resize-left-dar mid-dar right-dar

عنوان: اسمارٹ فون (Smart phone) رکھنے والے امام کے پیچھے نماز کا حکم (33456-No)

سوال: مفتی صاحب! آج کچھ دوستوں میں اور ایک مولانا صاحب میں اس معاملے پر تکرار اور بحث ہورہی تھی کہ کیا کسی عالم کے پاس اینڈرائڈ موبائل ہونا چاہیے؟ جس امام کے پاس اینڈرائڈ موبائل ہو تو کیا اس کے پیچھے نماز ہوتی ہے یا نہیں ہوتی؟
یہ سوال وہ اس بنیاد پر کر رہے تھے کہ موبائل میں طرح طرح کے ایڈز وغیرہ آتے ہیں تو کیا اس وجہ سے ان کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ مجھے اس حوالے سے تھوڑی سی پریشانی تھی، آپ اس حوالے سے میری رہنمائی فرمائیں۔ جزاک اللہ

جواب: واضح رہے کہ اسمارٹ فون (Smart phone) کا جائز اور ناجائز دونوں طرح سے استعمال ممکن ہے۔
اگر کوئی شخص اسے شرعی حدود کے اندر رہ کر دینی یا دنیاوی جائز مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے تو اس کا استعمال شرعاً درست ہے، اور اگر کوئی اسے ناجائز یا غیر شرعی کاموں میں استعمال کرے تو یہ استعمال ناجائز ہوگا۔
لہذا اگر موبائل ایپس (Apps) یا ویب سائٹس (Web sites) پر بلا اختیار کوئی نامناسب ایڈز (Ads) ظاہر ہو جائیں تو ایسی صورت میں فوراً ان ایڈز کو مستقل طور پر بند کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ فتنہ سے بچا جا سکے۔
البتہ محض اس بنیاد پر کہ کسی امام صاحب کے پاس اسمارٹ فون ہے، ان کی امامت پر اعتراض کرنا یا ان کے بارے میں بدگمانی کرنا شرعاً درست نہیں، ایسے امام صاحب کے پیچھے نماز بلا کراہت جائز ہے۔
چنانچہ بدگمانی سے متعلق ایک حدیث ابو ہریرہ رضی اللّٰہ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: " بدگمانی سے بچو، اس لیے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے، نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو" (سنن ابو داؤد، حدیث نمبر:4917)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

القرآن الکریم:(سورۃ الحجرات،الآية:12)
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اجۡتَنِبُوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ الظَّنِّ ۫ اِنَّ بَعۡضَ الظَّنِّ اِثۡمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوۡا.

سنن ابو داؤد: (باب في الظن،رقم الحدیث:4917)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ ؛ فَإِنَّ الظَّنَّ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ، وَلَا تَحَسَّسُوا ، وَلَا تَجَسَّسُوا ".

الاشباه والنظائر:(القاعدة الثانية،23/1،ط: دار الکتب العلمية)
اﻷﻣﻮﺭ ﺑﻤﻘﺎﺻﺪﻫﺎ
ﻛﻤﺎ ﻋﻠﻤﺖ ﻓﻲ اﻟﺘﺮﻭﻙ. ﻭﺫﻛﺮ ﻗﺎﺿﻲ ﺧﺎﻥ ﻓﻲ ﻓﺘﺎﻭاﻩ
إﻥ ﺑﻴﻊ اﻟﻌﺼﻴﺮ ﻣﻤﻦ ﻳﺘﺨﺬﻩ ﺧﻤﺮا ﺇﻥ ﻗﺼﺪ ﺑﻪ اﻟﺘﺠﺎﺭﺓ ﻓﻼ ﻳﺤﺮﻡ ﻭﺇﻥ ﻗﺼﺪ ﺑﻪ ﻷﺟﻞ اﻟﺘﺨﻤﻴﺮ ﺣﺮﻡ ﻭﻛﺬا ﻏﺮﺱ اﻟﻜﺮﻡ ﻋﻠﻰ ﻫﺬا (اﻧﺘﻬﻰ).

واللّٰہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص کراچی

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Salath (Prayer)