عنوان: خریدے ہوئے مال کو قبضہ (possession) لینے سے پہلے آگے فروخت کرنے کا حکم(10261-No)

سوال: میں پشاور میں رہتا ہوں اور یہاں پر میرا کاروبار ہے، میں کراچی سے سامان خرید کر پیمنٹ بھی کردیتا ہوں، سامان لوڈ ہونے کی رسید بھی مجھے بھیجی جاتی ہے البتہ گاڑی میں لوڈ ہونے کے بعد میرا حسی قبضہ نہیں ہوتا ہے تو کیا ایسا سامان میں آگے بیج سکتا ہوں؟

جواب: واضح رہے کہ خریدے ہوئے مال کو آگے فروخت کرنے سے پہلے اس کا قبضہ (possession) لینا شرعا ضروری ہے، مال کو قبضہ میں لئے بغیر اسے آگے فروخت کرنا شرعا جائز نہیں ہے، البتہ مال کو حسی طور پر اپنی تحویل اور قبضہ (physical possession) میں لینا شرعا ضروری نہیں ہے، بلکہ حسی قبضہ میں لئے بغیر اگر حکمی/معنوی قبضہ (Constructive Possession) لے لیا جائے، تب بھی کافی ہے۔
حکمی قبضہ کا مطلب یہ ہے کہ خریدے ہوئے مال کو باقی سامان سے باقاعدہ نشاندہی کرکے الگ کر لیا جائے، اور بیچنے والے کی طرف سے خریدار کیلئے اس میں مالکانہ تصرفات کرنے میں کوئی رکاوٹ حائل نہ ہو، اس طرح کے معنوی قبضہ (Constructive Possession) میں آجانے کے بعد بھی شرعاََ آپ اسے آگے فروخت کرسکتے ہیں۔
لہذا پوچھی گئی صورت میں آپ کا مال کو حسی طور پر تحویل میں لینا ضروری نہیں ہے، بلکہ آپ کا کوئی نمائندہ مال کو اپنی تحویل میں لے لے تب بھی شرعا آپ کا قبضہ سمجھا جائے گا، نیز اس سلسلے میں ٹرانسپورٹ کمپنی کو بھی آپ اپنی طرف سے قبضہ کا وکیل بناسکتے ہیں، اس کے قبضہ میں آتے ہی آپ اس مال کو آگے فروخت کر سکتے ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:

بدائع الصنائع: (180/5، ط: رشیدیة)
(ومنها) القبض في بيع المشتري المنقول فلا يصح بيعه قبل القبض؛ لما روي أن النبي - صلى الله عليه وسلم - «نهى عن بيع ما لم يقبض» ، والنهي يوجب فساد المنهي؛ ولأنه بيع فيه غرر الانفساخ بهلاك المعقود عليه؛ لأنه إذا هلك المعقود عليه قبل القبض يبطل البيع الأول فينفسخ الثاني؛ لأنه بناه على الأول، وقد «نهى رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن بيع فيه غرر» ، وسواء باعه من غير بائعه، أو من بائعه؛ لأن النهي مطلق لا يوجب الفصل بين البيع من غير بائعه وبين البيع من بائعه، وكذا معنى الغرر لا يفصل بينهما فلا يصح الثاني، والأول على حاله. ولا يجوز إشراكه، وتوليته؛ لأن كل ذلك بيع

بدائع الصنائع: (242/4، ط: زکریا)
ولا یشترط القبض بالبراجم؛ لأن معنی القبض ہو التمکن والتخلّي وارتفاع الموانع عرفًا وعادةً حقیقةً

الفتاوی الهندیة: (19/3، ط: زکریا)
إذا قال المشتری للبائع ابعث إلی ابنی واستأجر البائع رجلا یحمله إلی ابنه فہذا لیس بقبض والأجر علی البائع إلا أن یقول استأجر علی من یحمله فقبض الأجیر یکون قبض المشتری إن صدقه أنه استأجر ودفع إلیه وإن أنکر استئجارہ والدفع إلیه فالقول قوله کذا فی التتارخانیة

واللہ تعالیٰ أعلم بالصواب
دار الافتاء الاخلاص،کراچی

Print Full Screen Views: 851 Feb 17, 2023
khariday huwe maal ka qabza / possession lene se pehle agay farokht karne ka hokom / hokum

Find here answers of your daily concerns or questions about daily life according to Islam and Sharia. This category covers your asking about the category of Business & Financial

Managed by: Hamariweb.com / Islamuna.com

Copyright © Al-Ikhalsonline 2024.