ماہ محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا قمری مہینہ ہے۔
محرم کے نام کی لغوی تحقیق:
اس مہینے کو عربی میں "المُحرّم" کہا جاتا ہے،محرم کا لفظ حرمت سے نکلا ہے، حرمت کے لفظی معنی "عظمت واحترام" کے ہیں۔
"محرم" کو محرم کہنے کی وجہ:
پہلی وجہ تسمیہ:
عرب اس مہینے میں جنگ و جدال کو حرام سمجھتے تھے، اس لیے اس مہینے کا نام "محرم" رکھا گیا ہے۔(١)
دوسری وجہ تسمیہ:
محرم کو محرم اس کی عظمت اور حرمت کی وجہ سے کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ "اشھر حرم" میں سے ہے، لیکن علامہ سخاوی رحمہ اللّٰہ کے بقول زمانہ جاہلیت میں عرب اس مہینے کے ساتھ کھلواڑ کرتے تھے، کبھی لڑائی کے لیے حرام کرلیتے تھے اور کبھی حلال کرلیتے، اس لیے اس مہینے میں لڑائی کے حرام ہونے کی تاکید کے لیے اس کو "محرّم"کہا گیا ہے۔(٢)
فضائل ِمحرم:
1۔ اسلامی تقویم (کیلینڈر) کی ابتداء اس ماہ سے ہوتی ہے۔:
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں بھی اس مہینے کو انتہائی قابل احترام سمجھا جاتا تھا اور اہل مکہ اسی مہینے سے نئے سال کا آغاز کرتے تھے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں جب اسلامی تاریخ کا مسئلہ زیر بحث آیا تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کے اتفاق رائے سے"محرم"کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔(٣)
علامہ ابن سیرین فرماتے ہیں: یمن سے ایک شخص آیا اور اس نے کہا: میں نے یمن میں ایک چیز دیکھی ہے۔ جسے تاریخ کہتے ہیں، اس کو فلاں سال اور فلاں مہینے سے لکھتے ہیں، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تو بہت ہی اچھی بات ہے، لہذا تم بھی تاریخ مقرر کرو، چنانچہ تاریخ سے متعلق صحابہ کرام کو مشورے کے لیے جمع کیا گیا، تو بعض نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے اس کا آغاز کیا جائے، کسی نے کہا: بعثت سے آغاز کیا جائے، کسی نے کہا: ہجرت سے اور کسی نے کہا: وفات سے تاریخ کی ابتداء کی جائے، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہجرت ہی سے اس کا آغاز کریں، پھر سوال اٹھا کہ کس مہینے کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا جائے؟ کسی نے کہا: رجب، کیونکہ اہل جاہلیت بھی اس کی تعظیم کرتے تھے، کسی نے ماہ رمضان کا کہا، کسی نے کہا: ذی الحجہ کیونکہ اس میں حج ادا کیاجاتا ہے، کسی نے کہا: وہ مہینہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینے کی طرف روانہ ہوئے، کسی نے کہا: وہ مہینہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے پہنچے( اس کو اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا جائے ) تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ "محرم" سے آغاز کرو، کیونکہ یہ حرمت والا مہینہ ہے، اور دوسرا عربوں کے ہاں بھی یہ پہلا مہینہ شمار کیا جاتا تھا اور پھر یہ حج سے واپسی کا مہینہ بھی ہے، لہذا ( اتفاق رائے سے ) محرم کو پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔(٤)
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :تاریخ مقرر کرنے کا ایک سبب یہ ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمارے پاس خطوط آتے ہیں، جن پر تاریخ درج نہیں ہوتی، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جمع کرکے ان سے مشورہ طلب کیا، بعض نے کہا: بعثت سے شمار کریں اور بعض نے کہا : ہجرت سے شمار کریں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہجرت نے حق وباطل کے درمیان فرق کیا ہے، لہٰذا ہجرت ہی سے تاریخ کا حساب کریں۔(٥)
بعض روایات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی سن ہجری کا آغاز جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ کی زندگی ہی میں ہوگیا تھا، لیکن سرکاری مرسلات میں اس کا باقاعدگی سے اندراج حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ہوا، علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔(٦)
اسلامی سال کی تعیین ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں کی گئی؟
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت کے چوتھے یا پانچویں سال جب تاریخ کا مسئلہ زیر بحث آیا، تو صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین کے سامنے چار ایسے واقعات تھے، جن سے تاریخ اسلامی کی ابتداء کی جاسکتی تھی۔
1۔ ولادتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
2۔ بعثتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
3۔ ہجرتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
4۔ وفاتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔
مگر اکابر صحابہ کرام ( حضرت عمر، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہم) نے ہجرت ہی کو ترجیح دی، کیونکہ ولادت اور بعثت کی تعیین میں اختلاف ممکن تھا، جبکہ وفات سے عمداً اعراض کیا گیا، کیونکہ اس سے ہمیشہ افسوس اور غم کا اظہار ہوتا، لہذا واقعہ ہجرت سے تاریخ کی تعیین کی گئی۔(٧)
ہر نئے اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہمیں ہجرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم واقعہ کی یاد دلاتا ہے، اور اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ اگر مسلمانوں کو دین کی سربلندی کی خاطر مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑے، ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جائیں، اپنے دین وایمان کی حفاظت میں اپنا گھر بار سب کچھ لٹانا پڑے، تو قربان کردیں، لیکن اپنی استقامت میں لغزش پیدا نہ ہونے دیں، اور اپنے دین و ایمان پر حرف نہ آنے دیں۔
2۔ محرم چار عظمت والے مہینوں میں سے ہے:
محرم کا مہینہ ان چار مہینوں میں سے ہے، جن کو اللہ تعالی نے "اشہُر حُرُم" یعنی حرمت والے مہینے قرار دیا ہے۔
سورة توبہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ مہینے ہے۔ جو اللہ کی کتاب (یعنی لوح محفوظ) کے مطابق اس دن سے نافذ چلی آتی ہے، جس دن اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا تھا۔ ان (بارہ مہینوں) میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔(التوبۃ، آیت نمبر:36)(٨)
اس کی تفصیل حضرت ابو بکرہؓ کی روایت میں اس طرح آئی ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک زمانہ پھر اپنی پہلی اسی ہیئت پر آگیا ہے، جس پر اللہ تعالیٰ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا تھا۔ سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے، ان میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں۔ تین تو لگاتار یعنی ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور چوتھا رجب مضر جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان میں پڑتا ہے۔(٩)
ان مہینوں کو اشہُر حُرُم کہنے کی وجہ:
ان مہینوں کو حرمت والا مہینہ دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا:
ایک اس لیے کہ اس میں قتل وقتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے، البتہ ان میں سے پہلا حکم تو شریعتِ اسلام میں منسوخ ہوگیا، جبکہ دوسرا حکم ادب واحترام اور عبادت گزاری کا اہتمام، شریعت میں اب بھی باقی ہے۔(١٠)
ماہ محرم میں عبادت کی فضیلت اور برے اعمال اور گناہ کی شدت:
محرم اور باقی حرمت والے مہینوں میں نیک اعمال کرنا دوسرے مہینوں کی بنسبت زیادہ افضل ہے، اور ان مہینوں میں ظلم (گناہ) کرنا، دوسرے مہینوں کی بنسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔
امام ابوبکر جصاص نے لکھا ہے:"ان بابرکت مہینوں میں جو شخص عبادت کرتا ہے، اس کو دوسرے مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق ہوجاتی ہے، اور جو شخص ان مہینوں میں گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے گا، تو اس کے لیے سال کے باقی مہینے بھی گناہوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے"۔(١١)
اس لیے ان مہینوں میں عبادت کرنے اور گناہوں سے بچنے کے انوار و برکات سے فائدہ اٹھانے کی سعی و کوشش کرنی چاہیے۔
3۔محرم کے مہینے میں روزے کی فضیلت:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے مہینے کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔(١٢)
ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث شریف میں پورے ماہ محرم کے روزے مراد ہیں، لہذا روزے رکھنے کی یہ فضیلت صرف دس محرم کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ پورے مہینے میں کسی بھی دن روزہ رکھنا فضیلت کا باعث ہے۔ (١٣)
4۔ محرم اللہ تعالی کا محترم مہینہ ہے:
مہینے تو سارے ہی اللہ تعالی کے ہیں، لیکن اس مہینے کی فضیلت اور عظمت کو واضح کرنے کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اللہ تعالی کا مہینہ کہا، کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مہینہ ہے۔
علامہ ابن رجب حنبلی لکھتے ہیں کہ محرم کا نام جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "شھر اللہ" رکھا ہے، اللہ تعالی کی طرف اس کی یہ اضافت اور نسبت اس کے شرف اور فضیلت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ مخلوق میں سے اللہ تعالی کی طرف کسی خاص چیز ہی کی نسبت ہوسکتی ہے، جیسے جناب محمد، ابراہیم، اسحاق ، یعقوب اور دیگر انبیاء کرام علیھم السلام کی نسبت اللہ تعالی کی طرف بندے ہونے کے ساتھ ہے، اسی طرح کعبة اللہ اور صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی نسبت اپنی طرف فرمائی اور یہ مہینہ بھی اللہ تعالی کی طرف نسبت کرتے ہوئے خاص کیا گیا، اسی طرح اعمال میں سے روزے کی نسبت بھی اللہ تعالی کی طرف کی گئی تو ممکن ہے اس خاص عمل یعنی روزے کی وجہ سے اللہ تعالی کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس مہینے کی نسبت اللہ تعالی کی طرف کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اس کی حرمت اللہ تعالی کی طرف سے ہے، کسی دوسرے کو اختیار نہیں کہ اس کی حرمت تبدیل کرے، جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگ اس کو لڑائی کے لیے حلال کرلیتے اور اس کی جگہ صفر کو حرام قرار دیتے تھے تو اس طرف اشارہ کیا کہ یہ اللہ تعالی کا مہینہ ہے، اسی نے اس کو محترم بنایا ہے، لہذا مخلوق میں سے کسی کے لیے اس میں تغیر اور تبدل جائز نہیں ہے۔(١٤)
5۔ محرم کا مہینہ اشھر حرم میں افضل مہینہ ہے
حسن بصری اور متاخرین علماء کے نزدیک محرم کا مہینہ حرمت والے مہینوں ( ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب ) میں سے سب سے افضل مہینہ ہے۔
حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اسلامی سال کی ابتداء بھی "اشھرحرم" سے کی اور اختتام بھی "اشھرحرم" پر کیا، سال بھر کے مہینوں میں رمضان کے بعد اللہ تعالی کے نزدیک افضل ترین مہینہ محرم ہی کا ہے، اس کی شدت حرمت کی وجہ سے" اس کو "شھر اللہ الاصم" (اللہ تعالی کا بہرا مہینہ ) کہا گیا ہے۔ (١٥)
6۔ اللہ تعالی نے یکم محرم کی فجر کی قسم کھائی ہے
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں محرم کے مہینہ کی اہمیت کو بتانے کے لیے یکم محرم کی فجر کی قسم کھائی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
قسم ہے فجر کے وقت کی، اور دس راتوں کی، اور جفت کی اور طاق کی۔ (الفجر، آیت نمبر:1،2،3)(١٦)
رئیس المفسرین حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس آیت میں فجر سے مراد یکم محرم کی فجر ہے، کیونکہ یہ سال کی پہلی فجر ہے۔ (١٧)
اور امام قتادہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں فجر سے مراد یکم محرم کی فجر ہے۔(١٨)
عاشورہ یعنی دس محرم کی فضیلت:
دس محرم کا دن انتہائی محترم، مکرم اور بابرکت دن ہے۔
عوام میں اس دن کی فضیلت سے متعلق بہت سی من گھڑت اور غیر مستند باتیں مشہور ہیں، لیکن صحیح احادیث کے مجموعے سے درج ذیل فضائل کا پتہ چلتا ہے۔
1۔ مبارک دن ہے۔
2۔ اس دن موسی علیہ السلام کو فرعون سے نجات ملی۔
3۔ موسی علیہ السلام اس دن بطور شکرانہ روزہ رکھتے تھے۔ (١٩)
4۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن روزہ رکھا کرتے تھے، اور دوسروں کو بھی اس دن روزہ رکھنے کی ترغیب دیتے تھے۔(٢٠)
5۔اس دن کعبہ کو غلاف پہنایا جاتا تھا۔(٢١)
6.اس دن اہل خیبر روزہ رکھتے تھے اور اس دن کو بطور عید مناتے تھے۔(٢٢)
7۔قریش مکہ بھی زمانہ جاہلیت میں اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔(٢٣)
دس محرم کے روزے کی فضیلت:
1۔ سال بھر کے گناہوں کا کفارہ
حضرت ابوقتادہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ سے امید رکھتا ہوں کہ عاشوراء کے دن کا روزہ ایک سال پہلے کے گناہ مٹا دے گا“۔(٢٤)
2۔ رمضان کے بعد افضل ترین روزہ
مسلم شریف میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے عاشورہ کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: میں نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دن کو افضل جان کر روزہ رکھا ہو، سوائے عاشورہ کے، اور نہ ہی کسی مہینے کا سوائے رمضان کے۔ یعنی دنوں میں عاشورہ اور مہینوں میں رمضان کو افضل مانتے تھے۔(٢٥)
عاشورہ کے روزے کی حیثیت مختلف ادوار میں:
احادیث مبارکہ کے مجموعے سے ثابت ہوتا یے کہ عاشورہ کے روزہ کی حیثیت مختلف ادوار میں مختلف رہی ہے: (٢٦)
پہلی حیثیت:خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں اس دن روزہ رکھا، لیکن لوگوں کو اس کی ترغیب نہیں دی، جیسا کہ بخاری شریف حدیث نمبر ( ٢٠٠٢) میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے۔
دوسری حیثیت: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو دیکھا کہ اہل کتاب عاشورہ کی تعظیم کرتے ہیں اور اس دن کا روزہ رکھا کرتے ہیں، تو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو بھی حکم دیا، اور اس قدر تاکید کی کہ لوگ اپنے بچوں کو بھی روزہ رکھوانے لگے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے۔ (دوسرے سال) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کو دیکھا کہ وہ عاشوراء کے دن روزہ رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کا سبب معلوم کیا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک اچھا دن ہے۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن (فرعون) سے نجات دلائی تھی، اس لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر موسیٰ علیہ السلام کی (خوشی میں شریک ہونے میں) ہم تم سے زیادہ مستحق ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو بھی اس کا حکم دیا۔(٢٧)
حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ عاشورہ کی صبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو، وہ دن کا باقی حصہ (روزہ دار کی طرح) پورا کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو، وہ روزے سے رہے۔
ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی (رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے۔ انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آ جاتا۔(٢٨)
تیسری حیثیت:جب رمضان کے روزے فرض ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اس دن کا روزہ رکھنے اور نہ رکھنے میں اختیار دے دیا۔
صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوم عاشورہ کا روزہ رکھا اور اس کا حکم بھی دیا تھا، مگر جب ماہ رمضان کے روزے فرض ہو گئے، تو عاشورہ کا روزہ بطور فرض چھوڑ دیا گیا، حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عاشورہ کے دن روزہ نہ رکھتے، مگر جب ان کے روزے کا دن ہی یوم عاشورہ آن پڑتا۔
یعنی معمول کے مطابق جب حضرت عبداللہ بن عمر کے روزے کا دن ہوتا، مثلا: پیر یا جمعرات اور عاشورہ بھی اس دن آن پڑتا، تو آپ روزہ رکھ لیتے۔(٢٩)
چوتھی حیثیت:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے یہ فرمایا کہ اگر میں آئندہ سال زندہ رہا، تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا، بلکہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور ملاؤں گا۔
صحیح مسلم میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کے دن کا روزہ رکھا اور اس دن کے روزے کا حکم دیا، تو صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! یہ دن تو ایسا ہے کہ یہود و نصاریٰ اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اگلا سال آئے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھیں گے۔“ آخر اگلا سال نہ آنے پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما گئے۔(٣٠)
یوم عاشورہ کے روزہ کا حکم:
فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ جو شخص محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھے، تو مستحب یہ ہے کہ وہ اس کے ساتھ ایک روزہ اور بھی رکھے، چاہے نو محرم کا روزہ ہو یا گیارہ کا۔(٣١)
کیا صرف دس محرم کا روزہ رکھنا گناہ ہے؟
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھنا گناہ ہے، لہذا یوم عاشوراء سے پہلے یا بعد میں ایک روزہ ملایا جائے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ دس محرم کے ساتھ ایک اور روزہ ملانا لازم اور ضروری نہیں، بلکہ صرف اولیٰ اور افضل ہے، کیونکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فضیلت بیان کی ہے، وہ صرف دس محرم کے روزے ہی سے حاصل ہوتی ہے، البتہ یہود کی مشابہت سے بچنے کے لیے ایک اور روزہ ملانا ایک اضافی فضیلت اور مستحب درجے کا عمل ہے۔
بعض فقہاء نے تنہا دس محرم کے روزے کو مکروہ تنزیہی کہا ہے، لیکن اکثر ائمہ کے نزدیک مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے، اس لئے کہ مسلمانوں کے ذہن میں تنہا عاشوراء کے دن روزہ رکھنے میں یہودیت کی مشابہت کا وہم وگمان بھی نہیں ہوتا، لہٰذا جو شخص عاشوراء سے پہلے یا بعد میں ایک روزہ رکھنے کی ہمت رکھتا ہو تو وہ پہلے یا بعد میں ایک روزہ ملا کر رکھے اور اولیت وافضلیت حاصل کرے، لیکن جو ہمت نہیں رکھتا ہو، یا اور کوئی عذر ہو، تو اسے تنہا عاشوراء کا روزہ رکھ لینا چاہیے، تاکہ اس کی فضیلت سے محرومی نہ ہو۔(٣٢)
حضرت محدث العصر علامہ محمد يوسف بنورى رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ عاشوراء کے روزہ کی تین شکلیں ہیں:
(۱) نویں، دسویں اور گیارہویں تینوں کا روزہ رکھا جائے۔
(۲) نویں اور دسویں یا دسویں اور گیارہویں کا روزہ رکھا جائے۔
(۳)صرف دسویں تاریخ کا روزہ رکھا جائے۔
ان میں پہلی شکل سب سے افضل ہے، اور دوسری شکل کا درجہ اس سے کم ہے، اور تیسری شکل کا درجہ سب سے کم ہے، تو حضرت شاہ انور شاہ کشمیری صاحب نے فرمایا کہ تیسری شکل کا درجہ جو سب سے کم ہے، اسی کو فقہاء نے کراہت سے تعبیر کردیا ہے، ورنہ جس روزے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا ہو اور آئندہ نویں کا روزہ رکھنے کی صرف تمنا کی ہو، اس کو کیسے مکروہ کہا جاسکتا ہے۔ (٣٣)
خلاصہ کلام:
دس محرم یعنی عاشورہ کے روزے کے ساتھ ایک اور روزہ نو محرم یا گیارہ محرم کا ملانا افضل اور بہتر ہے، تاہم اگر کسی نے عذر کی وجہ سے صرف دس محرم کا روزہ رکھ لیا، تو وہ اس کی فضیلت سے محروم نہیں ہوگا۔
یوم عاشورہ کو اپنے گھر والوں پر فراخی کی فضیلت
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص عاشوراء کے دن اپنے اہل وعیال پر کھانے پینے کے سلسلے میں فراخی اور وسعت کرے گا تو اللہ تعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں وسعت عطا فرمائیں گے۔(٣٤)
اہل و عیال پر وسعت سے متعلق روایت کا ثبوت
واضح رہے کہ عاشورہ کے دن وسعت والی راویت پانچ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم(حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ،حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ) سے مرفوعا اور حضرت عمر سے موقوفا، اور ایک تابعی کی روایت سے مرسلا منقول ہے۔ اور یہ روایات شعب الایمان للبیھقی، (٣٥)اور الاستذکار لابن عبد البر(٣٦) اور التوسعة على العيال لأبي زرعة(٣٧) میں وارد ہیں۔
بعض علمائے حدیث نے اس حدیث کی تمام اسانید وطرق پر جرح کرتے ہوئے اسے باطل یا موضوع( من گھڑت ) کہا ہے، لیکن جمہور محدثین کرام نے اس کو معتبر مانا ہے اور اسے قابل عمل قرار دیا ہے۔
چنانچہ امام بیہقی شعب الایمان میں تمام احادیث نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
یہ تمام روایات اگرچہ ضعیف ہیں، لیکن چوں کہ ایک دوسرے کی تائید کرتی ہیں، اس لیے مجموعی اعتبار سے ان میں قوت آجاتی ہے۔(٣٨)
علامہ ابوالفضل عراقی، علامہ سخاوی، علامہ سیوطی، علامہ ابن العراق کنانی ، علامہ طاہر پٹنی، ملا علی قاری، امام عجلونی اور علامہ عبد الحی لکھنوی رحمہم اللہ نے اس حدیث کو معتبر اور قابل عمل قرار دیا ہے۔(٣٩)
محدثین کرام کے علاوہ چاروں فقہائے کرام کے مسلک کی کتب سے بھی عاشورہ کے دن اہل و عیال پر وسعت کا ثبوت ملتا ہے۔(٤٠)
عملی تجربہ سے ثبوت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور امام یحیی بن سعید اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:” ہم نے اس حدیث کاعملی تجربہ کیا تو ایسے ہی پایا۔(٤١)
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں : “ہم نے پچاس، ساٹھ سال اس حدیث کا عملی تجربہ کیا، تو اسے صحیح پایا۔(٤٢)
ابراہیم بن منتشر کہتے ہیں کہ ہم نے ساٹھ سال اس حدیث کا عملی تجربہ کیا، تو اسے صحیح پایا۔(٤٣)
خلاصہ کلام:
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ احادیث مبارکہ سے دس محرم کے دن صرف دو چیزیں ثابت ہیں:
١. دس محرم کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک روزہ نو یا گیارہ کا ملانا بہتر ہے۔
٢. دس محرم کو اپنے اہل وعیال، ملازمین وغیرہ پر عام دنوں کے مقابلے میں نان نفقہ، کھانے پینے، لباس پوشاک اور دیگر ضروریات اور اخرجات سے متعلق وسعت اور فراخی کرنا۔
اس پر عمل کرتے ہوئے چند باتوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
١. یہ عمل مستحب ہے، واجب نہیں۔
"مستحب" کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ کام کرلیا جائے، تو ثواب ہے اور نہ کیا جائے، تو کوئی گناہ نہیں ہے۔
لہذا اگر کوئی شخص اس پر عمل کرلے تو باعث فضیلت ہے، عمل نہ کرے تو کوئی گناہ نہیں۔
٢.اس دن کوئی خاص کھانا پکانا ثابت نہیں، ہر آدمی اپنی طبیعت اور حیثیت کے موافق بہتر سے بہتر کھانا اپنے گھر والوں کے لیے بناسکتا ہے۔
٣. اس کو باقاعدہ دعوت کی شکل نہ دی جائے کہ محلے میں اسے تقسیم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے، اس طرح اس کو ضروری بھی نہ سمجھا جائے اور نہ ہی اس کو شرعی حدود سے آگے بڑھایا جائے۔(٤٤)
دس محرم سے متعلق من گھڑت روایات:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر دس محرم کا روزہ فرض کیا، تم لوگ بھی یہ روزہ رکھو اور اپنے اہل وعیال پر رزق میں فراخی کرو، کیونکہ جو شخص اس میں فراخی کرے گا، سارا سال اس پر فراخی کی جائیگی، اس لیے کہ(1) اس دن اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی۔
( 2) اسی دن اللہ تعالی نے حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا۔
(3) اسی دن اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے نجات دی۔
(4) اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کو نجات ملی۔
( 5) اسی دن اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام پر تورات نازل فرمائی۔
( 6) اسی دن اللہ تعالی نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی قبول کی۔
( 7) اسی دن اللہ تعالی نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل سے نجات دی ۔
(8) اسی دن اللہ تعالی نے حضرت یعقوب علیہ السلام کی آنکھوں کی بینائی واپس لوٹائی۔
( 9)اسی دن اللہ تعالی نے حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری دور کی۔
(10) اسی دن اللہ تعالی نے حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات دی ۔
(11) اسی دن اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کے لیے سمندر کو دو حصے کرکے ان کو پار کروایا۔
(12) اسی دن اللہ تعالی نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے سارے گناہوں کی معافی کا اعلان فرمایا۔
( 13) اسی دن اللہ تعالی نے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول فرمائی۔
(14) جو اس دن کا روزہ رکھے گا، اس کے لیے چالیس سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔
پس اللہ تعالی نے مخلوقات میں سے سب سے پہلے عاشورہ کا دن بنایا، اور سب سے پہلی بارش آسمان سے اسی دن ہوئی، اور سب سے پہلی رحمت اس دن نازل ہوئی ۔
پس جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا، گویا اس نے پورے سال کا روزہ رکھا اور یہ انبیاء کرام کا روزہ ہے، اور جس نے اس رات عبادت کی، گویا اس نے ساتوں آسمانوں کی مخلوقات کے بقدر عبادت کی، اور جو چار رکعت نفل میں نماز فاتحہ کے بعد پچاس مرتبہ "قل ہو اللہ احد" پڑھے، تو اللہ تعالی گزشتہ پچاس سال اور آئندہ پچاس سالوں کے گناہ معاف فرمادے گا اور اللہ تعالی ملاء اعلی میں اس کے لیے ہزار ہزار نور کے منبر بنائے گا، اور جس نے اس دن کسی کو کچھ پانی پلایا، تو گویا اس نے پلک جھپکنے کے برابر رب کی نافرمانی نہیں کی، اور جو عاشورہ کے دن کسی غریب گھرانے کو کھلائے، وہ پل صراط پر روشنی کی چمک کی طرح گزرے گا، اور جو عاشورہ کے دن صدقہ کرے، تو گویا اس نے کبھی سائل کو واپس نہیں کیا، اور جو عاشورہ کے دن غسل کرے گا، اس کو مرض الموت کے سوا کوئی مرض لاحق نہ ہوگا، اور جو عاشورہ کے دن سرمہ لگائے گا، اس کی آنکھیں اس پورے سال خراب نہیں ہونگی، اور جس نے اس دن کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا، گویا اس نے اولاد آدم کے تمام یتیموں کے ساتھ بھلائی کی، اور جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا، اس کو ایک ہزار حج، ایک ہزار عمرے اور ایک ہزار شہیدوں کا ثواب دیا جائے گا، اور جس نے عاشورہ کا روزہ رکھا، اس کے لیے سات آسمانوں کا اجر لکھا جائے گا، اور عاشورہ کے دن ساتوں آسمان، ساتوں زمین، پہاڑ اور سمندر پیدا کئے گئے، اور اسی دن عرش بنایا گیا، اور عاشورہ کے دن قلم کو پیدا کیا گیا، اور عاشورہ کے دن حضرت جبرائیل کی پیدائش ہوئی، اور عاشورہ کے دن حضرت عیسی علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھایا گیا، اور عاشورہ کے دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت دی گئی اور قیامت کا دن عاشورہ کا دن ہوگا، اور جس نے اس دن مریض کی عیادت کی، گویا اس نے اولاد آدم کے تمام مریضوں کی عیادت کی۔(٤٥)
مذکورہ بالا روایت کا حکم:
علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ ان روایات کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ ان روایات کے موضوع (من گھڑت ) ہونے میں کوئی بھی عقل مند شک نہیں کرے گا، گھڑنے والے نے کمال کردیا، کیسے کیسے مخفی گوشوں سے پردہ اٹھایا اور اس کو ذرا بھی شرم نہیں آئی کہ کتنی ناممکن بات کہہ رہا ہے کہ عاشورہ وہ پہلا دن ہے، جسے اللہ تعالی نے تخلیق ایام میں سب سے پہلے پیدا کیا، یہ کتنا بے وقوف ہے کہ جس دن کا نام ہی عاشورہ(دسواں دن ) ہے، وہ تخلیق ایام میں پہلا دن کیسے ہوسکتا ہے، جبکہ اس کا دسواں دن ہونے کے لیے اس پہلے نو دن کا وجود ضروری ہے۔۔۔۔۔۔ میرا خیال یہ ہے کہ احادیث بنانے والوں نے احادیث گھڑ کر ان کو ثقہ راویوں کے نام منسوب کر دیا ہے۔(٤٦)
اس روایت کے ہم معنی روایات:
اسی طرح کچھ الفاظ کے فرق ساتھ ایک روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے طرف بھی منسوب ہے۔(٤٧)
ابن جوزی فرماتے ہیں کہ یہ بغیر کسی شک کے یہ حدیث من گھڑت ہے۔
اس روایت کی سند میں ایک روای "حبیب بن ابی حبیب" ہے، جس کے بارے میں ابن عدی کہتے ہیں کہ یہ روایات گھڑتا تھا اور ابوحاتم کہتے ہیں کہ یہ روایت باطل اور بے بنیاد ہے اور حبیب مرو کا رہنے والا تھا اور حدیثیں گھڑ کر ثقہ راویوں کی طرف منسوب کرتا تھا ، اس کی روایات سوائے اس پر تنقید کے نقل کرنا جائز نہیں۔(٤٨)
عاشورہ کے دن کی طرف منسوب انبیاء علیہم السلام کے واقعات کی حقیقت
ان واقعات میں سے پایۂ ثبوت تک پہنچنے والا صرف حضرت موسی علیہ السلام کی فرعون سے نجات کا واقعہ ہے، جو بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما، کتب احادیث میں صحیح سند سے مروی ہے۔
اس کے علاوہ کچھ واقعات اسانید ضعیفہ سے وارد ہوئے ہیں، جن کو کسی درجے میں قبول کیا جاسکتا ہے، علامہ عبدالحیی لکھنوی نے لکھا ہے۔ وہ یہ ہیں :
۱۔ اللہ تعالی نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول دس محرم کو قبول فرمائی۔
۲۔ حضرت نوح علیہ السلام کو طوفان سے نجات ملی اور ان کی کشتی جودی پہاڑ پر رکی ۔
۳۔ فرعون کے جادوگروں کی توبہ قبول ہوئی۔
۴۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔
علامہ عبدالحیی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ باقی جتنی بھی طویل احادیث ہیں، جن میں عاشورہ کی طرف منسوب ماضی اور مستقبل کے واقعات کا تذکرہ ہے، جن کو بہت سے مورخین اور ارباب سلوک جیسے فقیہ ابو اللیث سمرقندی نے تنبیہ الغافلین میں ذکر کیا ہے، وہ سب غیر مستند، جھوٹے اور من گھڑت ہیں۔(٤٩)
(حضرت مولانا محمد طلحہ بلال منیار صاحب کے مضمون سے اختصار اور کچھ اضافہ کے ساتھ )
بدعات و منکرات محرم:
کیا محرم کی فضیلت شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہے؟
بہت سے لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ماہِ محرم یا دس محرم کو فضیلت حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور شہدائے کربلا کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے،یہ بات کئی وجوہات کی بناء پر سراسر باطل اور غلط ہے۔
١.کسی وقت، کسی دن یا مہینہ کی عظمت وفضلیت کی اصل وجہ اللہ تعالی کی خاص تجلیات، انوار و برکات اور رحمتوں کا متوجہ اور ظاہر ہونا ہے، اور بعض اہم واقعات کا اس وقت میں واقع ہوجانا بھی دوسرے درجہ میں فضلیت کا باعث ہو جاتا ہے، جیسا کہ رمضان میں قرآن مجید کا نازل ہونا اور شب قدر وغیرہ کا واقع ہونا وغیرہ۔
اور کسی دن میں فضیلت کا ثبوت قرآن و سنت ہی سے معلوم ہوسکتا ہے، اپنی طرف سے بیان نہیں کی جاسکتی ہے۔جبکہ قرآن وحدیث سے یہ بات ثابت ہی نہیں کہ محرم اور عاشورہ کو فضیلت حضرت حسین کی شہادت کی وجہ سے ملی۔
٢. محرم کا مہینہ ان چار حرمت والے مہینوں میں سے ہے، جن کو اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی پیدائشں کے وقت ہی سے فضیلت بخشی، جیسا کہ سورة توبہ کی آیت میں ذکر ہے، اور اسی طرح تفصیل سے احادیث مبارکہ ذکر ہوچکی کہ یہود ونصاریٰ اور قریش مکہ بھی اس دن کو عظمت اور احترام والا سمجھتے تھے، اور خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کی فضیلت بھی بیان فرمائی، اور اس دن روزہ رکھنے کو اجر کا باعث قرار دیا، جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سانحہ بہت بعد میں سن 61 ہجری میں پیش آیا، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ محرم اور عاشورہ کو فضیلت شہادت حسین رضی اللہ عنہ کی وجہ سے ہو، البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے مقبول بندے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے لیے اس محترم و معظم دن کا انتخاب فرمایا، لہذا ماہِ محرم یا عاشورہ کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے فضیلت حاصل نہیں ہوئی، بلکہ خود حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو اس دن شہید ہونے کی وجہ سے اور زیادہ فضیلت حاصل ہوئی۔(٥٠)
کیا محرم غم اور سوگ منانے کا مہینہ ہے؟
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس مہینے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ، ان کے اہل و عیال اور ان کے جانثار ساتھیوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر دیا گیا تھا، اس لیے یہ مہینہ غم کا مہینہ ہے اور وہ لوگ اس کو سوگ کا مہینہ قرار دے کر خوشیوں کے کاموں سے اجتناب کرتے ہیں، شادی بیاہ بھی نہیں کرتے، مکان کی تعمیر بھی نہیں کرتے، خوشی کی کوئی بھی تقریب نہیں کرتے، زیب وزینت اختیار نہیں کرتے، نئے کپڑے نہیں پہنتے اور غم کے اظہار کے لیے اس مہینے میں سیاہ لباس پہنتے ہیں، سوگ مناتے ہیں۔
شریعت اسلامیہ میں ان سب باتوں کی کوئی اصل نہیں ہے، اور اس مہینے کو غم کا مہینہ قرار دینا درج ذیل وجوہات کی بنا پر باطل ہے۔
1۔ شہادت کی بنا پر شہید کی یاد میں غم منانے کا عمل جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ،
بے شک نواسے رسول، جگر گوشہ بتول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ ایک درد ناک، اور روح فرسا واقعہ ہے، لیکن حضرت حسین اور کسی بھی انتقال کرنے والے اور شہید ہو جانے والے مؤمن کی یاد میں کسی دن یا مہینے کو غم کا دن یا مہینہ قرار دینا بے بنیاد ہے، کسی مہینے کو غم کا مہینہ قرار دینا قرآن و سنت اور شرعی دلائل سے بالکل ثابت نہیں۔
2۔ کسی مہینے یا دن میں غم کا واقعہ رونما ہونے سے وہ غم کےلیے مخصوص نہیں ہوجاتا کہ اس دن کو ہمیشہ غم کے طور پر منایا جائے، اور صدیاں گزرنے کے باوجود اس کو غم کا مہینہ کہا جائے، اگر ایسا ہو، تو پھر اسلامی تاریخ ایسے بہت سے اندوہناک سانحات و واقعات سے بھری پڑی ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام کی المناک شہادتیں ہوئی ہیں، جیسا کہ حضرت حمزہ، حضرت صہیب، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی اور دیگر بہت سے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی دردناک شہادتیں امت کی تاریخ کا حصہ ہیں، تو پھر ان کی شہادتوں کی وجہ سے تو سال بھر کو غم والا قرار دے دینا چاہیے، ظاہر ہے کہ اسے کوئی بھی تسلیم نہیں کرسکتا ہے، بلکہ سرکارِ دو عالم رحمتِ کائنات حضور ﷺ کے وصال کے واقعے کے مقابلے میں امت کے لیے کونسا سانحہ بڑا ہوسکتا ہے؟
پیرانِ پیر حضرت سید شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی وجہ سے اس دن کو غم والم کا دن تصور کرلیا جائے، تو پیر کا دن اس سے بھی زیادہ غم کرنے کا دن ہے، کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اسی دن ہوئی اور اسی دن خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے وفات پائی۔(٥١)
3۔ کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں۔
واضح رہے کہ کسی شخص کی وفات پر اس کے عزیز واقارب کے لیے تین دن تک سوگ منانے کی اجازت ہے اور تین دن سے زیادہ سوگ منانا جائز نہیں، البتہ جس عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے، تو وہ چار ماہ دس دن سوگ کرے گی۔
حدیث شریف میں آتا ہے:حضرت زینب بنت ابی سلمہ ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں کہ : میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ام حبیبہ کے پاس گئی، جبکہ ان کے والد گرامی حضرت ابو سفیان بن حرب فوت ہوئے، سیدہ ام حبیبہ نے وہ خوشبو منگوائی جس میں خلوق وغیرہ کی زردی تھی، وہ خوشبو ایک لونڈی نے ان کو لگائی۔ انہوں نے خود بھی اسے اپنے رخساروں پر لگایا، اس کے بعد کہا: اللہ کی قسم! مجھے خوشبو کے استعمال کی خواہش نہ تھی، لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ نے فرمایا: “اللہ تعالٰی اور روز قیامت پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ منائے، مگر شوہر کا چار ماہ دس دن تک سوگ منائے۔ ”(٥٢)
کیا محرم نحوست کا مہینہ ہے ؟
اسلام میں کسی دن، کسی مہینہ، کسی سال یا کسی چیز کی نحوست کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، دین اسلام میں بعض خصوصیات کی بنا پر بعض اوقات کے فضائل وبرکات کو تو بیان کیا گیا ہے، لیکن کسی زمانے اور وقت کی نحوست کا اسلام میں کوئی تصور نہیں ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے، حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں، رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔(٥٣)
لہذا پتہ چلا کہ نحوست وسعادت کا سبب زمانہ وغیرہ نہیں ہے، نہ کوئی دن منحوس ہے، نہ کوئی مہینہ، نہ کسی مکان میں نحوست ہے، نہ کسی انسان میں، بلکہ اصل نحوست معصیت اور گناہ کے اعمال میں ہے۔ لہذا ماہ محرم کو منحوس سمجھنا، جیسا کہ لوگ سمجھتے ہیں یہ باطل اور بے بنیاد عقیدہ ہے، اسلام میں اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔
محرم میں شادی کرنے کا حکم
محرم کے مہینے میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے سانحہ کی وجہ سے بعض لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ہے، لہذا اس میں شادی بیاہ اور خوشی کی تقریبات کرنا جائز نہیں ہے اور محرم کے مہینے میں خوشی کی تقریبات منانے سے وہ کام منحوس ہوجاتا ہے، اس میں خیر و برکت نہیں ہوتی اور شادی ناکام ہوجاتی ہے، حالانکہ یہ سوچ بالکل درست نہیں ہے، جیسا کہ گزشتہ تفصیل سے معلوم ہوچکا کہ محرم کا مہینہ عظمت اور حرمت والا بابرکت مہینہ ہے۔
فتاوی رحیمیہ میں ہے کہ ماہ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنا نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے۔ اسلام نے جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا ہو، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کا خطرہ ہے۔(٥٤)
فتاوی حقانیہ میں لکھا ہے کہ :محرم الحرام بھی سال کے دوسرے مہینوں کی طرح ایک مہینہ ہے، جس طرح سال کے دوسرے مہینوں میں شادی بیاہ کرنا جائز ہے، اسی طرح محرم میں بھی جائز ہے، کسی بھی دلیلِ شرعی سے حرمت و ممانعت ثابت نہیں۔ روافض اور شیعوں نے اس قبیح اور بے بنیاد مسئلہ کو لوگوں میں رائج کر رکھا ہے، مسلمانوں کے لئے لازم ہے کہ وہ اس بدعت کو ترک کردیں۔(۵۵)
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:شریعت میں کوئی مہینہ ایسا نہیں جس میں شادی سے منع کیا گیا ہو۔(٥٦)
مولانا سیف اللہ خالد رحمانی صاحب لکھتے ہیں: اسلام میں کوئی مہینہ، کوئی دن یا کوئی وقت منحوس اور نامبارک نہیں، اور محرم کا مہینہ تو بہت سی فضیلتوں کاحامل ہے، خود یوم عاشورہ کے بھی بڑے فضائل ہیں، سوء اتفاق ہے کہ اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے اور محبوب حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت کا دل دوز واقعہ پیش آیا، لیکن اس واقعہ کی وجہ سے یہ سمجھ لینا کہ اس دن یا اس مہینہ میں شادی نہ کی جائے، نہایت ہی غلط ہے، کیونکہ اسلام تو دلیروں اور جانثاروں کا دین ہے، کوئی مہینہ اور کوئی تاریخ نہیں، جس میں کسی صحابی، یا اسلام کے کسی بڑ ے مجاہد اور سپوت کی شہادت کا واقعہ پیش نہ آیا ہو، تو کیا پھر اس کی وجہ سے ان تمام مہینوں اور دنوں میں نکاح سے پرہیز کیا جائے گا ؟ اسلام سے پہلے شوال کے مہینہ میں عرب شادی بیاہ نہیں کرتے تھے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شوال ہی میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا اور شوال ہی میں آپ کی رخصتی ہوئی، اس لئے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بات کو پسند کرتی تھیں کہ ان کے خاندان کی عورتوں کا نکاح شوال میں ہوا کرے، اس عمل سے یقینا آپ رضی اللہ عنہا کا مقصود یہ بھی رہا ہوگا کہ یہ بات کہ فلاں خاص مہینہ میں نکاح نہ کیا جائے، لوگوں کے ذہن سے نکل جائے، پس محرم کے مہینہ میں نکاح کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
دسویں محرم کو کھچڑا، حلیم وغیرہ پکانا
بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا،حلیم وغیرہ پکاتے ہیں۔
علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ نے اس بارے میں "البداية والنهاية" میں لکھا ہے کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملاکر پکاتے تھے۔ (٥٨)
معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا پکانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، اہل بیت سے الفت ومحبت رکھنے والوں کو اس رسم سے بچنا نہایت ضروری ہے۔
علامہ شامی نے “ردالمحتار” میں لکھا ہے کہ جب روافض نے عاشورہ کے دن حضرت سیدنا حسین کی شہادت کی وجہ سے غم کے اظہار اور ماتم وغیرہ کی بدعت کو اختیار کیا، تو جاہل سنی عوام نے ان کی دیکھا دیکھی مخصوص قسم کے کھانے حلیم، شربت وغیرہ بنانے کی بدعت کو گھڑ لیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مذکورہ بدعت، بدعت شنیعہ ہے، جس سے اجتناب ضروری ہے، اگر محرم الحرام کے مخصوص ایام میں پکائی جانے والی حلیم اور شربت کی سبیل غیر اللہ کے نام پر ہو، تو نص قرآنی ”وما اھل بہ لغیر اللہ“ کے تحت اس کا کھانا حرام ہے اور اس کی حرمت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح شدہ جانور کی حرمت میں کوئی فرق نہیں۔ اگر یہ حلیم و شربت وغیرہ اللہ تعالیٰ کے نام پر بنائی جائے اور سنّی بنائیں، تو یہ فی نفسہٖ تو حلال ہے، لیکن اس کے لئے کسی دن کی تخصیص (مثلاً یوم عاشورہ، ۱۲ ربیع الاول اور ماہِ رجب وغیرہ کی) کرنا اور التزام وغیرہ ایسے امور ہیں، جو سراسر بدعت اور گمراہی ہیں، لہٰذا اس سے احتراز لازم ہے۔
ان خاص ایام میں کہیں سے حلیم وغیرہ گھر میں بھیجی جائے، تو اسے نہ لینا چاہیئے، تاکہ اس سے بدعت کی تائید اور اشاعت میں معاونت نہ ہو، کیونکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:گناہ اور ظلم پر ایک دوسرے کی معاونت نہ کرو۔
لیکن اگر واپس کرنے میں فتنہ وفساد کا اندیشہ ہو، تو لے کر فقراء اور محتاجوں کو دے دیں، اس پر کوئی وبال نہ ہوگا۔ اکثر سنّی عوام بھی ان خاص ایام میں روافض کی دیکھا دیکھی حلیم وشربت وغیرہ بناتے ہیں، اس سے اس حکم میں کچھ تخفیف نہ ہوگی، کیونکہ مذکورہ امر روافض کے ساتھ مشابہت کے ساتھ ساتھ بدعت قبیحہ بھی ہے، جس سے اجتناب لازم اور ضروری ہے۔(٥٩)
سوچنے کی بات ہے کہ دسویں محرم کو شریعت میں روزہ رکھنے کا حکم ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا ہے، لہذا دن میں کھچڑا بنا کر لوگوں کو کھلانا پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے مقابلہ آرائی ہے، جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی، اور شام کو افطار کے وقت بعض روایات میں دسترخوان کشادہ کرنے کی ترغیب آئی ہے کہ دن بھر روزہ رکھ کر شام کو افطار میں حسب گنجائش اچھا کھانا گھروالوں کو کھلایا جائے، اور دن میں کھچڑا بنا کر لوگوں کو کھلاتے رہنا پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمان کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ خارجیوں (دشمنان اہل بیت ) کا شعار ہے۔(٦٠)
ماتم اور نوحہ کرنے کا حکم:
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینہ کوبی، چہرے کو پیٹنے، گریبان چاک کرنے، نوحہ اور ماتم کرنے کو زمانہ جاہلیت کے رسوم و رواج سےتعبیر کیا ہے، اور اس کام کو لعنت کا باعث، بلکہ کفر تک پہنچا دینے والا کہا ہے۔
صحیح مسلم میں روایت ہے:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: دو چیزیں ایسی ہیں جو کفر ہیں: ایک تو نسب میں طعنہ دینا، اور دوسرا میت پر نوحہ کرنا۔(٦١)
بخارى شريف میں ہے:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو (مصیبت کے وقت) چہرے کو پیٹے، گریبان کو پھاڑے
اور جاہلیت جیسا واویلا اور نوحہ کرے۔(٦٢)
اس کے علاوہ کئی احادیث مبارکہ میں واضح طور پر مصیبت کے وقت نوحہ کرنے، چیخنے چلانے، واویلا کرنے، جاہلیت جیسی باتیں کرنے، گریبان اور کپڑے پھاڑنے، چہرہ پیٹنے، چہرہ نوچنے اور ماتم کرنے جیسے، تمام غیر شرعی کاموں کی شدید مذمت اور ان سے متعلق سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں، اس لیے ایک مسلمان کو ان غیر شرعی کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ماتمی جلوس، اور تعزیہ کی مجالس میں شرکت کرنا
ماہ محرم کے ابتدائی دس دنوں میں بہت سے مسلمان بھی ماتم کی مجلسوں میں شریک ہوتے ہیں اور تعزیہ کے جلوس کو دیکھنے کے لیے بڑے شوق سے جاتے ہیں یا ٹی وی، موبائل فون وغیرہ پر تعزیے اور ماتمی جلوس کا نظارہ کرتے ہیں، حالانکہ اس میں کئی گناہ ہیں:
ایک گناہ تو اس میں یہ ہے کہ ان مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے سے دشمنانِ صحابہ اور دشمنان قرآن کے ساتھ مشابہت ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی قوم سے مشابہت کی، وہ انہی میں شمار ہوگا۔
دوسرا گناہ یہ ہے کہ دشمنان صحابہ کی تعداد بڑھتی ہے؛ جبکہ دشمنوں کی تعداد بڑھانا حرام ہے، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: جس نے کسی قوم کی تعداد میں اضافہ کیا، وہ بھی انہی میں شمار ہوگا۔
تیسرا گناہ یہ ہے کہ جس طرح عبادت کا کرنا اور دیکھنا اور اس سے خوش ہونا باعثِ اجر وثواب ہے، اسی طرح گناہوں کے کاموں کو بخوشی دیکھنا بھی گناہ ہے، ظاہر ہے کہ ماتم کی مجلس میں جانا اور تعزیہ نکالنا، یہ سب گناہ کے کام ہیں۔
چوتھا گناہ یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے، وہاں اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ایسی غضب والی جگہ پر جانا بھی گناہ سے خالی نہیں، غرض کہ ان مجلسوں اور جلوسوں سے بھی احتراز کرنا لازم ہے۔
(مستفاد از احسن الفتاویٰ، ج:١،ص: ٣٩٤ ط: ایچ ایم سعید )
محرم کے مہینے میں خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں تاریخ کو ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا
ماہ محرم خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں تاریخ میں بعض لوگ کھانا پکاکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں، یہ طریقہ بھی بالکل غلط ہے، اور اس مروجہ طریقے میں کئی قباحتیں ہیں:
1۔ جن ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے، اگر ان کو نفع ونقصان کا مالک سمجھا گیا اور ان کے نام سے وہ کھانا پکایا گیا تو یہ شرک ہے، اور ایسا کھانا ”مَا اُھلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ“ میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔
2۔ عموماً یہ خیال کیاجاتا ہے کہ جو چیز صدقہ میں دی جاتی ہے، میت کو بعینہ وہی ملتی ہے؛حالانکہ یہ خیال بالکل باطل ہے، میت کو وہ چیز نہیں پہنچتی؛ بلکہ اس کا ثواب پہنچتا ہے۔
3۔ ایصالِ ثواب میں اپنی طرف سے قیود لگائی گئی ہیں، مثلا صدقہ کی متعین صورت یعنی کھانا، مہینہ متعین، دن متعین، حالانکہ شریعت نے ان چیزوں کی تعیین نہیں فرمائی ہے، جو چیز چاہیں جب چاہیں صدقہ کرسکتے ہیں، شریعت کی دی ہوئی آزادی پر اپنی طرف سے پابندیاں لگانا گناہ اور بدعت، بلکہ شریعت کا مقابلہ ہے۔
(مستفاد از احسن الفتاوی،ج:٢، ص: ٣٩٢، ط: ایچ، ایم، سعید )
پانی یا شربت کی سبیل لگانا
بعض لوگ ماہ محرم اور بالخصوص دس محرم کو پانی اور شربت کی سبیل لگاتے ہیں اور راستوں پر بیٹھ کر گزرنے والے کو وہ پانی یا شربت پلاتے ہیں، تو اگرچہ پانی پلانا باعثِ ثواب اور نیکی کا کام ہے؛ لیکن اس ثواب کے کام کو صرف محرم کے مہینے کے ساتھ خاص کرنا اور اس مہینے کے اندر سبیل لگانے کو زیادہ اجر و ثواب کا موجب سمجھنا، بدعت اور ناجائز ہے۔
( مستفاد از فتاوی عثمانی، ج:1، ص:122 ط: معارف القرآن )
سیاہ لباس پہننا
سیاہ لباس پہننے میں کوئی حرج نہیں ہے، خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیاہ عمامہ، سیاہ چادر، سیاہ جبہ زیب تن فرمایا ہے،(٦٣) اس لیے سیاہ لباس پہننا منع نہیں، لیکن چونکہ محرم کے مہینے میں سیاہ رنگ کا لباس پہننا روافض کا شعار بن چکا ہے، اور وہ لوگ سیاہ لباس اظہار سوگ کی علامت کے طور پر پہنتے ہیں،(٦٤) اس وجہ سے ان دنوں میں اس لباس کو ترک کرنا چاہیے، تاکہ روافض کے ساتھ مشابہت نہ ہو، لیکن جہاں روافض کے ساتھ مشابہت کا اندیشہ نہ ہو، تو ایسا لباس پہننا جائز ہے۔(٦۵)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
(1) المطلع على ألفاظ المقنع: (ص: 191، ط: مكتبة السوادي)
"شهر الله المُحرَّم" وهو أول شهور العام، سمي محرما: لتحريم القتال فيه، وثبت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، أنه سماه: شهر الله.
(2) تفسير ابن كثير: (146/4، ط: دار طیبة)
ذَكَرَ الشَّيْخُ عَلَمُ الدِّينِ السَّخاوي فِي جُزْءٍ جَمَعَهُ سَمَّاهُ "الْمَشْهُورُ فِي أَسْمَاءِ الْأَيَّامِ وَالشُّهُورِ": أَنَّ الْمُحَرَّمَ سُمِّيَ بِذَلِكَ لِكَوْنِهِ شَهْرًا مُحَرَّمًا، وَعِنْدِي أَنَّهُ سُمِّيَ بِذَلِكَ تَأْكِيدًا لِتَحْرِيمِهِ؛ لِأَنَّ الْعَرَبَ كَانَتْ تَتَقَلَّبُ بِهِ، فَتُحِلُّهُ عَامًا وَتُحَرِّمُهُ عَامًا.
المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام للدكتور جواد علي: (95/16، ط: دار الساقي) كذا في عمدة الكتاب لأبي جعفر النَّحَّاس: (98/1، ط: دار ابن حزم)
وعلل بعضهم تسمية الأشهر بقوله: سمي المحرم محرمًا تأكيدًا لتحريمه، لأن العرب كانت تتعلب به، فتحله عامًا وتحرمه.
(3) المفصل فى تاريخ العرب قبل الإسلام للدكتور جواد علي: (121/16، ط: دار الساقي)
وكان أهل مكة يفتتحون سنتهم بالمحرم. فهو أول شهر عندهم من أشهر السنة. وقد أقر الإسلام هذا المبدأ، فجعل المحرم أول شهر من شهور السنة الهجرية.ويذكر أهل الأخبار أن أول من سمى الشهور المحرم وما بعده بأسمائها هذه هو"كلاب بن مرة
(4) تاریخ دمشق لابن العساكر: (45/1، ط: دار الفکر، بیروت)
عن ابن سيرين أن رجلا من المسلمين قدم من أرض اليمن فقال لعمر رأيت باليمن شيئا يسمونه التاريخ يكتبون من عام كذا وشهر كذا فقال عمر إن هذا لحسن فأرخوا فلما أجمع على أن يؤرخ شاور فقال قائل مولد النبي (صلى الله عليه وسلم) وقال قوم من المبعث وقال قائل حين خرج مهاجرا من مكة وقال قائل الوفاة حين توفي فقال أرخوا خروجه من مكة إلى المدينة ثم قال بأي شهر نبدأ فنصيره أول السنة فقالوا رجب فإن أهل الجاهلية كانوا يعظمونه وقال آخرون شهر رمضان وقال بعضهم ذو الحجة فيه الحج . وقال آخرون الشهر الذي خرج فيه من مكة إلى المدينة وقال آخرون الشهر الذي قدم فيه فقال عثمان أرخوا المحرم أول السنة وهو شهر حرام وهو أول الشهور في العدة وهو منصرف الناس عن الحج فصيروا أول السنة المحرم فكان أول ما أرخ في الإسلام من مهاجر النبي (صلى الله عليه وسلم) فقال الناس سنة إحدى وسنة اثنتين إلى يومنا هذا أو كان التاريخ في سبع عشرة ويقال في سنة ست عشرة في ربيع الأول.
(5) فتح الباري لابن الحجر: (268/7، ط: دار المعرفة)
وَذَكَرُوا فِي سَبَبِ عَمَلِ عُمَرَ التَّارِيخَ أَشْيَاءَ مِنْهَا مَا أَخْرَجَهُ أَبُو نُعَيْمٍ الْفَضْلُ بْنُ دُكَيْنٍ فِي تَارِيخِهِ وَمِنْ طَرِيقِهِ الْحَاكِمُ مِنْ طَرِيقِ الشَّعْبِيِّ أَنَّ أَبَا مُوسَى كَتَبَ إِلَى عُمَرَ إِنَّهُ يَأْتِينَا مِنْكَ كُتُبٌ لَيْسَ لَهَا تَارِيخٌ فَجَمَعَ عُمَرُ النَّاسَ فَقَالَ بَعْضُهُمْ أَرِّخْ بِالْمَبْعَثِ وَبَعْضُهُمْ أَرِّخْ بِالْهِجْرَةِ فَقَالَ عُمَرُ الْهِجْرَةُ فَرَّقَتْ بَيْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ فَأَرِّخُوا بِهَا.
(6) ذكر مبدأ التاريخ الهجري:
أخبرني شيخنا شيخ الإسلام البلقيني "شفاها" عن أبي إسحاق التنوخي أنا محمد بن عساكر "إجازة" عن عبد الرحيم بن تاج الأمناء أنا حافظ الإسلام أبو القاسم بن عساكر أنا أبو الكرم الشهرزوري وغيره "إجازة" أنا ابن طلحة أنا الحسن بن الحسين أنا إسماعيل الصفار أنا محمد بن إسحق ثنا "أبو عاصم" عن ابن جريج عن أبي سلمة عن ابن شهاب أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بالتاريخ يوم قدم المدينة في شهر ربيع الأول
"رواه يعقوب بن سفيان حدثنا يونس ثنا ابن وهب عن ابن جريج عن ابن شهاب أنه قال:التاريخ من يوم قدوم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة مهاجرا قال ابن عساكر: هذا أصوب والمحفوظ أن الآمر بالتاريخ عمر قلت: "وقفت على ما يعضد الأول فرأيت بخط ابن القماح في مجموع له: قال ابن الصلاح: "وقفت على كتاب في الشروط للأستاذ أبي طاهر ابن محمش "الزيادي" ذكر فيه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أرخ بالهجرة حين كتب الكتاب لنصارى نجران وأقر عليا أن يكتب فيه "إنه كتب لخمس من الهجرة".فالمؤرخ إذن رسول الله صلى الله عليه وسلم وعمر تبعه.
کذا فی الشماريخ في علم التاريخ للسيوطي: (ص: 11- 12، ط: مكتبة الآداب)
(7) فتح الباري لابن الحجر: (268/7، ط: دار المعرفة)
لِأَنَّ التَّارِيخَ إِنَّمَا وَقَعَ مِنْ أَوَّلِ السَّنَةِ وَقَدْ أَبْدَى بَعْضُهُمْ لِلْبُدَاءَةِ بِالْهِجْرَةِ مُنَاسَبَةً فَقَالَ كَانَتِ الْقَضَايَا الَّتِي اتُّفِقَتْ لَهُ وَيُمْكِنُ أَنْ يُؤَرَّخَ بِهَا أَرْبَعَةً مَوْلِدُهُ وَمَبْعَثُهُ وَهِجْرَتُهُ وَوَفَاتُهُ فَرَجَحَ عِنْدَهُمْ جَعْلُهَا مِنَ الْهِجْرَةِ لِأَنَّ الْمَوْلِدَ وَالْمَبْعَثَ لَا يَخْلُو وَاحِدٌ مِنْهُمَا مِنَ النِّزَاعِ فِي تَعْيِينِ السَّنَةِ وَأَمَّا وَقْتُ الْوَفَاةِ فَأَعْرَضُوا عَنْهُ لِمَا تُوُقِّعَ بِذِكْرِهِ مِنَ الْأَسَفِ عَلَيْهِ فَانْحَصَرَ فِي الْهِجْرَةِ۔
(8) القرآن الکریم: (التوبة، الایة: 36)
(9) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 4662) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 4406)
(10) معارف القرآن: (372/4، ط: ادارة المعارف)
(11) احکام القرآن: (308/4، ط: دار إحياء التراث العربي)
(12) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2756)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَرْفَعُهُ، قَالَ: سُئِلَ: أَيُّ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ بَعْدَ الْمَكْتُوبَةِ؟ وَأَيُّ الصِّيَامِ أَفْضَلُ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ؟ فَقَالَ: «أَفْضَلُ الصَّلَاةِ، بَعْدَ الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ، الصَّلَاةُ فِي جَوْفِ اللَّيْلِ، وَأَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ شَهْرِ رَمَضَانَ، صِيَامُ شَهْرِ اللهِ الْمُحَرَّمِ».
(13) مرقاة المفاتيح لملا علي القاري: (467/4، ط: دار الكتب العلمية)
وَيُمْكِنُ أَنْ يُقَالَ أَفْضَلِيَّتُهُ لِمَا فِيهِ مِنْ يَوْمِ عَاشُورَاءَ لَكِنَّ الظَّاهِرَ أَنَّ الْمُرَادَ جَمِيعُ شَهْرِ الْمُحَرَّمِ.
(14) لطائف المعارف لابن رجب: (ص: 81، ط: دار ابن کثیر، بیروت)
وقد سمى النبي صلى الله عليه وسلم المحرم شهر الله واضافته إلى الله تدل على شرفه وفضله فإن الله تعالى لا يضيف إليه إلا خواص مخلوقاته كما نسب محمدا وإبرهيم وإسحاق ويعقوب وغيرهم من الأنبياء إلى عبوديته ونسب إليه بيته وناقته
ولما كان هذا الشهر مختصا بإضافته إلى الله تعالى كان الصيام من بين الأعمال مضافا إلى الله تعالى فإنه له من بين الأعمال ناسب أن يختص هذا الشهر المضاف إلى الله بالعمل المضاف إليه المختص به وهو الصيام وقد قيل في معنى إضافة هذا الشهر إلى الله عز وجل: إنه إشارة إلى أن تحريمه إلى الله عز وجل ليس لأحد تبديله كما كانت الجاهلية يحلونه ويحرمون مكانه صفرا فأشار إلى شهر الله الذي حرمه فليس لأحد من خلقه تبديل ذلك وتغييره.
(15) لطائف المعارف لابن رجب: (ص: 78، ط: دار ابن کثیر، بیروت)
قد أختلف العلماء في اي أشهر الحرم أفضل، أفضلها شهر الله المحرم ورجحه طائفة من المتأخرين وروى وهب بن جرير عن قرة بن خالد عن الحسن قال: إن الله افتتح السنة بشهر حرام وختمها بشهر حرام فليس شهر في السنة بعد شهر رمضان أعظم عند الله من المحرم وكان يسمى شهر الله الأصم من شدة تحريمه.
(16) القرآن الکریم: (الفجر، الایة: 1- 2- 3)
(17) المحرر الوجيز في تفسير الكتاب العزيز لأبب محمد عبد الحق الأندلسي: (476/5، ط: دار الكتب العلمية)
وقال ابن عباس: أيضا: المراد فجر أول يوم من المحرم، لأنه فجر السنة.
(18) زاد المسير في علم التفسير لأبي الفرج بن الجوزي: (437/4، ط: دار الكتاب العربي، بيروت)
أنه أول يوم من المحرم تنفجر منه السنة قاله قتادة.
(19) صحیح البخاري: (رقم الحدیث:2004) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2625)
عن ابن عباس رضي الله عنه، قال:" قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فراى اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال: ما هذا؟ قالوا: هذا يوم صالح، هذا يوم نجى الله بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسى، قال: فانا احق بموسى منكم، فصامه وامر بصيامه.
(20) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2625)
عن جابر بن سمرة رضي الله عنه، قال: " كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرنا بصيام يوم عاشوراء، ويحثنا عليه، ويتعاهدنا عنده، فلما فرض رمضان، لم يامرنا، ولم ينهنا، ولم يتعاهدنا عنده.
(21) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 1592)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" كانوا يصومون عاشوراء قبل ان يفرض رمضان، وكان يوما تستر فيه الكعبة، فلما فرض الله رمضان، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من شاء ان يصومه فليصمه، ومن شاء ان يتركه فليتركه.
(22) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2621)
عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: كان اهل خيبر يصومون يوم عاشوراء، يتخذونه عيدا، ويلبسون نساءهم فيه حليهم وشارتهم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فصوموه انتم.
(23) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2637)
عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كانت قريش تصوم عاشوراء في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه، فلما هاجر إلى المدينة صامه وامر بصيامه، فلما فرض شهر رمضان، قال: " من شاء صامه ومن شاء تركه.
(24) سنن الترمذي: (رقم الحدیث: 252)
عن ابي قتادة، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " صيام يوم عاشوراء إني احتسب على الله ان يكفر السنة التي قبله.
(25) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2662)
عن عبيد الله بن ابي يزيد، سمع ابن عباس رضي الله عنهما وسئل عن صيام يوم عاشوراء؟، فقال " ما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم صام يوما، يطلب فضله على الايام إلا هذا اليوم، ولا شهرا إلا هذا الشهر "، يعني: رمضان.
(25) لطائف المعارف لابن رجب: (ط: دار ابن کثیر) و كذا في فيض القدير للمناوي: (215/4، ط: المكتبة التجارية الكبرى، مصر)
وكان للنبي صلى الله عليه وسلم في صيامه أربع حالات:
الحالة الأولى: أنه كان يصومه بمكة ولا يأمر الناس بالصوم ......الحالة الثانية: أن النبي صلى الله عليه وسلم لما قدم المدينة ورأى صيام أهل الكتاب له وتعظيمهم له وكان يحب موافقتهم فيما لم يؤمر به صامه وأمر الناس بصيامه وأكد الأمر بصيامه والحث عليه حتى كانوا يصومونه أطفالهم.....الحالة الثالثة: أنه لما فرض صيام شهر رمضان ترك النبي صلى الله عليه وسلم أمر الصحابة بصيام عاشوراء وتأكيده فيه.....الحالة الرابعة: أن النبي صلى الله عليه وسلم عزم في آخر عمره على أن لا يصومه مفردا بل يضم إليه يوما آخر مخالفة لأهل الكتاب في صيامه.
(26) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 2002)
ان عائشة رضي الله عنها، قالت: كان يوم عاشوراء تصومه قريش في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه.
(27) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 2004) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2526)
(28) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 1920)
عن الربيع بنت معوذ، قالت:" ارسل النبي صلى الله عليه وسلم غداة عاشوراء إلى قرى الانصار، من اصبح مفطرا فليتم بقية يومه، ومن اصبح صائما فليصم، قالت: فكنا نصومه بعد، ونصوم صبياننا، ونجعل لهم اللعبة من العهن، فإذا بكى احدهم على الطعام، اعطيناه ذاك حتى يكون عند الإفطار.
(29) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 1892)
عن ابن عمر رضي الله عنه، قال:" صام النبي صلى الله عليه وسلم عاشوراء، وامر بصيامه، فلما فرض رمضان ترك"، وكان عبد الله لا يصومه، إلا ان يوافق صومه.
(30) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 2666)
سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما، يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وامر بصيامه، قالوا: يا رسول الله، إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فإذا كان العام المقبل إن شاء الله، صمنا اليوم التاسع "، قال: فلم يات العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم.
(31) بدائع الصنائع: (79/2، ط: دار الکتب العلمیة، بیروت) و كذا في رد المحتار: (375/2، ط: دار الفکر، بیروت)
وَكَرِهَ بَعْضُهُمْ صَوْمَ يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَحْدَهُ لِمَكَانِ التَّشَبُّهِ بِالْيَهُودِ، وَلَمْ يَكْرَهْهُ عَامَّتُهُمْ، لِأَنَّهُ مِنْ الْأَيَّامِ الْفَاضِلَةِ، فَيُسْتَحَبُّ اسْتِدْرَاكُ فَضِيلَتِهَا بِالصَّوْمِ.
(32) فتاويٰ قاسمیة بتغییر: (596/11، ط: مکتبة اشرفیة، دیوبند، الہند)
(33) معارف السنن لمحدث العصر يوسف البنوري: (437/5، ط: مجلس الدعوة و التحقيق الإسلامي)
ان الأفضل صوم عاشوراء و صوم يوم قبله و صوم يوم بعده، ثم الأدون منه: صوم عاشوراء و صوم يوم قبله أو صوم يوم بعده، ثم الأدوان منه: صوم عاشوراء منفردا و الصور الثلاث كلها عبادات بعضها فوق بعض.....قال الشيخ: و أما ما ذكر في " الدر المختار" من كراهة صوم عاشوراء منفردا فيتاول فيه بأنها عبادة مفصولة من القسمين و لا يحكم بكراهته.
(34) شعب الإيمان: (333/5، ط: مكتبة الرشد، ریاض)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ وَأَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ ". " هَذِهِ الْأَسَانِيدُ وَإِنْ كَانَتْ ضَعِيفَةً فَهِيَ إِذَا ضُمَّ بَعْضُهَا إِلَى بَعْضٍ أَخَذَتْ قُوَّةً، وَاللهُ أَعْلَمُ.
(35) چار صحابہ (جابر، عبدالله بن مسعود، ابو سعيد خدري، ابوهريرة)، اور ایک تابعی (محمد بن المنتشر) سے روايات کےلیے دیکھیے:(شعب الایمان للبیھقي: (331/5 إلى 334، ط: مکتبة الرشد)
(36) الاستذكار لابن عبد البر: (331/3، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ قَاسِمٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَمُحَمَّدُ بْنُ حَكَمٍ قَالُوا حَدَّثَنَامُحَمَّدُ بْنُ مُعَاوِيَةَ قَالَ حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ الْحُبَابِ قَالَ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ الطَّيَالِسِيُّ قَالَ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ عَنْ جَابِرٍ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ وَسَّعَ عَلَى نَفْسِهِ وَأَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ
قَالَ جَابِرٌ جَرَّبْنَاهُ فَوَجَدْنَاهُ كَذَلِكَ
وَقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ وَقَالَ شُعْبَةُ مِثْلَهُ
حَدَّثَنَا قَاسِمُ بْنُ أَصْبَغَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو وَضَّاحٍ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ الْعَابِدُ عَنْ بُهْلُولِ بْنِ رَاشِدٍ عَنِ اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ قَالَ قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ مَنْ وَسَّعَ عَلَى أَهْلِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ السَّنَةِ
قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ جربنا ذلك فوجدناه حقا
وروى بن عُيَيْنَةَ وَإِبْرَاهِيمُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ قَالَ مَنْ وَسَّعَ عَلَى أَهْلِهِ فِي عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ السَّنَةِ
قَالَ سُفْيَانُ جَرَّبْنَا ذَلِكَ فَوَجَدْنَاهُ كَذَلِكَ.
(37) التوسعة على العيال لأبي زرعة، لأبي الفضل زين الدين العراقي: (ص: 16، ط: مخطوط نُشر في برنامج جوامع الكلم المجاني التابع لموقع الشبكة الإسلامية)
قال عمر بن الخطاب: «من وسع على أهله ليلة عاشوراء وسع الله عليه سائر السنة.
(38) شعب الایمان للبیھقي: (333/5، ط: مکتبة الرشد)
هذه الأسانيد وإن كانت ضعيفة فهي إذا ضم بعضها إلى بعض أخذت قوة.
(39) المقاصد الحسنة للسخاوي: (675/1، ط: دار الكتاب العربي) جامع الأحاديث للسيوطي: (494/61) الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة لابن عراق الكناني: (157/2، ط: دار الكتب العلمية) تذكرة الموضوعات لطاهر الفَتَّنِي: (ص: 117، ط : إدارة الطباعة المنيرية) الأسرار المرفوعة في الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الكبریٰ: (ص: 361، ط: دار الأمانة) كشف الخفاء ومزيل الإلباس للعجلوني: (341/2، ط: المكتبة العصرية) الآثار المرفوعة في الأخبار الموضوعة لعبد الحي اللكنوي: (ص: 100، ط: مكتبة الشرق الجديد)
حَدِيث: مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّه عَلَيْهِ السَّنَةَ كُلَّهَا، الطبراني في الشعب وفضائل الأوقات، وأبو الشيخ عن ابن مسعود، والأولان فقط عن أبي سعيد، والثاني فقط في الشعب عن جابر وأبي هريرة، وقال: إن أسانيده كلها ضعيفة، ولكن إذا ضم بعضها إلى بعض أفاد قوة، بل قال العراقي في أماليه: لحديث أبي هريرة طرق، صحح بعضها ابن ناصر الحافظ، وأورده ابن الجوزي في الموضوعات من طريق سليمان ابن أبي عبد اللَّه عنه، وقال: سليمان مجهول، وسليمان ذكره ابن حبان في الثقات فالحديث حسن على رأيه، قال: وله طريق عن جابر على شرط مسلم، أخرجها ابن عبد البر في الاستذكار من رواية أبي الزبير عنه، وهي أصح طرقه، ورواه هو والدارقطني في الأفراد بسند جيد، عن عمر موقوفا عليه، والبيهقي في الشعب من جهة محمد بن المنتشر، قال: كان يقال، فذكره، قال: وقد جمعت طرقه في جزء، قلت: واستدرك عليه شيخنا رحمه اللَّه كثيرا لم يذكره، وتعقب اعتماد ابن الجوزي في الموضوعات، قول العقيلي في هيصم بن شداخ راوي حديث ابن مسعود: إنه مجهول بقوله بل ذكره ابن حبان في الثقات والضعفاء.
(40) رد المحتار: (430/6، ط: دار الفكر، بيروت)
قُلْت: وَالْحَاصِلُ أَنَّهُ وَرَدَتْ التَّوْسِعَةُ فِيهِ بِأَسَانِيدَ ضَعِيفَةٍ، وَصَحِيحُ بَعْضِهَا يَرْتَقِي بِهَا الْحَدِيثُ إلَى الْحَسَنِ، وَتُعُقِّبَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي عَدِّهِ مِنْ الْمَوْضُوعَاتِ. وَأَمَّا حَدِيثُ «مَنْ اكْتَحَلَ بِالْإِثْمِدِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ لَمْ تَرْمَدْ عَيْنُهُ» فَقَالَ الْحَافِظُ ابْنُ حَجَرٍ فِي اللَّآلِئِ: إنَّهُ مُنْكَرٌ وَالِاكْتِحَالُ لَا يَصِحُّ فِيهِ أَثَرٌ وَهُوَ بِدْعَةٌ، وَأَوْرَدَهُ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي الْمَوْضُوعَاتِ وَقَالَ الْحَاكِمُ أَيْضًا لَمْ يُرْوَ فِيهِ أَثَرٌ وَهُوَ بِدْعَةٌ ابْتَدَعَهَا قَتَلَةُ الْحُسَيْنِ، وَقَالَ ابْنُ رَجَبٍ: كُلُّ مَا رُوِيَ فِي فَضْلِ الِاكْتِحَالِ، وَالِاخْتِضَابِ وَالِاغْتِسَالِ فَمَوْضُوعٌ لَا يَصِحُّ، وَتَمَامُهُ فِي كَشْفِ الْخَفَاءِ وَالْإِلْبَاسِ لِلْجِرَاحِيِّ، وَبِهِ يَتَأَيَّدُ الْقَوْلُ بِالْكَرَاهَةِ وَاَللَّهُ أَعْلَمُ. وَالتَّوْسِعَةُ عَلَى مَنْ وَسَّعَ مُجَرَّبَةٌ. نَقَلَ ذَلِكَ الْمُنَاوِيُّ عَنْ جَابِرٍ وَابْنِ عُيَيْنَةَ.
قَوْلُهُ وَهُوَ عَاشِرُ الْمُحَرَّمِ) وَيُسَنُّ التَّوْسِعَةُ عَلَى الْعِيَالِ فِي يَوْمِ عَاشُورَاءَ لِيُوَسِّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ السَّنَةَ كُلَّهَا كَمَا فِي الْحَدِيثِ الْحَسَنِ وَقَدْ ذَكَرَ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ رُوَاةِ الْحَدِيثِ أَنَّهُ جَرَّبَهُ فَوَجَدَهُ كَذَلِكَ كُرْدِيٌّ عَلَى بَافَضْلٍ عِبَارَةُ الْمَنَاوِيِّ فِي شَرْحِ الشَّمَائِلِ وَوَرَدَ مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ السَّنَةَ كُلَّهَا وَطُرُقُهُ وَإِنْ كَانَتْ كُلُّهَا ضَعِيفَةً لَكِنْ اكْتَسَبَتْ قُوَّةً بِضَمِّ بَعْضِهَا لِبَعْضٍ بَلْ صَحَّحَ بَعْضَهَا الزَّيْنُ الْعِرَاقِيُّ كَابْنِ نَاصِرِ الدِّينِ وَخُطِّئَ ابْنُ الْجَوْزِيِّ فِي جَزْمِهِ بِوَضْعِهِ.
تحفة المحتاج في شرح المنهاج لابن حجر الهيتمي: (355/3، ط: المكتبة التجارية الكبريٰ)
وَيَنْبَغِي فِيهِ التَّوَسُّعَةُ عَلَى الْعِيَالِ سَأَلَ ابْنُ مَنْصُورٍ أَحْمَدَ عَنْهُ فَقَالَ: نَعَمْ رَوَاهُ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ جَعْفَرٍ عَنْ إبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْتَشِرِ وَكَانَ أَفْضَلَ أَهْلِ زَمَانِهِ أَنَّهُ بَلَغَهُ: مَنْ وَسَّعَ عَلَى عِيَالِهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَسَّعَ اللَّهُ عَلَيْهِ سَائِرَ سَنَتِهِ " قَالَ ابْنُ عُيَيْنَةَ: قَدْ جَرَّبْنَاهُ مُنْذُ خَمْسِينَ سَنَةً أَوْ سِتِّينَ فَمَا رَأَيْنَا إلَّا خَيْرًا.
كشاف القناع عن متن الإقناع المؤلف: لمنصور بن يونس البهوتي الحنبلي: (339/2، ط: دار الكتب العلمية)
يَوْمُ عَاشُورَاءَ الْمَوْسِمُ الثَّالِثُ مِنْ الْمَوَاسِمِ الشَّرْعِيَّةِ وَهُوَ يَوْمُ عَاشُورَاءَ فَالتَّوْسِعَةُ فِيهِ عَلَى الْأَهْلِ، وَالْأَقَارِبِ، وَالْيَتَامَى، وَالْمَسَاكِينِ وَزِيَادَةُ النَّفَقَةِ، وَالصَّدَقَةِ مَنْدُوبٌ إلَيْهَا بِحَيْثُ لَا يُجْهَلُ ذَلِكَ لَكِنْ بِشَرْطٍ وَهُوَ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُهُ مِنْ عَدَمِ التَّكَلُّفِ، وَمِنْ أَنَّهُ لَا يَصِيرُ ذَلِكَ سُنَّةً يُسْتَنُّ بِهَا لَا بُدَّ مِنْ فِعْلِهَا، فَإِنْ وَصَلَ إلَى هَذَا الْحَدِّ فَيُكْرَهُ أَنْ يَفْعَلَهُ سِيَّمَا إذَا كَانَ هَذَا الْفَاعِلُ لَهُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَمِمَّنْ يُقْتَدَى بِهِ؛ لِأَنَّ تَبْيِينَ السُّنَنِ وَإِشَاعَتَهَا وَشُهْرَتَهَا أَفْضَلُ مِنْ النَّفَقَةِ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، وَلَمْ يَكُنْ لِمَنْ مَضَى فِيهِ طَعَامٌ مَعْلُومٌ لَا بُدَّ مِنْ فِعْلِهِ.
المدخل لابن الحاج: (289/1، ط: دار التراث الطبعة)
.وَالتَّوْسِعَةُ فِيهِ عَلَى الْأَهْلِ وَالْأَقَارِبِ وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ، وَزِيَادَةُ النَّفَقَةِ وَالصَّدَقَةِ مَنْدُوبٌ إِلَيْهَا، بِحَيْثُ لَا يَجْهَلُ ذَلِكَ. لَكِنْ بِشَرْطِ عَدَمِ التَّكَلُّفِ، وَأَنْ لَا يَصِيرَ ذَلِكَ سُنَّةً يُسْتَنُّ بِهَا لَا بُدَّ مِنْ فِعْلِهَا، فَإِنْ وَصْلَ إِلَى هَذَا الْحَدِّ لَا بُدَّ أَنْ يَفْعَلَهَا سِيَّمَا إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ وَمِمَّنْ يُقْتَدَى بِهِ، وَلَمْ يَكُنْ لِمَنْ مَضَى فِيهِ طَعَامٌ مَعْلُومٌ لَا بُدَّ مِنْ فِعْلِهِ، وَكَانَ بَعْضُ الْعُلَمَاءِ يَتْرُكُونَ النَّفَقَةَ فِيهِ قَصْدًا لِيُنَبِّهُوا عَلَى أَنَّهَا لَيْسَتْ بِوَاجِبَةٍ......وَقَالَ الشَّيْخُ يُوسُفُ بْنُ عُمَرَ فِي بَابِ جُمَلٍ مِنَ الْفَرَائِضِ: وَيُسْتَحَبُّ التَّوْسِعَةُ فِي النَّفَقَةِ عَلَى الْعِيَالِ لَيْلَةَ عَاشُورَاءَ، وَاخْتُلِفَ هَلْ هِيَ لَيْلَةُ الْعَاشِرِ أَوْ لَيْلَةُ الْحَادِي عَشَرَ؟ انْتَهَى.
مواهب الجليل في شرح مختصر خليل لشمس الدين أبو عبد الله الرُّعيني المالكي: (402/2 ۔ 405، ط: دار الفكر، بيروت)
(41) الاستذكار لابن عبد البر: (331/3، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)
قَالَ جَابِرٌ جَرَّبْنَاهُ فَوَجَدْنَاهُ كَذَلِكَ....قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ جربنا ذلك فوجدناه حقا....قَالَ سُفْيَانُ جَرَّبْنَا ذَلِكَ فَوَجَدْنَاهُ كَذَلِكَ.
(42) فيض القدير المناوي: (235/2، ط: المكتبة التجارية الكبریٰ)
وقال ابن عيينة: جربناه خمسين أو ستين سنة
(43) التوسعة على العيال لأبي زرعة، لأبي الفضل زين الدين العراقي: (ص: 2، ط: مخطوط نُشر في برنامج جوامع الكلم المجاني التابع لموقع الشبكة الإسلامية)
قال إبراهيم بن المنتشر: «جربناه من ستين سنة فوجدناه حقا».
(44) الاعتصام للشاطبي: (53/1، ط: دار ابن عفان)
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.
(45) الموضوعات لابن الجوزي:(201/2،ط:المكتبة السلفية)
فمن الأحاديث التي وضعوا: حدثنا أبو الفضل محمد بن ناصر من لفظه وكتابه مرتين قال أنبأنا أحمد بن الحسين بن قريش أنبأنا أبو طالب محمد بن على ابن الفتح العشاري، وقرأت على أبي القاسم الحريري عن أبي طالب العشاري حدثنا أبو بكر أحمد بن منصور البرسري حدثنا أبو بكر أحمد بن سليمان النجاد حدثنا إبراهيم الحربي حدثنا سريح بن النعمان حدثنا ابن أبي الزناد عن أبيه عن الأعرج عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل افترض على بني إسرائيل صوم يوم في السنة يوم عاشوراء وهو اليوم العاشر من المحرم، فصوموه ووسعوا على أهليكم فيه، فإنه من وسع على أهله من ماله يوم عاشوراء وسع عليه سائر سنته، فصوموه فإنه اليوم الذي تاب الله فيه على آدم، وهو اليوم الذي رفع الله فيه إدريس مكانا عليا، وهو اليوم الذي نجى فيه إبراهيم من النار، وهو اليوم الذي أخرج فيه نوحا من السفينة، وهو اليوم الذي أنزل الله فيه التوراة على موسى، وفيه فدى الله إسماعيل من الذبح، وهو اليوم الذي أخرج الله يوسف من السجن، وهو اليوم الذي رد الله على يعقوب بصره، وهو اليوم الذي كشف الله فيه عن أيوب البلاء، وهو اليوم الذي أخرج الله فيه يونس من بطن الحوت، وهو اليوم الذي فلق الله فيه البحر لبني إسرائيل، وهو اليوم الذي غفر الله لمحمد ذنبه ما تقدم وما تأخر، وفي هذا اليوم عبر موسى البحر، وفي هذا اليوم أنزل الله تعالى التوبة على قوم يونس، فمن صام هذا اليوم كانت له كفارة أربعين سنة، وأول يوم خلق الله من الدنيا يوم عاشوراء، وأول مطر نزل من السماء يوم عاشوراء،وأول رحمة نزلت يوم عاشوراء، فمن صام يوم عاشوراء فكأنما صام الدهر كله، وهو صوم الأنبياء، ومن أحيا ليلة عاشوراء فكأنما عبد الله تعالى مثل عبادة أهل السموات السبع، ومن صلى أربع ركعات يقرأ في كل ركعة الحمد مرة وخمسين مرة قل هو الله أحد غفر الله خمسين عاما ماض وخمسين عاما مستقبل وبنى له في الملأ الأعلى ألف ألف منبر من نور، ومن سقى شربة من ماء فكأنما لم يعص الله طرفة عين، ومن أشبع أهل بيت مساكين يوم عاشوراء، مر على الصراط كالبرق الخاطف.ومن تصدق بصدقة يوم عاشوراء فكأنما لم يرد سائلا قط، ومن اغتسل يوم عاشوراء لم يمرض مرضا إلا مرض الموت، ومن اكتحل يوم عاشوراء لم ترمد عينيه تلك السنة كلها، ومن أمر يده على رأس يتيم فكأنما بر يتامى ولد آدم كلهم، ومن صام يوم عاشوراء أعطي ثواب عشرة ألف ملك، ومن صام يوم عاشوراء أعطي ثواب ألف حاج ومعتمر، ومن صام يوم عاشوراء أعطي ثواب ألف شهيد، ومن صام يوم عاشوراء كتب له أجر سبع سموات وفين خلق الله السموات والارضين والجبال والبحار، وخلق العرش يوم عاشوراء، وخلق القلم يوم عاشوراء، وخلق اللوج يوم عاشوراء، وخلق جبريل يوم عاشوراء، ورفع عيسى يوم عاشوراء، وأعطى سليمان الملك يوم عاشوراء، ويوم القيامة يوم عاشوراء، ومن عاد مريضا يوم عاشوراء فكأنما عاد مرضى ولد آدم كلهم ".
(46) وقال ابن الجوزي بعد ذكر هذه الرواية: هذا حديث لا يشك عاقل في وضعه ولقد أبدع من وضعه وكشف القناع ولم يستحيي وأتى فيه المستحيل وهو قوله: وأول يوم خلق الله يوم عاشوراء، وهذا تغفيل من واضعه لأنه إنما يسمى يوم عاشوراء إذا سبقه تسعة.
(47) أيضا:(202/2)
أنبأنا عبد الله بن علي المقري أنبأنا جدي أبو منصور الخياط أنبأنا عبد السلام بن أحمد الأنصاري حدثنا أبو الفتح بن أبي الفوارس أنبأنا الحسن بن إسحاق بن زيد المعدل حدثنا أحمد بن محمد بن مصعب حدثنا محمد بن عبد الله بن قهزاد حدثنا حبيب بن أبي حبيب عن إبراهيم الصائغ عن ميمون بن مهران عن ابن عباس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من صام يوم عاشوراء كتب الله له عبادة ستين سنة بصيامها وقيامها، ومن صام يوم عاشوراء أعطي ثواب عشرة آلاف ملك، ومن صام يوم عاشوراء أعطي ثواب ألف حاج ومعتمر، ومن صام يوم عاشوراء أعطي ثواب عشرة آلاف شهيد، ومن صام يوم عاشوراء كتب الله له أجر سبع سموات، ومن أفطر عنده مؤمن في يوم عاشوراء فكأنما أفطر عنده جميع أمة محمد، ومن أشبع جائعا في يوم عاشوراء فكأنما أطعم جميع فقراء أمة محمد صلى الله عليه وسلم وأشبع بطونهم ومن مسح على رأس يتيم رفعت له بكل شعرة على رأسه في الجنة درجة، قال فقال عمر يا رسول الله لقد فضلنا الله عزوجل بيوم عاشوراء؟ قال: نعم خلق الله عز وجل يوم عاشوراء والأرض كمثله، وخلق الجبال يوم عاشوراء والنجوم كمثله وخلق القلم يوم عاشوراء واللوح كمثله، وخلق جبريل يوم عاشوراء وملائكته يوم عاشوراء، وخلق آدم يوم عاشوراء وولد إبراهيم يوم عاشوراء، ونجاه الله من النار يوم عاشوراء، وفداه الله يوم عاشوراء، وغرق فرعون يوم عاشوراء ورفع إدريس يوم عاشوراء، وولد في يوم عاشوراء، وتاب الله على آدم في يوم عاشوراء، وغفر ذنب داود في يوم عاشوراء، وأعطى الله الملك لسليمان يوم عاشوراء، وولد النبي صلى الله عليه وسلم في يوم عاشوراء، واستوى الرب عز وجل على العرش يوم عاشوراء، ويوم القيامة يوم عاشوراء ".
(48) وقال ابن الجوزي بعد ذكر هذه الرواية:
هذا حديث موضوع بلا شك.قال أحمد بن حنبل: كان حبيب بن أبي حبيب يكذب.وقال ابن عدي: كان يضع الحديث.وفي الرواة من يدخل بين حبيب وبين إبراهيم إبله.وقال أبو حاتم أبو حبان: هذا حديث باطل لا أصل له.قال وكان حبيب من أهل مرو يضع الحديث على الثقاة لا يحل كتب حديثه إلا على سبيل القدح فيه.
وقال ابن عراق الكناني في ’’تنزيه الشريعة‘‘(151/2):
(قلت) قال الذهبي أدخل على أبي طالب العشاري فحدث به بسلامة باطن وفي سنده أبو بكر النجار وقد عمى بأخرة وجوز الخطيب أن يكون أدخل عليه شيء فيحتمل أن يكون هذا مما أدخل عليه والله أعلم.
وقال اللكنوي في ’’الآثار المرفوعة‘‘(95): وفي ميزان الاعتدال للذهبي حبيب بن أبي حبيب الخرططي المروزي عن إبراهيم الصائغ وغيره كان يضع الحديث قاله ابن حبان وغيره روى محمد ابن قهزاد عن حبيب عن إبراهيم عن ميمون عن مهران عن ابن عباس مرفوعا من صام يوم عاشوراء كتب الله له عبادة سبعين سنة ۔۔۔ وذكر حديثا طويلا موضوعا وفيه أن الله خلق العرش يوم عاشوراء والكرسي يوم عاشوراء والقلم يوم عاشوراء ۔۔۔فانظر إلى هذا الإفك انتهى.
(49) الآثارالمرفوعة لعبد الحي اللكنوي:(95،ط:دارالكتب العلمية)
قلت الذي ثبت بالأحاديث الصحيحة المروية في الصحاح الستة وغيرها أن الله تعالى نجى موسى على نبينا وعليه الصلاة والسلام من يد فرعون وجنوده وغرق فرعون ومن معه يوم عاشوراء ومن ثم كانت اليهود يصومون يوم عاشوراء ويتخذونه عيدا وقد صام النبي حين دخل المدينة ورأى اليهود يصومونه وأمر أصحابه بصيامه وقال نحن أحق بموسى منكم ونهى عن اتخاذه عيدا وأمر بصوم يوم قبله أو بعده حذرا من موافقة اليهود والتشبه بهم في إفراد صوم عاشوراء وثبت بروايات أخر في لطائف المعارف لابن رجب وغيره أن الله قبل توبة آدم على نبينا وعليه الصلاة والسلام وثبت برواية أخرى أن نوحا على نبينا وعليه الصلاة والسلام استوت سفينته على الجودي يوم عاشوراء كما في الدر المنثور وغيره معزوا إلى أحمد وأبي الشيخ وابن مردويه وابن جرير والأصبهاني وغيرهم وفي رواية للأصبهاني في كتاب الترغيب والترهيب أن يوم ولادة عيسى يوم عاشوراء كما في الدر المنثور أيضا وأما هذه الأحاديث الطوال التي ذكر فيها كثير من الوقائع العظيمة الماضية والمستقبلة أنها في يوم عاشوراء فلا أصل لها وإن ذكرها كثير من أرباب السلوك والتاريخ في تواليفهم ومنهم الفقيه أبو الليث ذكر في تنبيه الغافلين حديثا طويلا في ذلك وكذا ذكر في بستانه فلا تغتر بذكر هؤلاء فإن العبرة في هذا الباب لنقد الرجال لا لمجرد ذكر الرجال
(50) الغنية للشيخ عبدالقادر الجيلاني: (93/2، ط: دار الكتب العلمية)
لأن الله تعالى اختار بسبط نبيه محمد -صلى الله عليه وسلم -الشهادة في أشرف الأيام وأعظمها وأجلها وأرفعها عنده، ليزيده بدلك رفعة في درجاته وكراماته، مضافة إلى كرامته وبلغه منازل الخلفاء الراشدين الشهداء بالشهادة،
(51) الغنية للشيخ عبدالقادر الجيلاني: (93/2، ط: دار الكتب العلمية)
ولو جاز أن يتخذ يوم موته يوم مصيبة لكان يوم الإثنين أول بذلك، إذ قبض الله تعالى نبيه محمدا -صلى الله عليه وسلم -فيه، وكذلك أبو بكر الصديق -رضي الله عنه -قبض فيه........ثم لو جاز أن يتخذ هذا اليوم مصيبة لاتخذه الصحابة والتابعون -رضي الله عنهم، لأنهم أقرب إليه منا وأخص به.
(52) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 5237)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرِ بْنِ
مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ نَافِعٍ، عَنْ زَيْنَبَ بِنْتِ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ هَذِهِ الأَحَادِيثَ الثَّلاَثَةَ: قَالَتْ زَيْنَبُ: دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ حَبِيبَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تُوُفِّيَ أَبُوهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ، فَدَعَتْ أُمُّ حَبِيبَةَ بِطِيبٍ فِيهِ صُفْرَةٌ، خَلُوقٌ أَوْ غَيْرُهُ، فَدَهَنَتْ مِنْهُ جَارِيَةً ثُمَّ مَسَّتْ بِعَارِضَيْهَا، ثُمَّ قَالَتْ: وَاللهِ مَا لِي بِالطِّيبِ مِنْ حَاجَةٍ غَيْرَ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ يَقُولُ:
«لاَ يَحِلُّ لِامْرَأَةٍ تُؤْمِنُ بِاللهِ وَاليَوْمِ الآخِرِ أَنْ تُحِدَّ عَلَى مَيِّتٍ فَوْقَ ثَلاَثِ لَيَالٍ، إِلَّا عَلَى زَوْجٍ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا.
(53) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 7491) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 5863)
عن ابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " قال الله عز وجل: يؤذيني ابن آدم، يسب الدهر وانا الدهر، اقلب الليل والنهار
(54) فتاويٰ رحیمیة: (115/2، ط: دار الاشاعت)
(55) فتاويٰ حقانیة: (100/2، دارالعلوم حقانیة اکورھ ختک)
(56) آپ کے مسائل اور ان کا حل: (529/2، ط: لدھیانوي)
(57) کتاب فتاويٰ: (326/4، ط: زمزم ببلیشرز)
(58) البدایة والنہایة: (202/8- 599، ط: بیروت)
فَکَانُوْا الٰی یَوْم عَاشُوْرَاءَ یَطْبَخُوْنَ الْحُبُوبَ“
(59) نجم الفتاويٰ: (253/1، ط: دار العلوم ياسين القران)
(60) فتاويٰ قاسمیة: (450/2، ط: مکتبة اشرفیة، دیوبند، الہند)
(61) صحیح مسلم: (رقم الحدیث: 227)
عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اثنتان في الناس هما بهم كفر، الطعن في النسب، والنياحة على الميت.
(62) صحیح البخاري: (رقم الحدیث: 1294)
عن عبد الله رضي الله عنه، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم: "ليس منا من لطم الخدود وشق الجيوب ودعا بدعوى الجاهلية".
(63) سنن أبي داود: (رقم الحدیث: 4077)
عن جعفر بن عمرو بن حريث، عن ابيه، قال:" رايت النبي صلى الله عليه وسلم على المنبر وعليه عمامة سوداء قد ارخى طرفها بين كتفيه.
سنن أبي داود: (رقم الحدیث: 4074)
، عن عائشة رضي الله عنها، قالت:" صنعت لرسول الله صلى الله عليه وسلم بردة سوداء فلبسها فلما عرق فيها وجد ريح الصوف، فقذفها، قال: واحسبه، قال: وكان تعجبه الريح الطيبة'.
المستدرك على الصحيحين للحاكم: (209/4، ط: دار الكتب العلمية)
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا «أَنَّهَا صَنَعَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جُبَّةً مِنْ صُوفٍ سَوْدَاءَ فَلَبِسَهَا فَلَمَّا عَرِقَ وَجَدَ رِيحَ الصُّوفِ فَخَلَعَهَا وَكَانَ يُعْجِبُهُ الرِّيحَ الطَّيِّبَ» هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ.
(64) مرقاة المفاتیح لملا علي القاري: (456/3، ط: دار الكتب العلمية)
وَأَفْتَى ابْنُ عَبْدِ السَّلَامِ: بِأَنَّ الْمُوَاظَبَةَ عَلَى لُبْسِ السُّودِ بِدْعَةٌ، وَأَوَّلُ مَنْ أَحْدَثَ لُبْسَهُ فِي الْجُمَعِ وَالْأَعْيَادِ بَنُو الْعَبَّاسِ فِي خِلَافَتِهِمْ، مُحْتَجِّينَ بِأَنَّ الرَّايَةَ الَّتِي عُقِدَتْ لِجَدِّهِمُ الْعَبَّاسِ يَوْمَ الْفَتْحِ وَحُنَيْنٍ كَانَتْ سَوْدَاءَ.
(65) عون المعبود شرح سنن أبي داود: (86/11، ط: دار الكتب العلمية)
وَالْحَدِيثُ يَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ لُبْسِ السَّوَادِ وَأَنَّهُ لَا كَرَاهَةَ فِيهِ.