سوال:
السلام علیکم! کسی مستحق آدمی کو یہ کہہ کر کچھ رقم دینا کہ یہ قرض ہے اور دل سے یہ نیت کرنا کہ وہ میری زکوة سے منہا کر دوں گا، اس سے یہ رقم واپس نہیں لوں گا تو کیا قرض کے الفاظ استعمال کر کے زکوة کی نیت سے رقم دینے سے زکوة ادا ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ زکوة کے معنی ہیں فقیر کو بلا عوض مالک بنانا اور قرض دینے سے پوری طرح ملکیت نہیں ہوتی؟
جواب: واضح رہے کہ فقہی اعتبار سے "قرض" کی تعریف یہ ہے کہ: "کسی کو نفع اٹھانے کے لیے اس شرط پر مال دینا کہ وہ بعد میں اس کا بدل واپس کرے۔" یعنی قرض کی بنیاد واپسی کی شرط پر ہوتی ہے، جبکہ زکوٰۃ میں فقیر کو صرف نفع اٹھانے کے لیے مال نہیں دیا جاتا، بلکہ اسے زکوٰۃ کے مال کا بلا عوض مالک بنایا جاتا ہے اور اس میں واپسی کی کوئی شرط نہیں رکھی جاتی۔
لہٰذا اگر کسی نے ظاہری طور پر "قرض" کا لفظ استعمال کیا ہو لیکن دل میں زکوٰۃ ادا کرنے کی نیّت کرتے ہوئے فقیر کو اس مال کا مالک بنا دیا تو ایسی صورت میں وہ رقم شرعی طور پر قرض نہیں بلکہ زکوٰۃ شمار ہوگی اور زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية:(171/1،ط:دار الفکر)
ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية.
قاموس الفقہ:(قرض،486/4،ط:زمزم پبلشرز)
دفع المال ارفاقا لمن ينتفع به ويرد بدله.
واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصّواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی