سوال:
کیا خواتین کے لئے یہ جائز ہے کہ وہ بیماری یا کسی اور وجہ سے کسی دوسری خاتون سے اپنے جسم کے (ان اعضاء کی جو ستر میں شمار ہوتے ہیں) کی تیل سے مالش کروائیں؟ نیز عورت کا عورت سے ستر بھی بتا دیجیۓ۔
جواب: واضح رہے کہ مسلمان عورت کا ستر دوسری مسلمان عورت کے لیے ناف کے نیچے سے لے کر گھٹنے تک ہے، چنانچہ ایک مسلمان عورت کے لیے کسی دوسری عورت کے ستر کا حصہ دیکھنا یا چھونا شرعا جائز نہیں ہے۔
لہذا سوال میں ذکر کردہ صورت میں عورت ستر کے حصے کے علاوہ بدن کے بقیہ حصہ کی کسی دوسری عورت سے مالش کرواسکتی ہے، بشرطیکہ کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ ہو، لیکن ستر کے حصے کی مالش کروانا شرعا ناجائز ہے، البتہ اگر کسی بیماری وغیرہ کے علاج کے لیے ستر کے حصے کا دیکھنا اور چھونا ضروری ہو اور اس کی متبادل صورت یا دوا بھی ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں بقدر ضرورت مسلمان عورت کے لیے دوسری عورت کا ستر دیکھنے اور چھونے کی گنجائش ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار مع رد المحتار: (366/6، 367، 371، ط: دار الفكر)
(وينظر الرجل من الرجل) ... (سوى ما بين سرته إلى ما تحت ركبته) فالركبة عورة لا السرة.
(وما حل نظره) مما مر من ذكر أو أنثى (حل لمسه) إذا أمن الشهوة على نفسه وعليها «لأنه - عليه الصلاة والسلام - كان يقبل رأس فاطمة» وقال - عليه الصلاة والسلام -: «من قبل رجل أمه فكأنما قبل عتبة الجنة» وإن لم يأمن ذلك أو شك، فلا يحل له النظر والمس كشف الحقائق لابن سلطان والمجتبى.
(وشرائها ومداواتها ينظر) الطبيب (إلى موضع مرضها بقدر الضرورة) إذ الضرورات تتقدر بقدرها وكذا نظر قابلة وختان وينبغي أن يعلم امرأة تداويها لأن نظر الجنس إلى الجنس أخف. (وتنظر المرأة المسلمة من المرأة كالرجل من الرجل) وقيل كالرجل لمحرمه والأول أصح سراج... (والذمية كالرجل الأجنبي في الأصح فلا تنظر إلى بدن المسلمة) مجتبى.
قوله فلا تنظر إلخ) قال في غاية البيان: وقوله تعالى - {أو نسائهن} [النور: ٣١]- أي الحرائر المسلمات، لأنه ليس للمؤمنة أن تتجرد بين يدي مشركة أو كتابية اه ونقله في العناية وغيرها عن ابن عباس، فهو تفسير مأثور وفي شرح الأستاذ عبد الغني النابلسي على هدية ابن العماد عن شرح والده الشيخ إسماعيل على الدرر والغرر: لا يحل للمسلمة أن تنكشف بين يدي يهودية أو نصرانية أو مشركة إلا أن تكون أمة لها كما في السراج
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی