سوال:
کیا ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ سکتے ہیں جس کا عقیدہ ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حاضر وناظر ہیں، اگر نہیں پڑھ سکتے تو کیا کیا جائے؟ کیونکہ دوسری مسجد گھر سے بہت دور ہے اور راستہ بھی پر خطر ہے۔
جواب: واضح رہے کہ حاضر و ناظر کا مفہوم یہ ہے کہ ایسی ہستی جس کا وجود کسی خاص جگہ میں نہ ہو، بلکہ بیک وقت ساری کائنات کو محیط ہو، اور کائنات کی ہر چیز کی ہر حالت از اول تا آخر اس کی نظر میں ہو۔ اس مفہوم کے لحاظ سے حاضر و ناظر ہونا صرف اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، اور اس میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ لہذا اللہ کے علاوہ کسی کے بارے میں حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔
چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی ایسا عقیدہ رکھنا غلط ہے، اگر کوئی آدمی بغیر کسی تاویل کے یہ عقیدہ رکھے کہ حضور سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم حاضر و ناظر ہیں تو ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے، اور اگر کسی تاویل کے ساتھ یہ عقیدہ رکھے (جیسا کہ ایک مخصوص مکتب فکر کے افراد کا حال ہے) تو اگرچہ اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی، لیکن ایسا شخص بدعت اعتقادی میں مبتلا ہونے کی وجہ سے گمراہ شمار ہوگا۔
اوپر ذکر کردہ تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ ایسے آدمی کو اپنے اختیار سے امام بنانا درست نہیں ہے، بلکہ کسی صحیح العقیدہ متبع سنت امام کے پیچھے نماز پڑھنی چاہیے، البتہ اگر کسی مجبوری کی صورت میں ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی تو نماز بہرحال ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
غنیة المستملي: (ص: 514، ط: سهیل اکیدمی لاھور)
ویکره تقدیم المبتدع ایضاً لانه فاسق من حیث الاعتقاد و ھو اشد من الفسق من حیث العمل.
و فیها أیضا: (ص: 514، ط: سهیل اکیدمی لاھور)
وانما یجوز الاقتداء به مع الکراهة اذا لم یکن ما یعتقدہ یودي الی الکفر عند اھل السنة، اما لو کان مؤدیا الي الکفر فلا یجوز اصلاً.
الدر المختار: (355/2، ط: رحمانیة)
(و یکره امامة عبد .... و مبتدع) اي صاحب بدعة و ھي اعتقاد خلاف المعروف عن الرسول ﷺ لا بمعاندۃ بل بنوع شبھة .... (لا یکفر بھا، و ان کفر بھا فلا یصح الاقتداء به اصلا.... الخ)
واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی