سوال:
اگرحرم کی حدود سے باہرجاکر واپس آئیں یعنی جعرانہ سے بغیر عمرے کی نیت کئے حرم واپس پہنچ گئے تو کیا کوئی دم واجب ہوگا؟
اس کی تفصیل یوں ہے کہ یہ شخص عمرے کے لیے پاکستان سے مکہ پہنچا اور وہاں پہنچ کر عمرہ ادا کیا، تین دن کے بعد اس کو مکہ کی زیارتوں پر لے جایا گیا پھر راستے کی بندش کی وجہ سے اعلان کیا گیا کہ اب بس مسجد جعرانہ بھی جائے گی، لہذا زائرین وہاں سے عمرے کی نیت کرلیں تو مسجد جعرانہ سے کچھ لوگوں نے احرام خرید کر عمرہ کی نیت کرلی اور کچھ لوگ بغیر نیت کے مسجد الحرام پہنچ گئے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا جعرانہ کے مقام سے عمرے کی نیت کرنا لازم ہے اور اگر لازم ہے تو کیا جنہوں نے نیت نہیں کی ان پر دم واجب ہوگا؟
جواب: پوچھی گئی صورت میں جعرانہ (جو کہ حل میں واقع ہے) سے عمرے کی نیت کرنا لازم نہیں تھا، لہذا جن لوگوں نے عمرے کی نیت نہیں کی اور احرام نہیں باندھا ان پر کوئی دم واجب نہیں ہے، البتہ جو لوگ عمرے کے ارادے سے حرم جانا چاہ رہے تھے تو ان کا نیت کرنے اور احرام باندھنے کا عمل درست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (476/2، ط: دار الفکر)
(وحرم تأخير الإحرام عنها) كلها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مكة) يعني الحرم (ولو لحاجة) غير الحج أما لو قصد موضعا من الحل كخليص وجدة حل له مجاوزته بلا إحرام فإذا حل به التحق بأهله فله دخول مكة بلا إحرام وهو الحيلة لمريد ذلك… (وحل لأهل داخلها) يعني لكل من وجد في داخل المواقيت (دخول مكة غير محرم) ما لم يرد نسكا للحرج كما لو جاوزها حطابو مكة فهذا (ميقاته الحل) الذي بين المواقيت والحرم.
غنية الناسك: (ص: 55)
ميقات أهل الحل وهم أهل داخل المواقيت إلى الحرم، والمراد بالداخل غير الخارج، فشمل من فيها نفسها كالذين بعدها، وبأهله كل من وجد في داخلها سواء كان من أهله أو قصده لحاجة، كالمدني إذا دخل ذا الحليفة لحاجة فالحل للحج والعمرة، وحل لهم دخول مكة بلا إحرام مالم يردوا نسكا.
معلم الحجاج: (ص: 101، 103، 104، ط: ادارة اسلاميات)
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی