سوال:
ایک عورت کی شادی کو 30 سال ہوگئے ہیں، اس کا خاوند ازدواجی تعلق نہیں قائم کر سکتا ہے، کیا ایسا نکاح برقرار رہتا ہے یا اس کے لیے عورت کو خلع لینا ضروری ہے یا خود سے اس مرد کے نکاح سے نکل جاتی ہے؟
جواب: واضح ہو کہ شوہر کی طرف سے ازدواجی تعلق قائم نہ کرنا اس وقت فسخِ نکاح کا سبب بنتا ہے، جب شادی کے بعد سے ایک دفعہ بھی شوہر عنین (نا مرد) ہونے کی وجہ سے حقوقِ زوجیت ادا نہ کرسکا ہو، لیکن اگر ایک دفعہ بھی حقوقِ زوجیت ادا کردیا ہو تو بعد میں صرف ازدواجی تعلق قائم نہ رکھنے کی وجہ سے عورت کو فسخِ نکاح کا حق حاصل نہیں ہوتا، البتہ شوہر عمدا اگر حقِ زوجیت ادا نہیں کررہا تو وہ سخت گنہگار ہوگا۔
لہٰذا پوچھی گئی صورت میں اگر شوہر ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا کرچکا ہو تو مزید حقوق زوجیت ادا نہ کرنے کی وجہ سے عورت کو فسخِ نکاح کا حق حاصل نہیں ہوگا، لیکن اگر شوہر شادی کے بعد ایک مرتبہ بھی حقوقِ زوجیت ادا نہیں کرسکا تو ایسی صورت میں عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کے خلاف عدالت میں مقدمہ درج کرے، پھر عدالت شرعی طریقے سے فیصلہ کرتے ہوئے تنسیخ نکاح کے ذریعے نکاح کو فسخ کردے تو یہ جائز ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دلائل:
الفتاوى الهندية: (522/1، ط: دار الفكر)
إذا رفعت المرأة زوجها إلى القاضي وادعت أنه عنين وطلبت الفرقة فإن القاضي يسأله هل وصل إليها أو لم يصل فإن أقر أنه لم يصل أجله سنة سواء كانت المرأة بكرا أم ثيبا، وإن أنكر وادعى الوصول إليها فإن كانت المرأة ثيبا فالقول قوله مع يمينه أنه وصل إليها كذا في البدائع.فإن حلف بطل حقها، وإن نكل يؤجل سنة كذا في الكافي، وإن قالت: أنا بكر نظر إليها النساء وامرأة تجزئ والاثنتان أحوط وأوثق فإن قلن: إنها ثيب فالقول قول الزوج مع يمينه كذا في السراج الوهاج.
فإن حلف لا حق لها، وإن نكل يؤجله سنة كذا في الهداية.
الحيلة الناجزة: (ص: 46، 48، ط: دار الاشاعت)
واللہ تعالٰی اعلم بالصواب
دارالافتاء الاخلاص،کراچی