جلال کی قسم !آج کے دن اپنے اس اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگے،وہ میں عطاء کروں گااور جو اپنی دنیا کے بارے میں سوال کروگے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا ، میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا خیال رکھوگےمیں تمہاری لغزشوں پر ستاری (یعنی پردہ پوشی کا معاملہ)کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا ) ،میری عزّت کی قسم! اور میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں (اور کافروں)کے سامنے رسوا اور ذلیل نہ کروں گا ، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا ، پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر جو امّت کو افطار کے دن( رمضان کے ختم ہونے کے دن )ملتا ہے ،خوشیاں مناتے ہیں ۔
(شعب الإيمان ،ج:۵،ص:۲۷۷،ط:مکتبۃ الرشد)(۵)

"عیدالفطر" کی وجہ تسمیہ:
’’ افطار اور فطر‘‘ ہم معنی الفاظ ہیں۔ جس طرح ہر روزہ کا’’ افطار‘‘ غروب آفتاب کے بعد کیا جاتا ہے، اسی طرح رمضان المبارک کے پورے مہینے کا ’’ افطار‘‘ اسی عید کے روز ہوتا ہے، اس لئے اس مبارک دن کو “عیدالفطر‘‘ کہتے ہیں۔

شبِ عید کے فضائل:
شوال کا مہینہ بابرکت مہینہ ہے، اس مہینے کی برکتوں کاآغاز اس مہینے کی پہلی ہی رات سے ہوجاتاہے،جس طرح شوال کا پہلادن ‘‘عیدالفطر‘‘کا بابرکت دن ہے،اسی طرح اس کی رات بھی بابرکت ہے اوراحادیث مبارکہ میں اس رات کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
۱۔عیدکی رات ’’انعام کی رات ‘‘ہے۔
شعب الایمان کی ایک طویل روایت میں ہے۔(جس کا کچھ حصہ ماقبل میں ذکرکیا گیا۔)
اس رات کو “لیلۃ الجائزہ”یعنی’’ انعام ملنے والی رات‘‘ کہا گیا ہے۔

۲۔ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺنے اِرشاد فرمایا :
جس نے عیدین (عید الفطر اور عید الاضحی)کی دونوں راتوں میں اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھتے ہوئے عبادت میں قیام کیا، اُس کا دل اُس دن مردہ نہیں ہوگا، جس دن سب کے دل مردہ ہوجائیں گے۔
(سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر:1781)

۳۔حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نبی کریمﷺسے نقل فرماتے ہیں :
جو چار راتوں کو عبادت کے ذریعہ زندہ کرے، اُس کےلیےجنت واجب ہوجاتی ہے ۔
١- لیلۃ الترویۃ یعنی آٹھ ذی الحجہ کی رات۔
٢- عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی رات ۔
٣- لیلۃ النحر یعنی دس ذی الحجہ کی رات۔
۴- لیلۃ الفطر یعنی عید الفطر کی شب۔
۵۔ شعبان کی پندرہویں شب یعنی شبِ براءت ۔
(الترغیب و الترھیب للمنذری،حدیث نمبر:1656) (۶)

فائدہ:
عیدین کی راتوں کی فضیلت کے بارے میں وارد ہونے والی روایات سند کے اعتبار سے،اگرچہ کچھ کمزور ہیں،لیکن فضائل کے باب میں ضعیف روایت قابلِ قبول ہے اورمذکورہ روایات مختلف سندوں سے مروی ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں،جس کی وجہ سے ضعف کسی درجہ میں دور ہوجاتاہے۔(تفصیل کےلیے حاشیہ دیکھیے۔)(۷)
علامہ نووی ؒ نے عیدین کی شب میں عبادت کو مستحب کہا ہے اور علامہ مناوی ؒ نے سنت قرار دیا ہے۔(۸)
لہذا عیدین کی رات میں عبادت ،ذکراورتلاوت وغیرہ کا اہتمام کرناچاہیے۔

۲۔ ماہِ شوال حج کی تیاری کا پہلا مہینہ ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:حج کے مہینےطے شدہ اور معلوم ہیں۔(۹)
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ ’’اشہرِ حج‘‘ تین ہیں، جن میں سے پہلا شوال اور دوسرا ذیقعدہ اور تیسرا ذی الحجہ کے دس دن ہیں۔(۱۰)
حضرت عمرؓ، حضرت عبد اللہؓ بن عمر، حضرت علیؓ، حضرت ابن مسعودؓ، حضرت عبداللہ ابن عباسؓ اور حضرت عبداللہ ابن زبیرؓ رضی اللہ عنہم وغیرہ سے یہی روایت کیا گیا ہے اور یہی اکثر تابعینؒ کا قول ہے۔(۱۱)
یہ بات ماہِ شوال کی عظمت و فضیلت کو اور بڑھا دینے والی ہے کہ یہ حج کا ابتدائی مہینہ ہے۔

۳۔ماہ ِ شوال اور صدقۃ الفطر:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول ﷺ نے صدقہ فطر روزے دار کو لغواوربےہودہ باتوں کے اثرات سے پاک کرنے اورمسکینوں کےکھانے کا بندوبست کرنے کے لیے مقرر فرمایا ہے،جس شخص نے نماز عید سے پہلے صدقہ فطر ادا کردیا،وہ مقبول صدقہ فطرہےاورجس نے نمازِعید کے بعدادا کیا ،تو وہ عام صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے۔
(سنن ابن ماجۃ،حدیث نمبر:1827)

حضرت جریر رضی اللہ عنہ سے روایت کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:ماہِ رمضان کا روزہ آسمان اورزمین کے درمیان معلق(لٹکا) رہتا ہےاور بغیر صدقہ فطر کے اوپر نہیں اٹھایاجاتا۔
(الترغیب و الترھیب للمنذری،حدیث نمبر:1653)

حضرت ابن عمررضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے صدقہ فطر مقررکیا اور فرمایا:اس دن میں ان فقراء کو سوال کرنے سے مستغنی کردو۔
(سنن دارقطنی،حدیث نمبر:2133)

نوٹ:
صدقہ فطر کے احکام کا تفصیلاًمطالعہ کےلئے"دارالافتاء الاخلاص" کی ویب سائٹhttp://AlikhlasOnline.comملاحظہ فرمائیے۔

ماہِ شوال کے اعمال:
عید الفطر کی فضیلت:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی روایت میں ہے کہ جب عید کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فخر فرماتے ہیں کہ دیکھو! ان لوگوں نے ایک ماہ کے روزہ رکھے اور حکم مانا اور فرماتے ہیں: اے میر ے فرشتو! بتاؤ! اس مزدور کی کیا جزا ہے، جس نے عمل پورا کردیا ؟وہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے رب اس کی جزا یہ ہے کہ اس کا بدلہ پورا دے دیا جائے ۔اللہ تعالٰی فرماتے ہیں: اے میرے فرشتو!میرے بندوں اور بندیوں نے میرا فریضہ پورا کردیا، جو ان پر لازم تھا اور اب دعا میں گڑگڑانے لگے، قسم ہے میرے عزت و جلال اور کرم کی اور میرے علو وارتفاع کی، میں ضرور ان کی دعا قبول کروں گا۔ پھر (بندوں کو)ارشاد باری تعالیٰ ہوتاہے کہ میں نے تم کو بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں سے بدل دیا، لہذا اس کے بعد (عید گاہ سے)بخشے بخشائے واپس ہوتے ہیں۔
(فضائل الاوقات للبیھقی،حدیث نمبر:۱۵۵، ص:۳۱۸،ط: مكتبة المنارة)(۱۲)

عید الفطر کی نماز کا حکم :
عید کی دو رکعت نماز چھ زائد تکبیرات کے ساتھ اد اکرنا واجب ہے۔(۱۳)

عید کی نما زسے پہلےپہلے صدقہ فطر ادا کرنا:
مستحب یہ ہے کہ عیدالفطر کے دن نماز عید کے لئے جانے سے پہلے پہلے صدقۃ الفطر ادا کردیا جائے۔(۱۴)

شوال کے چھ روزے:
واضح رہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنے کی احادیثِ مبارکہ میں فضیلت وارد ہوئی ہے، رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی صحیح سند کے ساتھ حدیث کی مستند کتابوں میں موجود ہے:
حضرت ثوبان رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "جس نے (رمضان کے روزوں کے بعد) شوال کے چھ روزے رکھے، تو یہ پورے سال کے روزے شمار ہوں گے، کیونکہ جو بھی کوئی نیک کام کرتا ہے، تو اسے اس کا دس گنا اجر ملتا ہے‘‘۔
(سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر:1715)

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے اور پھر شوال کے چھ روزے رکھے تویہ ہمیشہ (یعنی پورے سال)کے روزے شمار ہوں گے۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:1664)

حدیث مبارکہ میں رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے چھ روزے رکھنے پر پورا سال ثواب کی وجہ ’’صحیح ابن خزیمہ ‘‘ کی ایک روایت میں ہے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:رمضان کے روزے دس ماہ اور چھ روزے (شوال)کے دو ماہ ہیں، تو یہ پورے سال کے روزے ہوئے۔
(صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر:2115)

علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں : ہر نیکی کاثواب دس گنا ہے ،اس حساب سے رمضان کا مہینہ دس ماہ کے قائم مقام ہوا اور شوال کے چھ روزے دو ماہ کے قائم مقام ہوئے،تو گویا ایک سال مکمل ہوگیا ، اس طرح پورا سال روزہ رکھنے کا اجر ملے گا۔(۱۵)
علامہ ابن رجب حنبلی ؒ نے شوال کے چھ روزوں کے کئی فوائد ذکر فرمائے ہیں:
۱۔ پورے سال کے روزہ رکھنے کا اجر ملتا ہے۔
۲۔قیامت کے دن فرائض میں نقص اور کمی کو نوافل سے پورا کیا جائے گا ،جیسا کہ حدیث میں آتا ہےکہ قیامت کے دن تمام اعمال میں سب سے پہلے نماز کے متعلق سوال ہوگا ،تو ہمارا پروردگار فرشتوں سے فرمائے گا، حالانکہ وہ خوب جانتا ہے، دیکھو! میرے بندہ کی نماز کامل ہے یا ناقص؟ اگر وہ کامل ہوگی تو کامل ہی لکھ دی جائے گی۔ (یعنی اس کا ثواب پورا لکھا جائے گا) اگر اس میں کچھ کمی رہ گئی ہوگی، تو اللہ فرشتوں سے فرمائے گا، دیکھو! میرے بندہ کے پاس کچھ نفل بھی ہیں؟ اگر نفل ہوں، تو میرے بندہ کے فرائض کی کمی اس کے نوافل سے پوری کر دو۔ پھر تمام اعمال کا حساب اسی طرح لیا جائے گا۔ (یعنی فرض کی کوتاہی کو نفل سے پورا کر لیا جائے گا) (۱۶)
لہذا شوال کےچھ روزے بھی نماز سے پہلے اور بعد کی سنتوں اور نوافل کی طرح ہیں،ان کے ذریعے اللہ تعالی رمضان المبارک کے روزوں کےنقص اور کمی کو پورا کردیں گے ۔
۳۔رمضان کے بعد شوال کےروزے رکھنا ،اس بات کی دلیل اور علامت ہےکہ رمضان کے فرض روزے قبول کرلیے گئے۔احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اللہ تعالی جب کسی بندے کے نیک عمل کو قبول فرماتے ہیں ،تو اس کو مزید نیک عمل کی توفیق عطا فرماتے ہیں ۔ اس لیے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی کرنا ،پہلی نیکی کے قبولیت کی علامت ہے۔
۴۔اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو صومِ رمضان کی ادائیگی کی نعمت وتوفیق پالینے پر ذکرِ الٰہی وتکبیر وتسبیح وغیرہ سے اپنی شکرگزاری کا حکم فرمایا ہے۔
’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اورحق وباطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں، لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو، تو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا، اس لیے یہ طریقہ تمہیں بتایا جارہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکو اورجس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے، اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہار واعتراف کرو او شکرگزار بنو۔ ‘‘ (بقرہ، آیت نمبر:185)
لہٰذا رمضان کی توفیق پالینے، اورگناہوں کی مغفرت پر شکرگزاری میں یہ بھی شامل ہے کہ اس کے بعد چند روزے رکھے جائیں۔ حضرت وہیب بن الوردرحمہ اللہ سے اگر کسی نیکی پر مرتب ہونے والے ثواب کے بارے میں پوچھا جاتا تھا تو فرماتے: نیک عمل کے اجر وثواب کے بارے میں مت پوچھو، بلکہ یہ جاننے کی کوشش کرو کہ اس عمل کی ادائیگی پر شکریہ کیسے ادا کیا جائے کہ رحمن ورحیم رب نے تمہیں اس کی توفیق عطا فرمائی۔(۱۷)

خلاصہ کلام:
۱۔ شوال کے چھ روزےرکھنا مستحب ہے،چونکہ رمضان کے ساتھ ساتھ ان چھ روزوں کی وجہ سے پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتاہے،اس لیے ان روزوں کا اہتمام کرناچاہیے۔
۲۔یہ روزے فرض یا واجب نہیں ہیں، اگر کوئی نہیں رکھتا ہے، تو گناہ گار نہیں ہوگا،لہذا اگر کوئی روزہ نہ رکھے، تو اسے ملامت کا نشانہ نہیں بنانا چاہیے، کیونکہ یہ مستحب روزہ ہے، جسے رکھنے پر ثواب ہے اور نہ رکھنے پر کوئی گناہ نہیں ہے۔
۳۔شوال کا پہلا دن(عید کا دن) چھوڑ کر اس مہینے کے اندر کسی بھی وقت یہ روزے رکھے جاسکتے ہیں، مسلسل یا متفرق، دونوں صورتوں میں جس طرح بھی آسان ہو، رکھے جاسکتے ہیں۔(۱۸)

ماہ ِ شوال کی رسومات وبدعات
۱۔یکم شوال (عید کےدن) فوتگی والے گھر جانا:
بعض علاقوں میں جب کسی گھر میں فوتگی ہوتی ہے ، تو اس کی وفات کے بعدعزیز و اقارب پہلی عید و بقرعید پرمیت کے گھر پہنچنا فرض سمجھتے ہیں،اور وہا ں جاکر تعزیت کرتے ہیں ،چاہے انتقال ہوئے مہینوں گذر چکے ہوں۔
اس رسم میں کئی خرابیاں ہیں:
۱۔ تعزیت تین دن کے اندر اندر ایک مرتبہ کرنا سنت ہے ،لہذا جب ایک مرتبہ تعزیت کی جاچکی ہے،اب عید کے دن دوبارہ تعزیت کرنا سنت کے خلاف ہے ۔
۲۔ شریعت میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔
۳۔عید کا دن خوشی کادن ہے اور اللہ تعالی کی طرف سے مہمان نوازی کا دن ہے ،اس دن غم کو تازہ کرکے عید کی خوشی کوغم میں تبدیل کرنا انتہائی مکروہ اور خلاف ِ شریعت رسم ہے۔
لہذا اس بری رسم اور بدعت سیئہ سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔(۱۹)

فوتگی والے گھر میں سوگ کا سماں :
بعض علاقوں میں کسی کے انتقال کے بعد اس کی پہلی عید پر فوتگی والے گھرمیں سوگ کا سماں ہوتا ہے، اس گھر کے افراد عید کے دن خوشی منانے،اچھےکپڑےپہننےکوبرا سمجھتے ہیں۔یہ محض خود ساختہ رسم ہے،کیونکہ شرعی اعتبار سےسوگ کی تین دن تک اجازت ہے ،البتہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوگیا ہو ،اس کے چار ماہ دس دن تک سوگ کرنا واجب ہے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کسی عورت کے لئے ،جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے سوائے اپنے خاوند کے۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:1491)

حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ جب ام المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو(ان کے والد)حضرت ابوسفیان کی وفات کی خبر آئی، تو حضرت ام حبیبہ ؓ نے تیسرے دن زرد رنگ کی خوشبو منگوا کر اپنی کلائیوں اور اپنے رخساروں پر لگائی اور فرمایا:مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی، میں نے نبی ﷺ سے سنا :آپ ﷺ فرماتے تھے :کسی عورت کے لئے ،جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتی ہو ،حلال نہیں کہ وہ اپنی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے، سوائے اپنے خاوند پر کہ اس پر چار ماہ اور دس دن تک سوگ کر ے گی۔
(صحیح مسلم، حدیث نمبر:1491)

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ پہلی عید کے موقع پر مرحوم کے پسماندگان کا سوگ مناناایک خود ساختہ رسم ہے،جس کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے،لہذا س سے اجتناب کرنا چاہیے۔

عید کے دن قبرستان جانا:
بعض علاقوں میں یہ رواج ہے کہ عید کے دن نمازِعید کےفوراًبعد قبرستان جانے کو ضروری خیال کیا جاتاہےاور اس دن قبروں کی زیارت نہ کرنے والوں پر طعن کی جاتی ہے،یہ بدعت اورناجائز ہےجس کو ترک کرنا لازم ہے،تاہم اگر اس کا التزام نہ کیا جائےاور اسے سنت اور ضروری نہ سمجھاجائےتو ٖ عید کے دن قبرستان جاناجائزہے۔
فتاوی محمودیہ میں ہے:’’عید کادن مسرت کادن ہوتاہے،بسااوقات مسرت میں لگ کر آخرت سے غفلت ہوجاتی ہے،اورزیارت قبورسے آخرت یادآتی ہے،اس لیے اگرکوئی شخص عیدکے دن زیارتِ قبورکرے تومناسب ہے،کچھ مضائقہ نہیں،لیکن اس کاالتزام خواہ عملاً ہی سہی، جس سے دوسروں کویہ شبہ ہوکہ یہ چیزلازمی اورضروری ہے، درست نہیں۔نیزاگرکوئی شخص اس دن زیارت قبورنہ کرے، تواس پر طعن کرنایااس کوحقیرسمجھنا درست نہیں،اس کی احتیاط لازم ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ ،ج:۹،ص:۲۰۱، ط:فاروقیہ )
لہذا عید کے دن قبرستان جانےکاالتزام کرنا،ہرسال اسے لازم اورضروری سمجھادرست نہیں ہے۔

ماہِ شوال میں نکاح کو منحوس سمجھنا:
بعض لوگ دو عید وں کے درمیان اور شوال کے مہینے میں نکاح اورشادی کو منحوس سمجھتے ہیں ۔

شوال میں نکاح منحوس سمجھنے کی وجہ:
۱۔یہ زمانہ جہالیت میں عربوں کا خیال تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ عرب کہتے کہ ’’شوال ‘‘ كا نام’’شوال ‘‘ اس ليے ركھا گيا كہ اس مہینے میں اوٹنى كا دودھ كم اور ختم ہو جاتا تھا،اور اونٹنی اونٹ سے دور ہوجاتی تھی، اس وجہ سے عرب اس ماہ ميں عقد نكاح کو منحوس سمجھتے تھے، اورکہتے کہ منكوحہ عورت بالكل اسى طرح خاوند سے دور اور رك جاتى ہے، جس طرح اونٹنى اونٹ سے دور رہتى اور اپنى دم مارتى ہے۔(۲۰)
۲۔اور ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ ایک مرتبہ شوال میں طاعون پھیل گیا تھا،جس میں بہت سی دلہنیں مرگئی تھیں،اس لئے زمانہ جہالیت میں لوگ شوال کے مہینے میں نکاح منحوس سمجھنے لگے تھے اور اس میں شادی نہیں کرتے تھے۔(۲۱)
واضح رہے کہ شریعت میں سال کے بارہ مہینوں اور دنوں میں کوئی مہینہ یا دن ایسا نہیں ،جس میں نکاح کی تقریب مکروہ اور ناپسندیدہ ہو یا اس میں نکاح منحوس اور شادی ناکام ہوجاتی ہو۔
جناب رسول اللہ ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس ماہ میں نکاح کیا اور اسی ماہ میں رخصتی فرماکر جہالیت کے باطل خیال و نظریہ کا رد کیا۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے :جناب رسول اللہ ﷺ نے ميرے ساتھ شوال ميں نكاح كيا، اور ميرى رخصتى بھى شوال ميں ہوئى، نبى كريم ﷺكے نزديك رسول اللہ ﷺ کی كونسى بیوی مجھ سے زيادہ خوش قسمت تھى ؟ "(۲۲)
(مسند احمد، 24272)

امام نووی اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:اہل عرب شوال میں نکاح کرنے کو یا شوال میں رخصتی کرا کر دلہن گھر لانے کو برا سمجھتے تھے، اور بدفالی لیتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کا مقصد اسی غلط خیال کی تردید ہے کہ اگر اس میں کوئی حقیقت ہوتی، تو تمام ازواج مطہرات میں سب سے زیادہ خوش نصیب میں کیوں کر ہوتی؟(23)

علامہ ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:" جناب رسول اللہ ﷺكا شوال ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا کو بیاہ لانا، ان لوگوں كے وہم اور اعتقاد كا رد ہے، جو دونوں عيدوں كے درميان عورت سے رخصتى ناپسند كرتے ہيں كہ كہيں ان ميں جدائى ہى نہ ہو جائے، حالانكہ ایسی کوئی بات نہيں ہے۔(۲۴)

خلاصہ کلام :
۱۔شوال کے مہینے میں نکاح کو منحوس سمجھنا باطل نظریہ ہے،جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
۲۔اس خیال کے باطل ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نکاح ایک اہم عبادت ہے، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء علیہم السلام کی سنت اور طریقہ ہے،(۲۵) نکاح کے ذریعہ آدمی بدنظری سے بچ جاتا ہے اور شرمگاہ کی حفاظت ہوجاتی ہے،(۲۶)اور حدیث شریف میں ہے کہ ”بندہ نکاح کرکے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیتا ہے‘‘۔(۲۷)سوچنے کی بات ہے کہ جب نکاح اتنی اہم عبادت ہے، تو اس سے کیسے منع کیاجاسکتا ہے؟
اسی وجہ سے علمائے کرام نے شوال کے مہینے میں نکاح کو مستحب قراردیا ،تاکہ ایک باطل اور غلط عقیدہ کی تردید ہو۔(۲۸)

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس عظیم الشان مہینے کی برکتوں سے خوب مالا مال فرمائے، اور اس ماہ مبارک میں بدعات و خرافات سے بچائے اور اس مہینے کی قدر کرنے اور اس میں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین





۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

(1) تفسیر ابن کثیر: (196/7، ط: مؤسسة قرطبة)
وشوال من شالت الإبل بأذنابها للطراق قال : ويجمع على شواول وشواويل وشوالات .

(2) لسان العرب لابن المنظور: (377/11، ط: دار صادر)
وشوال: من أسماء الشهور معروف، اسم الشهر الذي يلي شهر رمضان، وهو أول أشهر الحج، قيل: سمي بتشويل لبن الإبل وهو توليه وإدباره، وكذلك حال الإبل في اشتداد الحر وانقطاع الرطب، وقال الفراء: سمي بذلك لشولان الناقة فيه بذنبها. والجمع شواويل على القياس، وشواول على طرح الزائد، وشوالات، وكانت العرب تطير من عقد المناكح فيه، وتقول: إن المنكوحة تمتنع من ناكحها كما تمتنع طروقة الجمل إذا لقحت وشالت بذنبها، فأبطل النبي، صلى الله عليه وسلم، طيرتهم. وقالت عائشة، رضي الله عنها: تزوجني رسول الله، صلى الله عليه وسلم، في شوال وبنى بي في شوال فأي نسائه كان أحظى عنده مني؟

(3) تاج العروس للزبیدي: (397/14، ط: دار الفکر)
ويقال: شالت نعامه القوم إذا خفت منازلهم منهم ومضوا، أو إذا تفرقت كملتهم، أو إذا ماتوا وتفرقوا كأنه لم يبق منهم إلا بقية، والنعامة: الجماعة، أو إذا ذهب عزهم

غیاث اللغات: (ص: 300، ط: مطبوعة، رزاقي پریس، کانبور)
وجہ تسمیہ آنکہ درین ماہ عرب سیر و شکار میکوند و ازخانھای خود بیرون میرفتند مشتق از شول کہ مصدر است بمعنی برادشتہ شدن

(4) تاریخ دمشق لابن عساکر: (335/45، ط: دار الفکر) کذا فی کنزالعمال لعلی المتقي: (رقم الحدیث: 24284، 588/8، ط: مؤسسة الرسالة)
عن مالك بن انس عن الزهري عن سالم عن ابيه قال انما سمي رمضان لان الذنوب ترمض فيه وانما سمي شوال لانه يشول الذنوب كما تشول الناقة ذنبه

(5) شعب الإيمان: (277/5، ط: مکتبة الرشد)
عن عبد الله بن عباس، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن الجنة لتنجد وتزين من الحول إلى الحول لدخول شهر رمضان، فإذا كانت أول ليلة من شهر رمضان هبت ريح من تحت العرش، يقال لها المثيرة تصفق ورق أشجار الجنان، وحلق المصاريع يسمع لذلك طنين لم يسمع السامعون أحسن منه، فيثبن الحور العين حتى يشرفن على شرف الجنة، فينادين: هل من خاطب إلى الله فيزوجه، ثم يقلن الحور العين: يا رضوان الجنة ما هذه الليلة؟ فيجيبهن بالتلبية ثم يقول: هذه أول ليلة من شهر رمضان فتحت أبواب الجنة على الصائمين من أمة محمد صلى الله عليه وسلم، قال: ويقول الله عز وجل: يا رضوان، افتح أبواب الجنان، ويا مالك أغلق أبواب الجحيم على الصائمين من أمة محمد، ويا جبريل اهبط إلى الأرض فاصفد مردة الشياطين، وغلهم بالأغلال، ثم اقذفهم في البحار حتى لا يفسدوا على أمة محمد حبيبي صيامهم "
قال: " ويقول عز وجل في كل ليلة من شهر رمضان لمناد ينادي ثلاث مرات: هل من سائل فأعطيه سؤله، هل من تائب فأتوب عليه، هل من مستغفر فأغفر له، من يقرض المليء غير المعدم، والوفي غير الظلوم "
قال: " ولله عز وجل في كل يوم من شهر رمضان عند الإفطار ألف ألف عتيق من النار كلهم قد استوجبوا النار، فإذا كان آخر يوم من شهر رمضان أعتق الله في ذلك اليوم بقدر ما أعتق من أول الشهر إلى آخره، وإذا كانت ليلة القدر يأمر الله عز وجل جبريل عليه السلام، فيهبط في كبكبة من الملائكة إلى الأرض ومعهم لواء أخضر، فيركز اللواء على ظهر الكعبة، وله مائة جناح منها جناحان لا ينشرهما إلا في تلك الليلة، فينشرهما في تلك الليلة فيجاوز المشرق إلى المغرب، فيبث جبريل عليه السلام الملائكة في هذه الليلة فيسلمون على كل قائم، وقاعد، ومصل وذاكر يصافحونهم، ويؤمنون على دعائهم حتى يطلع الفجر، فإذا طلع الفجر ينادي جبريل معاشر الملائكة الرحيل الرحيل، فيقولون يا جبريل، فما صنع الله في حوائج المؤمنين من [ص:278] أمة محمد صلى الله عليه وسلم؟ فيقول جبريل: نظر الله إليهم في هذه الليلة فعفا عنهم، وغفر لهم إلا أربعة "، فقلنا: يا رسول الله من هم؟ قال: " رجل مدمن خمر، وعاق لوالديه، وقاطع رحم، ومشاحن "، قلنا: يا رسول الله، ما المشاحن؟ قال: هو المصارم، فإذا كانت ليلة الفطر سميت تلك الليلة ليلة الجائزة، فإذا كانت غداة الفطر بعث الله الملائكة في كل بلاد فيهبطون إلى الأرض فيقومون على أفواه السكك، فينادون بصوت يسمع من خلق الله عز وجل إلا الجن والإنس فيقولون: يا أمة محمد، اخرجوا إلى رب كريم يعطي الجزيل، ويعفو عن الذنب العظيم، فإذا برزوا إلى مصلاهم، يقول الله عز وجل للملائكة: ما جزاء الأجير إذا عمل عمله؟ فتقول الملائكة: إلهنا وسيدنا جزاؤه أن توفيه أجره، قال: فيقول: فإني أشهدكم يا ملائكتي أني قد جعلت ثوابهم من صيامهم شهر رمضان وقيامه رضائي ومغفرتي، ويقول: يا عبادي، سلوني فوعزتي وجلالي لا تسألوني اليوم شيئا في جمعكم لآخرتكم إلا أعطيتكم، ولا لدنياكم إلا نظرت لكم فوعزتي لأسترن عليكم عثراتكم ما راقبتموني، فوعزتي لا أخزيكم ولا أفضحكم بين يدي أصحاب الحدود، انصرفوا مغفورا لكم قد أرضيتموني ورضيت عنكم، فتفرح الملائكة ويستبشرون بما يعطي الله عز وجل هذه الأمة إذا أفطروا من شهر رمضان "

(6) الترغیب و الترھیب للمنذري: (رقم الحدیث: 1655، 98/2، ط: دار الکتب العلمیة)
رواه ابن ماجه ورواته ثقات إلا أن بقية مدلس وقد عنعنه

(7) مصباح الزجاجة: (85/2، ط: دار العربية)
هذا إسناد ضعيف لتدليس بقية ورواته ثقات لكن لم ينفرد به بقية عن ثور بن يزيد فقد رواه الأصبهاني في كتاب الترغيب من طريق عمر بن هارون البلخي وهو ضعيف عن ثور به وله شاهد من حديث عبادة بن الصامت رواه الطبراني في الأوسط والكبير والأصبهاني من حديث معاذ بن جبل فيقوى بمجموع طرقه ۔
قال الدکتور شعيب الأرنؤوط: إسناده ضعيف لضعف بقية بن الوليد، وقد اختلف فيه على ثور بن يزيد، قال الدارلطني في "العلل" فيما نقله عنه ابن الملقن في "البدر المنير" (5/ 37): يرويه ثور بن يزيد واختلف عنه، فرواه جرير بن عبد الحميد، عن ثور، عن مكحول، عن أبي أمامة، قاله ابن قدامة وغيره عن جرير، ورواه عمرو بن هارون، عن جرير، عن ثور، عن مكحول، قال: وأسنده معاذ بن جبل، عن النبي - صلى الله عليه وسلم -، والمحفوظ أنه موقوف عن مكحول. قلنا: ورواه بقية بن الوليد، عن ثور، عن خالد بن معدان، عن أبي أمامة كما عند المصنف هنا، ورواه إبراهيم بن محمد بن أبي يحيى الأسلمي، عن ثور، عن خالد، عن أبي الدرداء من قوله كما سيأتي، وإبراهيم الأسلمي متروك الحديث، ورواه الحسن بن سفيان كما قال الحافظ في "التلخيص" (2/ 80) من طريق بشر بن رافع، عن ثور، عن خالد، عن عبادة، وبشر متهم بالوضع.
وأخرجه الشافعي في "الأم" (1/ 231) ومن طريقه البيهقي في "السنن الكبري" (3/ 319) وفي "شعب الإيمان" (3711)، وفي "فضائل الأوقات" (150) عن إبراهيم بن محمد الأسلمي، عن ثور، عن خالد، عن أبي الدرداء موقوفا. وإبراهيم كما أسلفنا متروك الحديث.
وحديث معاذ بن جبل الذي أشار إليه الدارقطني أخرجه ابن عساكر في "تاريخ دمشق" (12/ ورقة 477) في ترجمة علي بن عساكر المقدسي من طريق سويد بن سعيد، عن عبد الرحيم بن زيد العمي، عن أبيه، عن وهب بن منبه، عن معاذ بن جبل، عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "من أحيا الليالي الأربع ... " وهذا إسناد مسلسل بالضعفاء.
وفي الباب عن كردوس بن عمرو عند ابن الأعرابي في "معجمه" (2252)، وابن الجوزي في "العلل المتناهية" (924)، وعلي بن سعيد العسكري في "الصحابة" كما في "التلخيص الحبير" (2/ 80) والحسن بن سفيان وأبي نعيم وابن منده وأبي مرسى المديني كلهم في "الصحابة" كما في "أسد الغابة" (4/ 465- 466) وفي إسناده مروان بن سالم وهو متروك الحديث، وسلمة بن سليمان الجزري وعيسى بن إبراهيم القرشي وهما ضعيفان،

المعجم الاوسط للطبراني: (57/1، 195، ط: دار الحرمین)
حدثنا أحمد بن يحيى بن خالد بن حيان قال: نا حامد بن يحيى البلخي قال: نا جرير بن عبد الحميد، عن رجل وهو: عمر بن هارون البلخي، عن ثور بن يزيد، عن خالد بن معدان، عن عبادة بن الصامت، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من صلى ليلة الفطر والأضحى، لم يمت قلبه يوم تموت القلوب»
لم يرو هذا الحديث عن ثور إلا عمر بن هارون، تفرد به: جرير۔

مجمع الزوائد: (43/2، 3203، ط: دار الفكر)
قال الھیثمی فی مجمع الزوائد: رواه الطبراني في الكبير والأوسط وفيه عمر بن هارون البلخي والغالب عليه الضعف وأثنى عليه ابن مهدي وغيره ولكن ضعفه جماعة كثيرة والله أعلم ۔

شعب الایمان للبیھقي: (278/5، 3437، ط: مکتبة الرشد)، فضائل الاوقات: (312، 150، ط: مكتبة المنارة) السنن الکبري للبیھقي: (445/3، 6293، ط: دار الکتب العلمیة)
أخبرنا أبو سعيد محمد بن موسى، حدثنا أبو العباس الأصم، أخبرنا الربيع، أخبرنا الشافعي، أخبرنا إبراهيم بن محمد، قال: قال ثور بن يزيد: عن خالد بن معدان، عن أبي الدرداء، قال: " من قام ليلتي العيدين لله محتسبا لم يمت قلبه حين تموت القلوب "، قال الشافعي: " وبلغنا أنه كان يقال إن الدعاء يستجاب في خمس ليال في ليلة الجمعة، وليلة الأضحى، وليلة الفطر، وأول ليلة من رجب، وليلة النصف من شعبان "

الترغیب و الترھیب للمنذري: (رقم الحدیث: 1656، 18/2، ط: دار الکتب العلمیة)
وروي عن معاذ بن جبل رضي الله عنه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أحيا الليالي الخمس وجبت له الجنة ليلة التروية وليلة عرفة وليلة النحر وليلة الفطر وليلة النصف من شعبان رواه الأصبهاني۔

(8) الأذکار للنووي: (ص: 117، ط: دار الفكر)
علم أنه يستحب إحياء ليلتي العيدين في ذكر الله تعالى، والصلاة، وغيرهما من الطاعات، للحديث الوارد في ذلك: 497 - " من أحيا ليلتي العيدين، لم يمت قلبه يوم تموت القلوب " وروي، " من قام ليلتي العيدين لله محتسبا لم يمت قلبه يوم تموت القلوب " هكذا جاء في رواية الشافعي وابن ماجه، وهو حديث ضعيف رويناه من رواية أبي أمامة مرفوعا وموقوفا، وكلاهما ضعيف، لكن أحاديث الفضائل يتسامح فيها كما قدمناه في أول الكتاب.
واختلف العلماء في القدر الذي يحصل به الإحياء، فالأظهر أنه لا يحصل إلا بمعظم الليل، وقيل: يحصل بساعة.

فیض القدیر للمناوي: (رقم الحدیث: 3952، 454/3، ط: المكتبة التجارية الكبريٰ)
(خمس ليال لا ترد فيهن الدعوة) من أحد دعى بدعاء سائغ متوفر الشروط والأركان والآداب (أول ليلة من رجب وليلة النصف من شعبان وليلة الجمعة وليلة الفطر) أي ليلة عيد الفطر (وليلة النحر) أي عيد الأضحى فيسن قيام هؤلاء الليالي والتضرع والابتهال فيها وقد كان السلف يواظبون عليه

(9) القرآن الکریم: الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ ۚ (سورة البقرة، الایة: 197)

(10) فتح الباري: (420/3، ط: دار المعرفة)
وَأَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ عَلَى أَنَّ الْمُرَادَ بِأَشْهُرِ الْحَجِّ ثَلَاثَةٌ أَوَّلُهَا شَوَّالٌ

(11) لطائف المعارف لابن رجب: (ص: 471، ط: دار ابن کثیر)

12 فضائل الاوقات للبیھقي: (رقم الحدیث:155، ص: 318،ط: مكتبة المنارة) کذا فی شعب الإیمان: (رقم الحدیث: 3444، 290/5، ط: مکتبة الرشد)
عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كان [ص:319] ليلة القدر نزل جبريل عليه السلام في كبكبة من الملائكة يصلون على كل عبد قائم أو قاعد يذكر الله، فإذا كان يوم عيدهم يعني يوم فطرهم باهى بهم ملائكته قال: يا ملائكتي ما جزاء أجير وفى عمله؟ قالوا: ربنا جزاؤه أن يوفى أجره، قال: ملائكتي عبيدي وإمائي قضوا فريضتي عليهم ثم خرجوا يعجون إلي بالدعاء وعزتي وجلالي وكرمي وعلوي وارتفاع مكاني لأجيبنهم، فيقول: ارجعوا فقد غفرت لكم، وبدلت سيئاتكم حسنات " قال: «فيرجعون مغفورا لهم» تفرد به أصرم بن حوشب الهمداني بهذا الإسناد، وقد رويناه في الحديث الطويل في ليلة القدر، وروي عن كعب الأحبار في فضل صوم شهر رمضان وبروز المسلمين يوم الفطر لعيدهم ما

(13) الدر المختار: (166/2، ط: دار الفکر)
(تجب صلاتهما) في الأصح (على من تجب عليه الجمعة بشرائطها) المتقدمة (سويٰ الخطبة) فإنها سنة بعدها،

(14) سنن الترمذي: (رقم الحدیث:677، 55/2، ط: دار الغرب الإسلامی)
عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأمر بإخراج الزكاة قبل الغدو للصلاة يوم الفطر.
هذا حديث حسن صحيح غريب، وهو الذي يستحبه أهل العلم: أن يخرج الرجل صدقة الفطر قبل الغدو إلى الصلاة.

(ھدایة: 115/1، ط: دار إحیاء التراث العربي)
والمستحب أن يخرج الناس الفطرة يوم الفطر قبل الخروج إلى المصلى " لأنه عليه الصلاة والسلام كان يخرج قبل أن يخرج للمصلى ولأن الأمر بالإغناء كي لا يتشاغل الفقير بالمسئلة عن الصلاة وذلك بالتقديم "

(15) شرح النووي: (369/1)
الحسنة بعشر أمثالہا فرمضان بعشر أشہر والستة بشہرین الخ".

(16) سنن أبي داؤد: (رقم الحدیث:766، 229/1، ط: المکبة العصریة)
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا إسماعيل، حدثنا يونس، عن الحسن، عن أنس بن حكيم الضبي، قال: خاف من زياد، أو ابن زياد، فأتى المدينة، فلقي أبا هريرة، قال: فنسبني، فانتسبت له، فقال: يا فتى، ألا أحدثك حديثا، قال: قلت: بلى، رحمك الله - قال يونس: وأحسبه ذكره عن النبي صلى الله عليه وسلم - قال: «إن أول ما يحاسب الناس به يوم القيامة من أعمالهم الصلاة»، قال: " يقول ربنا جل وعز لملائكته وهو أعلم: انظروا في صلاة عبدي أتمها أم نقصها؟ فإن كانت تامة كتبت له تامة، وإن كان انتقص منها شيئا، قال: انظروا هل لعبدي من تطوع؟ فإن كان له تطوع، قال: أتموا لعبدي فريضته من تطوعه، ثم تؤخذ الأعمال على ذاكم

(17) لطائف المعارف لابن رجب الحنبلي، ط: دار ابن کثیر)
وفي معاودة الصيام بعد رمضان فوائد عديدة:
منها: أن صيام ستة أيام من شوال بعد رمضان يستكمل بها أجر صيام الدهر كله كما سبق.
ومنها: أن صيام شوال وشعبان كصلاة السنن الرواتب قبل الصلاة المفروضة وبعدها فيكمل بذلك ما حصل في الفرض من خلل ونقص فإن الفرائض تجبر أو تكمل بالنوافل يوم القيامة كما ورد ذلك عن النبي صلى الله عليه وسلم من وجوه متعددة وأكثر الناس في صيامه للفرض نقص وخلل فيحتاج إلى ما يجبره ويكمله من الأعمال ولهذا نهى النبي صلى الله عليه وسلم: أن يقول الرجل صمت رمضان كله أو قمته كله قال الصحابي فلا أدري أكره التزكية أم لا بد من الغفلة وكان عمر بن عبد العزيز رحمه الله يقول: من لم يجد ما يتصدق به فليصم يعني من لم يجد ما يخرجه صدقة الفطر في آخر رمضان فليصم بعد الفطر فإن الصيام يقوم مقام الإطعام في التكفير للسيئات كما يقوم مقامه في كفارات الإيمان وغيرها من الكفارات في مثل كفارات القتل والوطء في رمضان والظهار.
ومنها: أن معاودة الصيام بعد صيام رمضان علامة على قبول صوم رمضان فإن الله إذا تقبل عمل عبد وفقه لعمل صالح بعده كما قال بعضهم: ثواب الحسنة الحسنة بعدها فمن عمل حسنة ثم اتبعها بعد بحسنة كان ذلك علامة على قبول الحسنة الأولى كما أن من عمل حسنة ثم اتبعها بسيئة كان ذلك علامة رد الحسنة وعدم قبولها.
ومنها: أن صيام رمضان يوجب مغفرة ما تقدم من الذنوب كما سبق ذكره وأن الصائمين لرمضان يوفون أجورهم في يوم الفطر وهو يوم الجوائز فيكون معاودة الصيام بعد الفطر شكرا لهذه النعمة فلا نعمة أعظم من مغفرة الذنوب كان النبي صلى الله عليه وسلم يقوم حتى تتورم قدماه فيقال له: أتفعل هذا وقد غفر الله لك ماتقدم من ذنبك وما تأخر؟ فيقول: "أفلا أكون عبدا شكورا".
وقد أمر الله سبحانه وتعالى عباده بشكر نعمة صيام رمضان بإظهار ذكره وغير ذلك من أنواع شكره فقال: {وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللَّهَ عَلَى مَا هَدَاكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ} [البقرة: 185] فمن جملة شكر العبد لربه على توقيفه لصيام رمضان وإعانته عليه ومغفرة ذنوبه أن يصوم له شكرا عقب ذلك كان بعض السلف إذا وفق لقيام ليلة من الليالي أصبح في نهاره صائما ويجعل صيامه شكرا للتوفيق للقيام وكان وهب بن الورد يسئل عن ثواب شيء من الأعمال كالطواف ونحوه؟ فيقول: لا تسألوا عن ثوابه ولكن اسألوا ما الذي على من وفق لهذا العمل من الشكر للتوفيق والإعانة عليه.

(18) الدر المختار وحاشية ابن عابدين: (2/ 435)
"وندب تفريق صوم الست من شوال) ولا يكره التتابع على المختار خلافاً للثاني حاوي. والإتباع المكروه أن يصوم الفطر وخمسة بعده فلو أفطر الفطر لم يكره بل يستحب ويسن ابن كمال" .
"قوله: على المختار) قال صاحب الهداية في كتابه التجنيس: إن صوم الستة بعد الفطر متتابعةً منهم من كرهه، والمختار أنه لا بأس به؛ لأن الكراهة إنما كانت؛ لأنه لايؤمن من أن يعد ذلك من رمضان فيكون تشبهاً بالنصارى والآن زال ذلك المعنى اه ومثله في كتاب النوازل لأبي الليث، والواقعات للحسام الشهيد، والمحيط البرهاني، والذخيرة. وفي الغاية عن الحسن بن زياد: أنه كان لايرى بصومها بأس،اً ويقول: كفى بيوم الفطر مفرقاً بينهن وبين رمضان اه وفيها أيضاً عامة المتأخرين لم يروا به بأساً.
واختلفوا هل الأفضل التفريق أو التتابع اه. وفي الحقائق: صومها متصلاً بيوم الفطر يكره عند مالك، وعندنا لايكره وإن اختلف مشايخنا في الأفضل.
وعن أبي يوسف أنه كرهه متتابعاً والمختار لا بأس به اه وفي الوافي والكافي والمصفى يكره عند مالك، وعندنا لايكره، وتمام ذلك في رسالة تحرير الأقوال في صوم الست من شوال للعلامة قاسم، وقد رد فيها على ما في منظومة التباني وشرحها من عزوه الكراهة مطلقاً إلى أبي حنيفة وأنه الأصح بأنه على غير رواية الأصول وأنه صحح ما لم يسبقه أحد إلى تصحيحه وأنه صحح الضعيف وعمد إلى تعطيل ما فيه الثواب الجزيل بدعوى كاذبة بلا دليل، ثم ساق كثيراً من نصوص كتب المذهب، فراجعها، فافهم. (قوله: والإتباع المكروه إلخ) العبارة لصاحب البدائع، وهذا تأويل لما روي عن أبي يوسف على خلاف ما فهمه صاحب الحقائق كما في رسالة العلامة قاسم، لكن ما مر عن الحسن بن زياد يشير إلى أن المكروه عند أبي يوسف تتابعها وإن فصل بيوم الفطر فهو مؤيد لما فهمه في الحقائق، تأمل".

(19) فتاويٰ الھندیة: (167/1، ط: دار الفکر)
وروى الحسن بن زياد إذا عزى أهل الميت مرة فلا ينبغي أن يعزيه مرة أخرى، كذا في المضمرات.
ووقتها من حين يموت إلى ثلاثة أيام ويكره بعدها إلا أن يكون المعزي أو المعزى إليه غائبا فلا بأس بها

(20) لسان العرب لابن المنظور: (377/11، ط: دار صادر)
وقال الفراء: سمي بذلك لشولان الناقة فيه بذنبها. والجمع شواويل على القياس، وشواول على طرح الزائد، وشوالات، وكانت العرب تطير من عقد المناكح فيه، وتقول: إن المنكوحة تمتنع من ناكحها كما تمتنع طروقة الجمل إذا لقحت وشالت بذنبها، فأبطل النبي، صلى الله عليه وسلم، طيرتهم. وقالت
عائشة، رضي الله عنها: تزوجني رسول الله، صلى الله عليه وسلم، في شوال وبنى بي في شوال فأي نسائه كان أحظى عنده مني؟

(21) طبقات ابن سعد: (60/8، ط: دار صادر)
وقال أبو عاصم: إنما كره الناس [ص:61] أن يدخلوا النساء في شوال لطاعون وقع في شوال في الزمن الأول۔

(22) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 348)
عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: " تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شَوَّالٍ، وَبَنَى بِي فِي شَوَّالٍ، فَأَيُّ نِسَاءِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحْظَى عَنْدَهُ مِنِّي "، قَالَ: وَكَانَتْ عَائِشَةُ تَسْتَحِبُّ أَنْ تُدْخِلَ نِسَاءَهَا فِي شَوَّالٍ۔

(23) شرح النووي علی صحيح مسلم: (209/9، ط: دار إحياء التراث العربي)
وَقَصَدَتْ عَائِشَةُ بِهَذَا الْكَلَامِ رَدَّ مَا كَانَتِ الْجَاهِلِيَّةُ عَلَيْهِ وَمَا يَتَخَيَّلُهُ بَعْضُ الْعَوَامِّ الْيَوْمَ مِنْ كَرَاهَةِ التَّزَوُّجِ وَالتَّزْوِيجِ وَالدُّخُولِ فِي شَوَّالٍ وَهَذَا بَاطِلٌ لَا أَصْلَ لَهُ وَهُوَ مِنْ آثَارِ الْجَاهِلِيَّةِ كَانُوا يَتَطَيَّرُونَ بِذَلِكَ لِمَا فِي اسْمِ شَوَّالٍ مِنَ الْإِشَالَةِ والرفع۔

(24) البدایة والنھایة: (580/4، ط: دار ھجر)
وفي دخوله عليه الصلاة والسلام بها في شوال، رد لما يتوهمه بعض الناس من كراهية الدخول بين العيدين خشية المفارقة بين
الزوجين، وهذا ليس بشيء.

(25) سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 1080)
عن ابي ايوب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اربع من سنن المرسلين: الحياء، والتعطر، والسواك، والنكاح "

(26) سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 1081)
عن عبد الله بن مسعود، قال: خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم ونحن شباب لا نقدر على شيء، فقال: " يا معشر الشباب، عليكم بالباءة فإنه اغض للبصر واحصن للفرج، فمن لم يستطع منكم الباءة فعليه بالصوم، فإن الصوم له وجاء"

صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 1844)
عن عائشة ، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" النكاح من سنتي، فمن لم يعمل بسنتي فليس مني، وتزوجوا فإني مكاثر بكم الامم، ومن كان ذا طول فلينكح، ومن لم يجد فعليه بالصيام، فإن الصوم له وجاء۔

(27) المعجم الأوسط للطبراني: (335/8، ط: دار الحرمين)
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَزَوَّجَ فَقَدِ اسْتَكْمَلَ نِصْفَ الْإِيمَانِ، فَلْيَتَّقِ اللَّهَ فِي النِّصْفِ الْبَاقِي

(28) شرح النووي علی صحيح مسلم: (209/9، ط: دار إحياء التراث العربي)
۔قوله (عن عائشة رضي الله عنها قالت تزوجني رسول الله صلى الله عليه وسلم في شوال وبنى بي في شوال فأي نساء رسول الله صلى الله عليه وسلم كان أحظى عنده مني قال وكانت عائشة تستحب أن تدخل نسائها في شوال) فيه استحباب التزويج والتزوج والدخول في شوال وقد نص أصحابنا على استحبابه واستدلوا بهذا الحديث وقصدت عائشة بهذا الكلام رد ما كانت الجاهلية عليه وما يتخيله بعض العوام اليوم من كراهة التزوج والتزويج والدخول في شوال وهذا باطل لا أصل له وهو من آثار الجاهلية كانوا يتطيرون بذلك لما في اسم شوال من الإشالة والرفع


Print Views: 9979

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.