سوال:
اگر لڑکا کسی بینک میں کام کرتا ہو تو کیا میں اپنی بیٹی کا نکاح اس سے کر سکتا ہوں؟
جواب: بینک کے ملازم کے ساتھ بیٹی کا نکاح کرنا فی نفسہ جائز ہے، البتہ اگر وہ سودی بینک میں ایسی ملازمت کرتا ہے، جس میں سود کا لین دین، سود کا حساب کتاب کرنا، سود پر گواہ بننا، یا براہ راست سودی معاملات میں معاونت شامل ہو، جیسے کیشئر، اکاؤنٹنٹ، مینیجر اور سیلز سٹاف وغیرہ تو ایسی ملازمت کرنا جائز نہیں ہے، اور اس سے حاصل ہونے والی آمدنی بھی حلال نہیں ہے۔
اس لیے ایسی ملازمت کرنے والے کے ساتھ رشتہ استوار کرنا مناسب نہیں ہے، تاہم اگر ایسی ملازمت کرنے والے شخص کے ساتھ نکاح کرلیا تو حکمت وبصیرت کے ساتھ اسے ایسی ملازمت سے روکنے کی کوشش کرنی چاہئیے، نیز بیوی کو چاہئیے کہ شوہر کی حرام آمدن کو استعمال کرنے سے اجتناب کرے، اور شوہر سے حلال آمدن سے اپنے نان و نفقہ کے اخرجات کا مطالبہ کرے، نیز شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے بیوی خود اپنے لئے حلال آمدنی کا انتظام بھی کرسکتی ہے۔
تاہم اگر شوہر کے پاس کوئی حلال آمدن کا ذریعہ نہ ہو، اور بیوی کیلئے بھی ایسا انتظام کرنا مشکل ہو تو ایسی صورت میں وہ شوہر کی کمائی بقدرِ ضرورت استعمال کرسکتی ہے، اس پر توبہ و استغفار بھی کرتی رہے، اور شوہر کو مناسب انداز میں حرام کمائی سے بچنے کی تلقین اور دعا بھی کرتی رہے، شوہر پر بھی لازم ہوگا کہ جیسے ہی حلال آمدن کا ذریعہ میسر آجائے، اسے اختیار کرے اور سودی بینک کی ملازمت چھوڑدے۔
واضح رہے کہ سودی بینکاری کے متبادل کے طور پر مستند علماء کرام نے شرعی اصولوں کے مطابق غیر سودی بینکاری کا نظام متعارف کرایا ہے، لہذا جو غیر سودی بینک علماء کرام کی زیر نگرانی شرعی اصولوں کے مطابق اپنے معاملات سر انجام دے رہے ہوں، ان میں ملازمت کرنا اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی جائز اور حلال ہے، بشرطیکہ آمدن حرام ہونے کی کوئی اور وجہ نہ پائی جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (البقرة، الآیة: 278، 279)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ o فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ o
و قوله تعالی: (المائدة، الایة: 2)
وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ o
صحيح مسلم: (باب لعن آکل الربوا، رقم الحدیث: 1598)
عن جابر قال: لعن رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم آکل الربا، ومؤکلہ، وکاتبہ، وشاہدیہ، وقال: ہم سواء
الفتاوى الهندية: (کتاب النکاح، 267/1، ط: رشیدیة)
"وأما شروطه) فمنها العقل والبلوغ والحرية في العاقد ... (ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع
تکملة فتح الملهم: (باب لعن آكل الربا و مؤکله، 619/1، ط: اشرفیة)
ومن هنا ظهر أن التوظف في البنوك الربویة لایجوز، فإن کان عمل الموظف في البنك ما یعین علی الربا، کالکتابة، أو الحساب، فذلك حرام لوجهین: الأول: إعانة علی المعصیة، والثاني: أخذ الأجرة من المال الحرام
رد المحتار: (مطلب البیع الفاسد لا یطیب له و یطیب للمشتری منه، 145/4)
"(قوله الحرام ینتقل) ای تنتقل حرمته وان تداولته الایدی وتبدلت الاملاك، قوله: ولا للمشتری منه فیكون بشرائه منه مسیئا لانہ ملكه بکسب خبیث وفی شرائه تقریر للخبث ویؤمر بما كان یؤمر به البائع من رده علی الحربی
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی