سوال:
اگر کسی لڑکی کا نکاح ہو جائے اور رخصتی نہ ہوئی ہو اور ایک سال کا عرصہ نکاح رہا ہو اور بعد میں کچھ ناچاقیوں کی وجہ سے لڑکا طلاق دینا چاہتا ہو، جبکہ لڑکی گھر بسانا چاہتی ہو، لیکن لڑکا کسی صورت میں نہیں بسانا چاہتا ہو تو کیا لڑکی اُن سب چیزوں کی حقدار ہوگی جو نکاح نامے پر شرائط لکھی گئی ہیں: جس میں طلاق یا دوسری شادی کرنے کی صورت میں 3 مرلہ زمین، 5 تولہ زیور، 20 لاکھ اور باقی اخراجات وغیرہ دینے ہوں گے۔ لڑکی گھر آباد کرنا چاہتی ہے ضد لڑکا کر رہا ہے، رخصتی ابھی نہی ہوئی ہے اور نکاح ہوئے ایک سال ہوگیا ہے۔
جواب: سوال میں پوچھی گئی صورت میں نکاح نامہ میں لکھی گئی جن شرائط کا ذکر کیا گیا ہے، یعنی"طلاق یا دوسری شادی کرنے کی صورت میں 3 مرلہ زمین، 5 تولہ زیور، 20 لاکھ اور باقی اخراجات وغیرہ" یہ شرائط اگر مہر کے علاوہ ہیں تو یہ اصلاً مباح ہیں اور عقدِ نکاح میں ایسی مباح شرائط کا حکم یہ ہے کہ انہیں پورا کرنا وعدے اور باہمی معاہدے کی وجہ سے شوہر پر اخلاقاً اور دیانتا واجب ہے، اگرچہ قضاءً واجب نہیں ہے اور انہیں بلا عذر پورا نہ کرنے کی صورت میں شوہر کو وعدہ خلافی کا گناہ ملے گا، البتہ نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
لہٰذا شوہر کو چاہیے کہ مذکورہ شرط کے مطابق طلاق دینے کی صورت میں حسب معاہدہ وہ یہ تمام چیزیں بیوی کو دے دے، البتہ اگر اس کے لئے فی الحال یہ چیزیں دینا مشکل ہو تو بیوی کو اسے مہلت دینی چاہیے، نیز آپس کی رضامندی سے ان شرائط میں کمی اور نرمی بھی کی جاسکتی ہے، لیکن جانبین کے لیے بہتر یہ ہے کہ ناچاقی سے بچتے ہوئے نباہ کی صورت پیدا کریں اور نکاح کے مقدس رشتے کو خوش اسلوبی سے قائم کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
القرآن الکریم: (الإسراء، الایة: 34)
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا o
التفسير المنير للزحيلي: (65/15، ط: دار الفكر المعاصر)
وأوفوا بالعهد عهد الله أي تكاليفه، أو عهد الناس الذي تبرمونه معهم إبراما موثقا مؤكدا مسؤلا عنه، ومطلوبا من المعاهد ألا يضيعه ويفي به.
صحيح البخاري: (رقم الحديث: 5151، ط: طوق النجاة)
عن عقبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «أحق ما أوفيتم من الشروط أن توفوا به ما استحللتم به الفروج».
عمدة القاري شرح صحيح البخاري: (140/20، ط: دار إحياء التراث العربي)
عن عبد الرحمن بن غنم قال: شهدت عمر، رضي الله تعالى عنه، قضى في رجل شرط لامرأته دارها، فقال: لها شرطها. فقال رجل: إذا يطلقها؟ فقال: إن مقاطع الحقوق عند الشروط، والمقاطع جمع مقطع، أراد أن المواضع التي تقطع الحقوق فيها عند وجود الشروط، وأراد به الشروط الواجبة فإنها يجب الوفاء بها. واختلف العلماء في الرجل يتزوج المرأة ويشترط لها أن لا يخرجها من دارها أو لا يتزوجا عليها أو لا يتسرى أو نحو ذلك من الشروط المباحة على قولين: أحدهما: أنه يلزمه الوفاء بذلك، ذكر عبد الرزاق وابن عبد المنذر عن عمر بن الخطاب، رضي الله تعالى عنه، أن رجلا شرط لزوجته أن لا يخرجها، فقال عمر: لها شرطها. ثم ذكرا عنه ما ذكره البخاري، وقال عمرو بن العاص: أرى أن يفي لها شروطها، وروي مثلها عن طاووس وجابر بن زيد، وهو قول الأوزاعي وأحمد وإسحاق، وحكاه ابن التين عن ابن مسعود والزهري، واستحسنه بعض المتأخرين. والثاني: أن يؤمر الزوج بتقوى الله والوفاء بالشروط ولا يحكم عليه بذلك حكما، فإن أبى إلا الخروج لها كان أحق الناس بأهله إليه ذهب عطاء والشعبي وسعيد بن المسيب والنخعي والحسن وابن سيرين وربيعة وأبو الزناد وقتادة، وهو قول مالك وأبي حنيفة والليث والثوري والشافعي.
کذا في تبویب فتاویٰ دار العلوم کراتشي: رقم الفتوی: 1823/81
والله تعالىٰ أعلم بالصواب
دارالإفتاء الإخلاص،کراچی