سوال:
ایک منڈل کے پاس کل سو گھر کے لوگ شامل ہیں، ان لوگوں نے ایک مولوی صاحب کو مکتب چلانے کے لیے رکھا ہے، مکتب میں صرف انہیں سو گھر کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں، مولوی صاحب کی تنخواہ انہیں سو گھر کے لوگوں کی زکوة سے دی جاتی ہے، جب کہ اس سو گھر میں امیر لوگ بھی ہیں اور ان کے بچے بھی زکوة کے پیسوں سے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، کیا یہ درست ہے؟
اسی طرح ایک منڈل کے پاس تیس گھر کے لوگ شامل ہیں، کوٸی امیر ہے اور کوٸی غریب بھی ہے مگر ان لوگوں کے کوٸی تعلیم کا ذریعہ نہیں بنایا ہے، اپنے بچے کو دوسرے مدرسہ پڑھنے بھیجتے ہیں۔ کیا وہ لوگ اپنی زکوة کا روپیہ اپنے بچوں کی تعلیم میں خرچ کرسکتے ہیں؟
جواب: واضح رہے کہ زکوۃ کی رقم اپنے بچوں کو یا مالدار شخص کے نابالغ بچوں کو یا مکتب کے معلم کو تنخواہ کی مد میں دینا جائز نہیں ہے۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں مذکورہ بالا مصارف میں زکوۃ کی رقم خرچ کرنا جائز نہیں ہے، البتہ جن لوگوں نے لاعلمی میں مذکورہ بالا مصارف کو مستحق سمجھ کر زکوۃ ادا کی ہے، ان کی زکوۃ ادا ہوگئی ہے، دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن آئندہ کے لیے ان مصارف میں زکوۃ کی رقم خرچ کرنے سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
نیز اگر معلم مستحق زکوۃ ہو تو تنخواہ کی مد کے علاوہ زکوۃ کی رقم سے ان کی مدد کرنی چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوي الهندية: (187/1، ط: دار الفكر)
(منها الفقير) وهو من له أدنى شيء وهو ما دون النصاب أو قدر نصاب غير نام وهو مستغرق في الحاجة فلا يخرجه عن الفقير ملك نصب كثيرة غير نامية إذا كانت مستغرقة بالحاجة كذا في فتح القدير. التصدق على الفقير العالم أفضل من التصدق على الجاهل كذا في الزاهدي.
و فيها أيضا: (188/1، 190، ط: دار الفكر)
ولا يدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي ... ولا يجوز دفعها إلى ولد الغني الصغير كذا في التبيين. ولو كان كبيرا فقيرا جاز.
ولو نوى الزكاة بما يدفع المعلم إلى الخليفة، ولم يستأجره إن كان الخليفة بحال لو لم يدفعه يعلم الصبيان أيضا أجزأه، وإلا فلا.
اذاشک وتحری فوقع في أكبر رأیه أنه محل الصدقة فدفع إلیه أو سأل منه فدفع أو راہ في صف الفقراء فدفع فان ظھر أنه محل الصدقة جاز بالإجماع، وکذا إن لم یظھر حاله عندہ.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی