سوال:
ایک شخص مقبوضہ کشمیر سے سعودی عرب کا ویزہ لے کر بغیر احرام کے جدہ ایئرپورٹ پر اترتا ہے اور مکہ مکرمہ میں بغیر احرام کے داخل ہوتا ہے، لیکن حدود حرم میں داخل نہیں ہوا، اب وہ عمرہ ادا کرنا چاہتا ہے اور عمرہ کی ادائیگی کے لئے پہلے وہ مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے جاتا ہے اور وہاں سے آتے ہوئے میقات سے احرام باندھ کر عمرہ ادا کرتا ہے تو کیا اس صورت میں دم واجب ہوگا یا نہیں؟
تنقیح:
۱) مکہ میں داخل ہو اور حدودِ حرم میں داخل نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کی وضاحت فرمائیں؟
۲) کشمیر سے آنے والے کا کیا پہلے سے یہ ارادہ تھا کہ پہلے اپنے دوست کے ہاں جاؤں گا پھر عمرہ کے لیے جاؤں گا؟
جواب تنقیح:
۱) وہ جس علاقے میں مقیم ہے، وہ مسجد عائشہ کے نزدیک ہے جبکہ مسجد عائشہ حدود حرم سے باہر ہے، لیکن مکہ کے قریب ہونے کی وجہ سے اسے مکہ کا نام دیدیا گیا ہے۔
۲) وہ شخص ویزے پر کام کے سلسلے میں آیا ہے، اس لیے وہ احرام باندھ کر نہیں آیا، جب وہ جدہ ائیرپورٹ پر اترا تو وہ اپنے ایک دوست کے گھر چلا گیا، جو کہ مسجد عائشہ کے پاس رہتا ہے، یہاں ٹھہرنے کے بعد اب وہ عمرہ کے لیے جانا چاہتا ہے۔
جواب: جواب سے پہلے بطورِ تمہید یہ سمجھنا چاہیے کہ آفاقی (میقات سے باہر رہنے والا) اگر میقات سے گزر کر حل (حدودِ حرم سے باہر اور حدودِ میقات کے اندر کا درمیانی علاقہ) میں کسی جگہ جانا چاہتا ہو تو اس کے ذمے احرام باندھ کر میقات سے گزرنا لازم نہیں ہے، لہذا جب آفاقی "حل" میں جا کر رہے گا تو وہ ان لوگوں (اہل حل) کے حکم میں ہوجائے گا اور جو شخص حل میں رہتا ہے، اس کے لیے عمرہ کرنے کا حکم یہ ہے کہ وہ اپنے گھر سے احرام باندھ کر عمرے کے لیے حرم میں داخل ہوگا۔
مذکورہ بالا تمہید کے بعد سوال میں پوچھی گئی صورت کا حکم یہ ہے کہ چونکہ کشمیر سے آنے والا شخص کشمیر سے کام کے سلسلے میں اور اپنے دوست کے پاس ٹہرنے کی نیت سے آیا ہے، اس لیے اس پر میقات سے بغیر احرام کے گزرنے پر دم لازم نہیں ہوگا، لہذا اب وہ "اہل حل" میں سے شمار ہوگا اور اس کے لیے یہ گنجائش ہے کہ وہ جہاں ٹھہرا ہے، وہیں سے احرام باندھ کر عمرہ کے لیے جائے تو اس پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا، نیز اگر وہ مدینہ جاتا ہے اور وہاں سے واپسی کے وقت میقات سے احرام باندھ کر عمرہ کے لیے آ جاتا ہے تو اس کے لیے ایسا کرنا بھی جائز ہے، اس پر کوئی دم لازم نہیں ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الدر المختار: (476/2)
"(وحرم تأخير الإحرام عنها) كلها (لمن) أي لآفاقي (قصد دخول مكة) يعني الحرم (ولو لحاجة) غير الحج أما لو قصد موضعا من الحل كخليص وجدة حل له مجاوزته بلا إحرام فإذا حل به التحق بأهله فله دخول مكة بلا إحرام وهو الحيلة لمريد ذلك إلا لمأمور بالحج للمخالفة. ولو عند المجاوزة على ما مر، ونية مدة الإقامة ليست بشرط على المذهب (له دخول مكة غير محرم ووقته البستان ولا شيء عليه) لأنه التحق بأهله كما مر، وهذه حيلة لآفاقي يريد دخول مكة بلا إحرام".
(وکذا فی "انوار مناسک" مؤلفہ: مفتی شبیر احمد قاسمی صاحب زید مجدھم: ص 265، ط: مکتبہ یوسفیہ، دیوبند)
واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی