سوال:
میرا سوال یہ ہے مرحومہ نانی کی جائیداد میں سے ان کے پوتا پوتی کی موجودگی میں ہم نواسیوں کا حصہ بنتا ہے؟
تنقیح: مرحومہ نانی کے ورثاء میں انتقال کے وقت ان کی اولاد یا والدین میں سے کون کون زندہ تھے؟
جواب تنقیح:
میری دادی ( بانو) نے ترکہ میں ایک 2 مرلے کا مکان چھوڑا ہے، ان کی اولاد ایک بیٹا عامر اور دو بیٹیاں ریحانہ اور فرحانہ تھیں،
لیکن ایک بیٹی ریحانہ دادای کی زندگی میں ہی فوت ہو گئی تھی، کچھ عرصہ بعد بانو (دادی) کا انتقال ہو گیا، بانو کے انتقال کے وقت صرف بیٹا عامر اور ایک بیٹی فرحانہ موجود تھے، ان کے بعد عامر اور فرحانہ بھی انتقال کر گئے لیکن ترکہ تقسیم نہیں ہوا ہے،اب صرف عامر، ریحانہ اور فرحانہ کی اولاد موجود ہیں۔
عامر کے دو بیٹے اور چار بیٹیاں (بانو کے پوتے پوتیاں) ہیں، عامر کی ایک بیوہ (دوسری بیوی سکینہ ) بھی موجود ہیں، لیکن ان کی اولاد نہیں ہے۔
ریحانہ کی 2 بیٹیاں (بانو کی نواسیاں) ہیں اور فرحانہ کی چار بیٹیاں (بانو کی نواسیاں) ہیں۔
جواب طلب امر یہ ہے کہ بانو کے ترکہ میں سے پوتے، پوتیوں، نواسیوں اور بہو میں سے کس کس کو حصہ ملے گا؟
نوٹ: بانو کے والدین اور خاوند بانو سے پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔
تنقیح ثانی: محترم! اس بات کی وضاحت فرمائیں کہ فرحانہ کے شوہر حیات ہیں یا انتقال ہو گیا ہے اور اگر انتقال ہوگیا ہے تو فرحانہ سے پہلے ہوا ہے یا بعد میں؟ اسی طرح اس بات کی بھی وضاحت فرمائیں کہ عامر کی پہلی بیوی کا انتقال کب ہوا ہے عامر سے پہلے یا اس کے بعد؟
جواب تنقیح: عامر کی پہلی بیوی کا انتقال عامر سے پہلے ہو گیا تھا اور فرحانہ کے خاوند کا انتقال بھی فرحانہ سے پہلے ہو گیا تھا۔
جواب: واضح رہے کہ وراثت کا حق مورِث کی موت کے بعد ثابت ہوتا ہے، اس لیے کسی شخص کے انتقال کے وقت اس کے جو ورثاء موجود ہوں، صرف وہی اس کے وارث ہوتے ہیں، اس کی زندگی میں فوت ہونے والے افراد اس کے وارث نہیں بنتے۔
اسی طرح کسی شخص کی وفات کے بعد اس کی وراثت تقسیم ہونے سے پہلے اگر اس کے کسی وارث کا انتقال ہوجائے، تو اس کا حصہ اس کے ورثاء کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں مرحومہ بانو کی میراث عامر کے دوسری بیوی، بچوں اور فرحانہ کی بچیوں میں شریعت کے میراث کے قانون کے مطابق تقسیم ہوگی، جبکہ ریحانہ کی بیٹیوں کو مرحومہ بانو کی وراثت میں کچھ حصہ نہیں ملے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (801/6، ط: دار الفکر)
فصل في المناسخة (مات بعض الورثة قبل القسمة للتركة صححت المسألة الأولى) وأعطيت سهام كل وارث (ثم الثانية) ... الخ
المبسوط للسرخسی: (55/30، ط: دار المعرفة)
وإذا مات الرجل ولم تقسم تركته بين ورثته حتى مات بعض ورثته فالحال لا يخلو إما أن يكون ورثة الميت الثاني ورثة الميت الأول فقط أو يكون في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت الأول۔۔۔۔۔وأما إذا كان في ورثة الميت الثاني من لم يكن وارثا للميت فإنه تقسم تركة الميت الأول أولا لتبين نصيب الثاني، ثم تقسم تركة الميت الثاني بين ورثته ... الخ
رد المحتار: (758/6، ط: دار الفکر)
وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقةً أو حكمًا كمفقود أو تقديرًا كجنين فيه غرة، ووجود وارثه عند موته حيًّا حقيقةً أو تقديرًا كالحمل، والعلم بجهل إرثه.
البحر الرائق: (کتاب الفرائض، 346/9، ط: رشیدیة)
وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول: هذا فصل اختلف المشايخ فيه، قال مشايخ العراق: الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث، وقال مشايخ بلخ: الإرث يثبت بعد موت المورث".
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی