سوال:
پوری امت حضور ﷺ کی نائب ہے اور بحیثیت نائب ہماری وہی ذمہ داری ہے جو حضور ﷺ کی تھی۔ کیا مبلغین کی یہ بات درست ہے کہ ہم سب امتی حضور ﷺ کے نائب ہیں؟ نیز نائب کے معنی کیا ہے؟
جواب: جواب سے پہلے بطور تمہید چند باتیں سمجھنا ضروری ہے:
۱) آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے قبل جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام دنیا میں بھیجے گئے تھے، ان کی نبوت مخصوص علاقہ، قوم اور زمانہ تک محدود ہوتی تھی، لیکن سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نبوت ورسالت عالمگیر اور آفاقی ہے، لہذا آنحضرت ﷺ کی بعثت پوری دنیا کے تمام علاقوں اور ہر زمانے کے لیے، بلکہ قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے ہے اور یہ عمومی و آفاقی رسالت صرف جناب نبی کریم ﷺ کی خصوصیت ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "(اے رسول ان سے) کہو کہ اے لوگو ! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں"۔ (سورہ اعراف: آیت نمبر: 158)
ارشاد باری تعالیٰ ہے: "بڑی شان ہے اس ذات کی جس نے اپنے بندے پر حق و باطل کا فیصلہ کردینے والی یہ کتاب نازل کی، تاکہ وہ دنیا جہان کے لوگوں کو خبردار کردے"۔ (سورہ فرقان: آیت نمبر: 1)
ارشاد باری تعالیٰ ہے:"اور (اے پیغمبر) ہم نے تمہیں سارے ہی انسانوں کے لیے ایسا رسول بنا کر بھیجا ہے جو خوشخبری بھی سنائے اور خبردار بھی کرے، لیکن اکثر لوگ سمجھ نہیں رہے ہیں"۔(سورہ سبأ: آیت نمبر: 28)
۲) جہاں نبی اکرم ﷺکی نبوت عمومی و آفاقی ہے، وہیں آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت دائمی بھی ہے، یعنی آپ ﷺ نبی آخر الزماں ہیں، ارشاد باری تعالیٰ ہے:"(مسلمانو !) محمد (ﷺ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے۔ (سورہ أحزاب: آیت نمبر: 40)
چونکہ قیامت تک کوئی دوسرا نبی نئی شریعت کے ساتھ مبعوث نہیں ہوگا اور آپ ﷺ پر نبوت و رسالت کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کو آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے۔ آپ ﷺ پر ایمان لائے بغیر آخرت میں نجات نہیں ہو سکتی ہے، جو لوگ آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ میں موجود تھے، انہوں نے تو براہ راست آنحضرت ﷺ کی دعوتِ دین کو سنا اور قبول کیا، لیکن جو لوگ آنحضرت ﷺ کی حیات میں نہیں تھے، بلکہ بعد میں آئے اور قیامت تک آتے رہیں گے، ان بعد میں آنے والوں تک دین کی دعوت کیسے پہنچے گی؟ ظاہر ہے کوئی نیا نبی نہیں آئے گا تو اس دعوت کا طریقہ کار کیا ہوگا؟ اس کے لیے اللہ تعالی نے دین کی دعوت کو دوسروں تک پہنچانے کی ذمہ داری اس امت پر ڈالی ہے، لہذا آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والا جو بھی امتی آپ کے دین کی دعوت کو دوسروں تک پہنچاتا ہے تو وہ گویا کہ آنحضرت ﷺ کا نائب بن کر یہ فریضہ سر انجام دے رہا ہے۔ اس لحاظ سے آنحضرت ﷺ کی نیابت میں آپ کے دین کی دعوت کا یہ فریضہ بطورِ فرضِ کفایہ آنحضرت ﷺ پر ایمان لانے والے ہر امتی کی طرف منتقل ہوا ہے۔ قرآن کریم کی درج ذیل آیات کو بغور پڑھنے سے یہ بات بخوبی واضح ہوتی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "(اے پیغمبر) کہہ دو کہ یہ میرا راستہ ہے، میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی، اور اللہ (ہر قسم کے شر سے) پاک ہے، اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہراتے ہیں"۔(سورہ یوسف: آیت نمبر: 108)
اس تمہید کے بعد سوال کا جواب یہ ہے کہ دین کی تبلیغ اورتعلیم کے دونوں کام قرآن کریم اور احادیث مبارکہ کی تصریح کے مطابق امت کے سپرد کیے گئے ہیں، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ: "اور تمہارے درمیان ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جس کے افراد (لوگوں کو) بھلائی کی طرف بلائیں، نیکی کی تلقین کریں، اور برائی سے روکیں۔ ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں"۔(سورہ آل عمران: آیت نمبر: 104)
آنحضرت ﷺنے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: "جو اس وقت یہاں موجود ہیں، وہ میرا یہ پیغام ان تک پہنچا دیں جو اس وقت یہاں موجود نہیں ہیں"۔ (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 105)
آنحضرت ﷺنے ارشاد فرمایا: "میری طرف سے تم آگے لوگوں تک میری بات پہنچا دو اگرچہ وہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو" (صحیح بخاری: حدیث نمبر: 3461)
آنحضرت ﷺکے دین کا ہر ہر جز امت کے پاس امانت ہے، اس دین کو آئندہ لوگوں تک پہنچانے میں امت مسلمہ آنحضرت ﷺ کی نائب ہے، پہلے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوری جانفشانی سے آپ کی نیابت میں آپ کی دعوت کو امت تک پہنچایا، پھر ان کے بعد تابعین اور تبع تابعین نے اس دعوت کو امت تک پہنچایا، اسی طرح یہ سلسلہ چلتے چلتے ہم تک پہنچا ہے اور یہ قیامت تک جاری رہے گا، لہذا کوئی بھی امتی دین کی ترویج، نشر و اشاعت، تعلیم و تعلم اور تبلیغ و تقریر جس ذریعے سے بھی کرے، وہ نبی اکرم ﷺ کی طرف سے نائب کی حیثیت سے بات پہنچائے گا، اس لحاظ سے اس کو نبی کریم ﷺ کا "نائب" کہنا صحیح ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (آل عمران، الایة: 110)
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ .... الخ
و قوله تعالي: (الأعراف، الایة: 158)
قُلْ يَاأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا .... الخ
و قوله تعالي: (یوسف، الایة: 108)
قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ o
و قوله تعالي: (الأحزاب، الایة: 40)
مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا o
و قوله تعالي: (سبأ، الایة: 28)
وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ o
تفسير ابن كثير: (159/3، ط: مؤسسة قرطبة)
"فمن اتصف من هذه الأمة بهذه الصفات دخل معهم في هذا المدح، كما قال قتادة: بلغنا أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه في حجة حجها رأى من الناس دعة، فقرأ هذه الآية: " كنتم خير أمة أخرجت للناس"، ثم قال: من سره أن يكون من هذه الأمة فليؤد شرط الله فيها. رواه ابن جرير".
صحيح البخاري: (كتاب أحاديث الأنبياء، باب ما ذكر عن بني إسرائيل، رقم الحديث: 3461، 170/4، ط: دار طوق النجاة)
حدثنا أبو عاصم الضحاك بن مخلد، أخبرنا الأوزاعي، حدثنا حسان بن عطية، عن أبي كبشة، عن عبد الله بن عمرو، أن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «بلغوا عني ولو آية، وحدثوا عن بني إسرائيل ولا حرج، ومن كذب علي متعمدا، فليتبوأ مقعده من النار».
صحيح مسلم: (كتاب الإيمان، باب وجوب الإيمان برسالة نبينا محمد صلى الله عليه وسلم إلى جميع الناس ونسخ الملل بملته، رقم الحديث: 153، 134/1، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)
حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي عَمْرٌو، أَنَّ أَبَا يُونُسَ حَدَّثَهُ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: "وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لاَ يَسْمَعُ بِي أَحَدٌ مِنْ هَذِهِ الأُمَّةِ يَهُودِيٌّ وَلاَ نَصْرَانِيٌّ، ثُمَّ يَمُوتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ، إِلاَّ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ".
شرح النووي على مسلم: (188/2، ط: دار إحياء التراث العربي بيروت)
"وقوله صلى الله عليه وسلم لا يسمع بي أحد من هذه الأمة أي من هو موجود في زمني وبعدي إلى يوم القيامة فكلهم يجب عليهم الدخول في طاعته وإنما ذكر اليهودي والنصراني تنبيها على من سواهما وذلك لأن اليهود النصارى لهم كتاب فإذا كان هذا شأنهم مع أن لهم كتابا فغيرهم ممن لا كتاب له أولى والله أعلم".
صحيح ابن حبان: (كتاب الناسخ، باب بدء الخلق، رقم الحديث: 6256، 149/14، ط: مؤسسة الرسالة بيروت)
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلْمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ، عَنْ أَبِي كَبْشَةَ السَّلُولِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً، وَحَدِّثُوا عَنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَلَا حَرَجَ، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ».
قَالَ أَبُو حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَوْلُهُ: «بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً» أَمْرٌ قَصَدَ بِهِ الصَّحَابَةَ، وَيَدْخُلُ فِي جُمْلَةِ هَذَا الْخَطَّابِ مَنْ كَانَ بِوَصْفِهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ فِي تَبْلِيغِ مَنْ بَعْدَهُمْ عَنْهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ فَرْضٌ عَلَى الْكِفَايَةِ إِذَا قَامَ الْبَعْضُ بِتَبْلِيغِهِ سَقَطَ عَنِ الْآخَرِينَ فَرْضُهُ، وَإِنَّمَا يَلْزَمُ فَرْضِيَّتَهُ مَنْ كَانَ عِنْدَهُ مِنْهُ مَا يَعْلَمُ أَنَّهُ لَيْسَ عِنْدَ غَيْرِهِ، وَأَنَّهُ مَتَى امْتَنَعَ عَنْ بَثِّهِ، خَانَ الْمُسْلِمِينَ، فَحِينَئِذٍ يَلْزَمُهُ فَرْضُهُ.
فتح الباري لابن حجر: (411/11، ط: دار المعرفة- بيروت)
«قَالَ الْكَلَابَاذِيُّ الْمُرَادُ بِالْأُمَّةِ أَوَّلًا أُمَّةُ الْإِجَابَةِ وَبِقَوْلِهِ آخِرًا أُمَّتِي أُمَّةُ الِاتِّبَاعِ فَإِنَّ أُمَّتَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْسَامٍ أَحَدُهَا أَخَصُّ مِنَ الْآخَرِ أُمَّةُ الِاتِّبَاعِ ثُمَّ أُمَّةُ الْإِجَابَةِ ثُمَّ أُمَّةُ الدَّعْوَةِ فَالْأُولَى أَهْلُ الْعَمَلِ الصَّالِحِ وَالثَّانِيَةُ مُطْلَقُ الْمُسْلِمِينَ وَالثَّالِثَةُ مَنْ عَدَاهُمْ مِمَّنْ بُعِثَ إِلَيْهِمْ».
واللّٰہ تعالى أعلم بالصواب
دارالإفتاء الاخلاص،کراچی