سوال:
اگر کوئی بچہ گود لے لیا جائے اور اس بچے کو ماں کے علاوہ اس کی بہن یا کسی نے دودھ پلا لیا ہو تو وہ محرم بن جائے گا یا نہیں؟ نیز لے پالک بچہ لینے کیلئے جو مسائل ہیں وہ تفصیل سے بتا دیں۔
جواب: کسی بچے یا بچی کو گود لینا شرعا جائز ہے، البتہ اس سلسلے میں چند باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے:
1. لے پالک بچے کی نسبت:
منہ بولا بچہ شرعا حقیقی بچے کے حکم میں نہیں ہوتا، اس لئے ضروری ہے کہ لے پالک کی نسبت اس کے حقیقی باپ کی طرف ہی کی جائے، لہذا بچے کے پیدائشی سرٹیفکیٹ، بے فارم، شناختی کارڈ، تعلیمی اسناد اور نکاح نامہ وغیرہ میں والد کے خانے میں حقیقی والد کا نام درج کرنا ضروری ہے۔
2. محارم سے پردہ:
اگر گود لینے والی ماں یا باپ کا لے پالک بچے یا بچی کے ساتھ محرمیت کا رشتہ نہ ہو، تو بلوغت کے بعد پردہ کرنا لازم ہوگا، صرف گود لینے سے پردے کا حکم ساقط نہ ہوگا، البتہ اگر گود لینے والی خاتون یا اس کی بہن یا بیٹی وغیرہ مدتِ رضاعت میں لے پالک بچے کو دودھ پلادے تو رضاعت ثابت ہونے کی وجہ سے پردے کا حکم ساقط ہو جائے گا، اسی طرح اگر کوئی بچی گود لی ہو تو شوہر کی بیوی، بہن یا بیٹی وغیرہ اگر مدتِ رضاعت میں بچی کو دودھ پلادے تو پردے کا حکم ساقط ہو جائے گا۔
3.میراث کا حکم:
آدمی کے انتقال کے بعد اس کی میراث شرعی قانون کے مطابق اس کے حقیقی ورثاء میں تقسیم ہوگی، لے پالک بچے یا بچی کا اس میراث میں کوئی حصہ نہیں ہوگا، البتہ آدمی اپنے لے پالک کے لئے ایک تہائی مال تک کی وصیت کرسکتا ہے یا زندگی میں کچھ دینا چاہے تو دے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم :(الأحزاب، الایة: 5)
اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِۚ-فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْۤا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْكُمْؕ-وَ لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ فِیْمَاۤ اَخْطَاْتُمْ بِهٖۙ-وَ لٰكِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُكُمْؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا o
الدر المختار مع رد المحتار: (باب الرضاع، 213/3، ط: دار الفكر)
(فيحرم منه) أي بسببه (ما يحرم من النسب) رواه الشيخان ... الخ
(قوله أي بسببه) أشار إلى أن من بمعنى باء السببية ط (قوله ما يحرم من النسب) معناه أن الحرمة بسبب الرضاع معتبرة بحرمة النسب، فشمل زوجة الابن والأب من الرضاع لأنها حرام بسبب النسب فكذا بسبب الرضاع، وهو قول أكثر أهل العلم، كذا في المبسوط بحر.
وقد استشكل في الفتح الاستدلال على تحريمها بالحديث لأن حرمتها بسبب الصهرية لا النسب "
الفتاوی الھندیة: (90/6، ط: دار الفکر)
تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية
واللّٰه تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی