سوال:
جماعت کی نماز سے رہ جانے کے عذروں میں سخت اندھیرا بھی شامل ہے، لیکن موجودہ دور میں بجلی کا انتظام ہوسکتا ہے تو کیا اب بھی جماعت ساقط ہونے کیلئے اندھیرا عذر ہے؟ نیز نیند سے بیدار ہونے کیلئے الارم اور گھڑیال ہونے کے باوجود سوتے ہوئے نماز کیلئے نہ جاگنا گناہ شمار ہوگا یا نہیں؟
جواب: اندھیرے کے عذر ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کے پاس روشنی کا سامان مہیا نہ ہو، اور نیند کے عذر ہونے سے مراد یہ ہے کہ جاگنے کے لیے میسر اسباب اختیار کرکے سویا ہو اور پھر بھی آنکھ نہ کھلے تو نیند عذر ہے، مثلا: رات کو وقت پر جلد سونے کا اہتمام کرے، الارم لگا کر سوئے، اور جس کی نیند شدید ہو، اسے چاہیے کہ دیگر ساتھیوں سے جگانے کی درخواست کرکے سوئے۔
لیکن اگر کوئی شخص میسر اسباب ہی اختیار نہ کرے اور جان بوجھ کر غفلت سے کام لے تو ایسے شخص کے لیے نیند عذر نہیں ہے، چنانچہ اسی لیے شریعت میں عشاء کے بعد دیر تک باتیں کرتے رہنے سے منع کیا گیا ہے، تاکہ فجر کی نماز نیند کے غلبہ کی وجہ سے فوت نہ ہوجائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
رد المحتار: (368/1، ط: دار الفكر)
لقوله - صلى الله عليه وسلم - «لا سمر بعد الصلاة» يعني العشاء الأخيرة (إلا لأحد رجلين: مصل أو مسافر) وفي رواية (أو عرس) . اه. وقال الطحاوي: إنما كره النوم قبلها لمن خشي عليه فوت وقتها أو فوت الجماعة فيها، وأما من وكل نفسه إلى من يوقظه فيباح له النوم. اه.
وقال الزيلعي: وإنما كره الحديث بعده؛ لأنه ربما يؤدي إلى اللغو أو إلى تفويت الصبح أو قيام الليل لمن له عادة به، وإذا كان لحاجة مهمة فلا بأس، وكذا قراءة القرآن والذكر وحكايات الصالحين والفقه والحديث مع الضيف. اه. والمعنى فيه أن يكون اختتام الصحيفة بالعبادة، كما جعل ابتداؤها بها ليمحى ما بينهما من الزلات، ولذاكره الكلام قبل صلاة الفجر، وتمامه في الإمداد.
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی